مودودی دا کھڑاک
آئندہ دس بلاگز میں ہم کوشش کریں گے کہ ان دس تہذیبی سازشوں کا احاطہ کیا جائے جنہوں نے گذشتہ دہائی میں ہماری زندگیوں پر سب سے زیادہ اثر ڈالا ہے۔
راقم کی کوشش ہوگی کہ اس تذکرے میں اسامہ، ابامہ، یا ان کے بھانجے بھتیجوں یعنی حکیم اللہ محسود اور الیاس کشمیری، یا سب پر بھاری، آصف زرداری یا اس کی بھی نانی جنرل کیانی، یا امت مسلمہ کی عفت مآب مجاہدہ ڈاکٹر عافیہ کا تذکرہ نہ آئے۔ ہم کوشش کریں گے کہ بات گھر سے باہر ہی نہ نکلے۔ ہم ذکر کریں گے ان سازشوں کا جو ہماری ٹی وی سکرینوں پر چلنے والی فلموں میں ہوتی ہے، جن کے تانے بانے باورچی خانے سے ہوتے ہوئے باتھ روم میں جا کر نکلتے ہیں۔
اس دھائی میں میں پاکستان کی سب سے سپر ہٹ فلم کا نام تھا خدا کے لیئے۔ لیکن اگر کوئی راقم سے پوچھتا تو اس کا نام ہونا چاہیے تھا ۔۔۔۔
ہمارے بچپن میں سب سے زیادہ ہٹ ہونے والی فلم کا نام تھا مولا جٹ۔ اور اس فلم کا سب سے ہٹ ڈائیلاگ تھا۔
نواں آیا اے سوہنیا۔
لکھا تھا ناصر ادیب نامی ایک فلم رائٹر نے جو اس سے پہلے وحشی جٹ جیسا ماسٹر پیس لکھ کر قوم کو آئینہ دکھا چکے تھے اور بڑا نام کما چکے تھے۔
اس دہائی کی مقبول ترین فلم ہے خدا کے لیے جس کے ڈائریکٹر شعیب منصور اس سے پہلے فوج کے خرچے پر خوبرو فوجی افسران کی معصوم شرارتوں اور ان کے وفادار صوبیداروں اور سپاہیوں کی زندگی پر سوفٹ فوکس ٹی وی سیریل بنا کر کافی مشہور ہوچکے تھے۔ خدا کے لیئے فلم سے زیادہ ایک قوم کی پکار ہے جس میں ہر ایک کو بظاہر اپنا چہرہ دکھائی دیا، اپنے دل کی دھڑکن سنائی دی۔
اس فلم کا سب سے مقبول ڈائیلاگ وہ ہے جو ہندوستانی اداکار نصیر الدین شاہ کمرہ عدالت میں کہتے ہیں۔
'داڑھی اسلام میں ہے، اسلام داڑھی میں نہیں۔'
یہ ڈائیلاگ جماعت اسلامی کے بانی حضرت مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا لکھا ہوا ہے۔ اور جب نصیر الدین شاہ اپنی پیٹ تک آئ داڑھی کو سہلا کر یہ ڈائیلاگ بولتے ہیں تو سینما ہال میں دیر تک تالیاں بجتی ہیں۔
راقم کو کبھی یہ سمجھ نہیں آئی کہ تالیاں اسلام کے لیے بج رہی ہیں، داڑھی کے لیے، ان کے باہمی آسان تعلق کے لیے یا پھر نصیر الدین شاہ کے لیے۔ کیونکہ راقم یہ سوچنے لگتا ہے کہ ہماری ہی زندگی میں یہ کیسے ہوا کہ ناصر ادیب کی بجائے ہمارے پاپولر ڈائیلاگ رائٹر حضرت مودودی قرار پائے۔
مودودی صاحب کے ڈائیلاگ صرف ہماری فلموں اور ڈراموں میں ہی نہیں ہیں بلکہ ہمارے آئین کا حصہ ہیں، ہمارے عدالتی فیصلوں کی بنیاد ہیں اور ہمارے میڈیا میں بولی جانے والی مستند مباحث کا لازمی حصہ ہیں۔ بچوں کی کتابوں میں شامل ہے اور ہمارے شہروں کی دیواریں تو ان سے محبت کرنے والوں کی نعروں سے بھری پڑی ہیں۔
حضرت مودودی تو اپنے خواب کی تعبیر دیکھنے کے لیے زندہ نہیں رہے لیکن ہم یقیناً ان کے عہد میں جی رہے ہیں۔ وہ ایک چھوٹی سی فکری تحریک اور اس سے بھی چھوٹی سیاسی جماعت کے بانی تھے لیکن اب ان کی کہی ہوئی بات سن کر اکثر لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا۔
مودودی صاحب کو یہ مقبولیت ظاہر ہے راتوں رات حاصل نہیں ہوئی۔ اس کا رستہ ٹماٹو کیچ اپ کی بوتل سے ہوتا ہوا جاتا ہے۔ اگلے بلاگ میں آپ کو کیچ اپ سازش کا راز بتائیں گے۔
تبصرےتبصرہ کریں
حنيف صاحب سلام مسنون
نہايت چست نہايت زود اثر اور نہايت دلچسپ بلاگ کے لءے شکريہ کيچ سازش پر سے راز کے پردہ اٹھانے والے بلاگ کا بھی بے چينی سے انتظار رہے گا-مگر خدا کے لءے بی بی سی پورٹل کے اس سيکشن کی طرح جمود کا شکار نہ ہوجاءيے گا -
