'پاکستان ان دی ڈرائیونگ سیٹ'
ایک اخبار میں گزشتہ دنوں لندن میں افغانستان سے متعلق کانفرنس کے بعد کی ایک خبر کی شہہ سرخی پڑھی تو ایک عجیب سا سماں آنکھوں کے آگے بندھ گیا۔
سرخی تھی: 'پاکستان ان دی ڈرائیونگ سیٹ' جب اسے ذہن کی سکرین پر دیکھنے کی کوشش کی تو پہلے تو یہ سمجھ نہیں آئی کہ یہ گاڑی کون سی ہے جسے پاکستان ڈرائیو کر رہا ہے۔ پھر کچھ سوچا تو ڈرائیونگ سکھانے والے سکول کی گاڑی کا خیال ذہن میں آنے سے الجھن کم ہوئی۔ اگر کسی نے غور نہیں کیا تو اس گاڑی کے دو سٹیرنگ ہوتے ہیں۔ ایک سیکھنے والے کے پاس اور دوسرا اسے سکھانے والے کا۔ اس کے بعد کی وضاحت کی ضرورت نہیں رہی کہ سیاسی و فوجی قیادتوں میں سے کون کس سٹیرنگ پر بیٹھا ہے اور کون اس ملک کو کس سمت لیجانا چاہتا ہے۔ ایک کو عوامی مفادات پیارے ہیں تو دوسرے کو قومی مفادات۔ عام آدمی تاہم مشکل سے دوچار ہے کہ یہ دونوں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں یا دو مختلف باتیں۔
خیر اس گاڑی کی حالت بھی سن لیں۔ بجلی، قدرتی گیس، آٹا اور چینی اس کے چار پہیے ہیں لیکن چاروں غائب ہیں یا پھر ان میں ہوا کم ہونے کی وجہ سے گاڑی کے انجن پر مزید بوجھ کا سبب ہیں۔ ویسے یہ گاڑی کم اور ٹرک زیادہ ہے۔ ایسے ٹرک جن کا ڈرائیور کیبن ہی ہے باقی کچھ نہیں۔ لہٰذا پیچھے بیٹھنے والے سولہ کروڑ عوام قدرتی ماحول کا مزا لے رہے ہیں۔ ٹرک ایسا کھچا کھچ بھرا ہوا کہ جیسے بنگلادیش میں تبلیغی اجتماع سے واپس لوٹنے والی ریل گاڑی۔ کبھی کوئی کھڈا آتا ہے تو ٹرک پر سے کئی مسافر نیچے گر جاتے ہیں۔ سڑک صرف ڈرائیوروں کو دکھائی دیتی ہے یا ان میں سے بھی محض ایک کو کسی حد تک واضح طور پر۔ باقی مسافر اللہ کے رحم و کرم پر ہیں۔ ان میں سے چند سر پھرے نوجوان ڈرائیور کیبن پر قبضہ کرنے کی کوشش میں مارے جا رہے ہیں اور اِدھر اُدھر پٹخے جا رہے ہیں۔ دوسری جانب اس گاڑی پر باہر سے بھی بعض 'غیر ٹرکی' چھلانگ لگا کر چڑھ جاتے ہیں۔ انہیں اتارنا کسی کو قبول نہیں۔
ٹرک کا ایندھن کچھ امریکہ اور کچھ آئی ایم ایف کی مدد سے ڈالا جا رہا ہے۔ کچھ سڑک ٹیڑھی ہے، کچھ چڑھائی ہے اور کچھ ڈرائیور جان بوجھ کر یا انجانے میں گاڑی کو قابو میں نہیں رکھ پا رہے ہیں۔ ایسے میں لندن کانفرنس کے شرکاء نے مشورہ دیا ہے کہ افغانستان کی گاڑی کو بھی پیچھے باندھ لو اور شدت پسندی کی دلدل سے نکال دو۔
تبصرےتبصرہ کریں
امریکہ کو پاکستان میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
صاحب جی يہ ہاٹ سيٹ ھے۔ امريکہ اور نيٹو نے اپنے آپ کے ساتھ پا کستان کو بھی دلدل ميں دھکيل ديا ہے۔ اوپر سے نا اھل حکمرانوں کی کھيپ کو جو رسد مغرب فراھم کرتا ہے وہ بھی ناقابل فہم ہے۔ پندرہ کروڑ کيڑ ے مکو ڑے عرف اشرف المخلوقات آٹے کو روئیں يا بجلی کو، يا روزگار کو يا اپنی قسمت کو۔ بےچارے نان نيٹو اتحادی۔
ایک دلچسپ تصویرکشی ہمارے ملکی حالات کی۔
لو جی کر لو گل؟ دیکھتے ہو ایک اور سازش بلاگ آ گیا ہے! مجھے تو یہ سمجھ نہیں آ رہی کہ نام نہاد دو نمبر بلاگرز پاکستان میں لگی آگ کو مثبت طریقے سے بُجھانے یا اس میں کمی لانے کی تگ و دود کرنے کی بجائے اس پر تیل کیوں چھڑکتے ہیں؟ حیرانگی یہ بھی کہ ایسا کرنے کے بعد ان استعماری ٹاؤٹ نما بلاگرز کو رات کو نیند کیسے آجاتی ہے؟ لگتا تو یہی ہے کہ کسی ذاتی مفاد کی خاطر آنکھیں اردگرد سے بند کئے ہوئے ناک کی سیدھ میں چلنے والے یہ گنتی کے چند بلاگرز پتھر کے بُت ہیں کہ جن کے پاس احساس نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔ بہرحال کوئی بات نہیں، ہم قارئین نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہوئیں، ہم اصلیت، حقیقت، اور سچائی تک رسائی اپنی مدد آپ اور رواں حالاتِ حاضرہ کو سامنے رکھ کر خود کرتے ہیں اور جب کسی پتھر ٹائپ بلاگرز سے واسطہ پڑتا ہے تو ہمارا عمل اور ردِعمل صرف یہی ہوتا ہے بقول شاعر:
‘پتھروں سے معاملہ ٹھہرا
بے رُخی کیوں نہ اختیار کریں۔‘
بڑا نقشہ کچھیا جے پاکستان دے ماحول دا
اگر کوئی لکھاری اس سے بھی زیادہ لکھ دے کم اے کہ پاکستان اب . . . . .
اللہ خیر ای کرے
آپ نے پتے کی بات کہہ دی ہے۔کہتے ہيں نا کہ عقل مند را اشارہ کافی است! بات سيدھی سی ہے کہ شتر بےمہار کی مانند ہم بغير کسی سمت کے تعين کے ڈرائيونگ سيٹ پر بڑے اہتمام وشوق سے بيٹھے ہوئے ہيں اور جس بے بس گاڑی کی جانب آپ نے اشارہ کيا ہے اس ميں بيٹھے خراما خراما روانگی کے دھوکے ميں مبتلا ہيں کہ گاڑی ايک جگہ کھڑی ہے۔
‘سچ کہہ کے کسی دَور میں پچھتائے نہیں ہم
کردار پہ اپنے کبھی شرمائے نہیں ہم‘
آپ نے دو ہینڈلوں والی جس گاڑی کا تذکرہ کیا ہے، اس کا پاکستان میں کوئی وجود نہیں اور اگر ہے تو یہ ‘حزب اقتدار‘ اور ‘حزبِ اختلاف‘ جیسا معاملہ ہے جو کہ قریب قریب ہر ملک میں موجود ہوتا ہے۔ ہاں البتہ دو سٹیرنگز والی گاڑی تاریخ میں بھی موجود رہی تھی اور اب بھی رواں دواں ہے لیکن اس کا سکھانے اور چلانے والا وہی ہے جس نے دنیا میں اپنی ‘اجارہ داری‘ قائم کرنے اور اپنے نظریاتی دشمن ‘سوشلزم‘ کا بوریا بستر گول کرنے کے لیے دو سٹیرنگز والی گاڑی ایجاد کی۔ اس گاڑی کا ایک سٹیرنگ یعنی سکھانے والا ‘ڈالر‘ کے ساتھ حرکت میں آتا تھا جبکہ دوسرا سٹیرنگ ‘لادینوں‘ کے خلاف ‘جہاد‘ سے چلتا تھا، ایک سٹیرنگ ‘دنیا داری‘ سے چلتا تھا اور دوسرا ‘دینداری‘ سے۔ نسوار، حکومت، اسلحہ اور منشیات اس ‘سازشی گاڑی‘ کے چار پہیے تھے۔ دو سٹیرنگز رکھنے والی ‘سازشی گاڑی‘ کی پانچوں انگلیاں گھی میں تھیں اور یہی وجہ تھی کہ یہ بڑی تیز رفتاری کے ساتھ اور باہم ‘ہم آہنگی‘ کی وجہ سے درست سمت کی طرف گامزن تھی اور توقع کے عین مطابق اس نے جلد ہی اپنی ‘منزل‘ کو پا لیا اور اس ‘سفر‘ سے ‘آزادی‘ حاصل کر لی۔ اسکے بعد اس ‘سازشی گاڑی‘ کو ‘گیراج‘ میں بند کر دیا گیا۔ بعد ازاں گاڑی کے بنانے والوں اور مالکوں کو خطرہ محسوس ہوا کہ ‘گیراج‘ میں پڑی پڑی کہیں یہ زنگ آلود ہی نہ ہو جائے۔ لہذا گاڑی کو ‘گیراج‘ سے باہر نکالا گیا اور ٹیوننگ کی گئی، گاڑی کو نئے دور کے نئے رحجانات اور ماڈلوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے اس میں کچھ کانٹ چھانٹ، رنگ و روغن اور رد و بدل کیا گیا۔ اس بابت ‘جہاد‘ سے چلنے والا سٹیرنگ اکھاڑ کر ‘ڈالر‘ کی مدد سے چلنے والے ہینڈل کو ‘جہاد‘ سے چلنے والے سٹیرنگ کی جگہ فِٹ کر دیا گیا۔ پھر اس کو ‘لمبے سفر‘ کے لیے روانہ کیا گیا اور اس کا آخری سٹاپ غالبآ ‘چین‘ ہے۔ گاڑی کے دونوں سٹیرنگز کا اپنے کیبن کے رہائشیوں سے بہت یارانہ ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ بعض دفعہ رات کے پچھلے پہر جب سناٹا ہو تو یہ لاشعوری طور پر کورس کی شکل میں یہ گاتے ہوئے نظر آتے ہیں بقول مکیش:
‘ہمسفر میرے ہمسفر، پنکھ تمہی پرواز ہم
زندگی کا گیت ہو تم، اس گیت کی آواز ہم۔۔۔۔‘
آپ نے جوذکرکياہے کہ ايک گاڑی کے ساتھ دوسری گاڑی جوڑنے کی تواس سے يادآيا کہ ہمارے ہاں بار برداری کے لئيے گدھےکےساتھ ايک اور گدھا نتھی کردياجاتا ہےجسے”پخ” کہاجاتا ہے ليکن سارا وزن اور بوجھ تو درميان جتے ہوئے کو سہنا پڑتا ہے۔
اچھا بلاگ لکھا ہے آپ نے مدتوں بعد، منافقت کی عينک کم ازکم جمعہ والے دن اتار کر پڑھنا چاہيۓ۔ پھر يہ بلاگ بھی اول و آخر درجے کے پڑھنے والوں کو حقيقت ہی لگے گا، گرتے پڑتے اس ٹرک سے کون صحيح سلامت رہےگا اللہ جانے ليکن ميں ٹرکاں والے کے ساتھ ہی بيٹھنا ہے بلٹ پروف جيکٹ،ہيلمٹ، پيراشوٹ سميت !
مجھے تو سکھانے والی نہيں بلکہ کوڑاکرکٹ اٹھانے والی گاڑی لگتی ہے کيونکہ اس کے بھی دو سٹيرنگ ہی ہوتے ہيں اور مافيا گروپ شريف اور معصوم عوام کی آنکھوں پہ پٹياں باندھ کر انہيں گندے سياستدانوں اور نيم ملا کے ساتھ مکس کرکے پيچھے پھينک رہا ہے۔ عوام اس گند سے اور ان کی بو سے بچنے کی ہرممکن کوشش کر رہے ہيں ليکن ٹرک سے چھلانگ لگائيں تو بھی موت اور اندر بھی موت ہی نظر آتی ہے۔
عالمی شہرت کے حامل مایہ ناز پاکستانی ادیب، شاعر، افسانہ نگار اور دانشور جناب احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا: بے وقارآزادی ہم غریب قوموں کی
تاج سر پہ رکھا ہے بیڑیاں ہیں پاؤں میں
آج پاکستان اندرونی اور بیرونی مسائل کی زد میں ہے ۔عالمی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے باعث یہاں کے عوام کے لیے رتیں بےثمر، کلیاں شرر، آہیں بے اثر، عمریں مختصر، زندگیاں پرخطر اور گلیاں خوں میں تر کر دی گئی ہیں۔ عوامی امنگوں کو تاراج کرتے ہوئےعالمی طاقتوں کے فسطائی جبر کے باعث اس وقت پاکستانی قوم شدید مشکلات اور آزمائش کے دور سے گزر رہی ہے۔ ان اعصاب شکن حالات میں اسے آزاد اور خود مختار سمجھنا خود فریبی ہے بقول شاعر
ناحق ہم مجبوروں پر یہ تہمت ہے مختاری کی
چاہتے ہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا
ڈرائیونگ سیٹ کی پخ سمجھ سے بالاتر ہے۔ آج ہم اقوام عالم کی صف میں تماشا بن چکے ہیں۔ اس پر بھی ایسے تبصرے طنز کا عنصر لیے ہوئے ہیں۔
خندہء اہل جہاں کی مجھے پروا کیا تھی
تم بھی ہنستے ہو مرے حال پہ رونا ہے یہی
گاڑی چاےجيسی بھی ہے چل ريی ہے گاڑی کےڈرائيور کو بدلنے کوشش کی تو گاڑی کو حادثہ بھی پيش آسکتا ہے