محترم محمد حنیف صاحب، اسلام علیکم! بات یہ ہے کہ ‘مودودی کے کھڑاک‘ پر دس عدد لگاتار بلاگ، معاشرہ کو ‘راہ راست‘ پر لانے کی ایک اچھی کوشش تو قرار دی جا سکتی ہے لیکن خاکسار کے خیال میں قطع تعلق اس بات کے کہ ‘قطرہ قطرہ سے دریا بنتا ہے‘، اس کوشش کا کوئی خاطر خواہ اور مثبت نتیجہ برآمد ہونا بہت ہی مشکل ہے کہ جہاں پر چونسٹھ سال سے لگاتار ‘نظریہ پاکستان‘، ‘دو قومی نظریہ‘، ‘اسلامی جمہوریہ پاکستان‘، آئین میں ترمیمات کی بھرمار سے آئین پر ‘اسلامی آئین‘ کی چھاپ، سکولوں اور کالجوں میں اسلامیات، مطالعہ پاکستان، تاریخ، انگریزی اور اردو کے پانچ مضامین کے سالانہ امتحانوں میں انہی بالا ‘اصطلاحوں‘ کو تفصیلی طور پر بیان کرنے کے سوال پر ہی طالعبلم امتحان میں پاس ہوتا ہو، یعنی ان کو پڑھے بغیر پاس ہونا ممکن نہ رکھا گیا ہو، جو تعلیمی بندوبست چونسٹھ سال سے جنگی جنون، ‘جہاد‘ اور نفرتوں کی آبیاری کرتا آ رہا ہو، جس تعلیمی سسٹم و نصاب و پالیسی میں رواداری، بھائی چارہ، اور انسانیت پر مبنی صوفیاء کے کلام کو بھی اس قابل نہ سمجھا جاتا ہو کہ نئی نسل کو ان سے متعارف کروایا جائے، فکری کُجی کے کنویں سے باہر نکلنے کی تدبیر کرنے کی بجائے اس کُجی کو مزید مضبوطی سے پکڑ کر رکھنا سکھایا جاتا رہا ہو، آج میڈیا میں بیٹھے لوگوں کی انتہائی اکثریت بھی اسی چونسٹھ سال تعلیم کی ‘تعلیمات‘ سے ‘فیض یاب‘ ہو کر یہاں تک پہنچی ہوئی ہو تو ان حالات میں دس بلاگ تو ‘اونٹ کے منہ میں زیرہ‘ لگتے ہی ہیں! اور دس بلاگوں کا نتیجہ کچھ اس قسم کا ہی نکلتا نظر آتا ہے بقول شاعر:
‘کئی بار اس کی خاطر ذرے ذرے کا جگر چیرا
مگر یہ چشمِ حیراں جس کی حیرانی نہیں جاتی‘
محترم محمد حنیف صاحب، دس عدد بلاگ کا لفظ نہ ہی لکھا جاتا تو زیادہ بہتر تھا کیونکہ خدشہ ہے کہ اب کہیں موڈریٹر صاحب چھٹی کی درخواست دینے بارے سوچنا ہی شروع نہ کر دیں۔۔۔۔۔۔۔
کيا آپ نے کسی مفتی سے فتوا ليا ہے کہ ايسا پلاگ لکھنا حلال ہے ۔ صوفی پاکستانی قوم ايسا ہی کرتی ہے ۔ ہم پرءم ٹاءم ميں عالم آن لاءن انجواۓ کرتے ہيں ۔ مودودی اور ضياء جيت گۓ -
سلام عرض ہے-
حنيف صاحب يقين مانۓ دل خوش ہو گيا آپ کا بلاگ پڑہ کر- نديم پراچا کے بعد آپ ہی ہيں جو حقيقت کا ادراک رکھتے ہيں اور ايسا لکھ سکتے ہيں- ميڈيا ميں تو جيسے مداری کا تماشا لگا ھوا ہے اور قوم کو بيوقوف بنانے کا مقابلا- سچاہی کی بہت طلب ہے- بس يہی گذارش ہے کہ جلدی لکہے گا-
محترم حنیف صاحب اتنا سچ مت لکھا کیجیے کہیں آپ پر بھی کوئی گھریلو فتوی نا لگ جائے۔یہ الگ بات ہے آپ فتوی کی رینج سے باہر رہتے ہیں۔ انتظار رہے گا مزید 9 بلاگوں کا۔
يوں تو پاکستانی معاشرے کو مزہبی انتہا پسندی کی برين واشنگ ميں سبہی مذديبی جماعتوں نے اپنا حصہ ڈالاہے ليکن جو حصہ جماعت اسلامی کا ہے وہ سب پہ بھاری ہے ظياءالحق اور جماعت اسلامی نےمل کر جس مذہبی دھماکا خيز مواد کی بنياد رکھی تھی اور جس کا راہ ميٹريل پاکستان کے انتہائی قابل احترم صحافيوں نے مہيا کيا تھا اور وقت گزرنے کے ساتھ اس کي طاقت ميں اضافہ کے لیے نومولود آزاد الکٹريک ميڈيا بھی کود پڑا آج پوری طاقت کے ساتھ پھٹ پڑا ہے يہ مودودی کا کمال ہے کے تين سيکولر جماعتوں کی مرکز اور تين صوبوں ميں حکومت ہونے کے باوجود نصاب اور آئينن کو چھڑنے کی جئرت نہيں کر سکتے جماعت کي مدد کے لیےالقاعدہ اور طالبان ديار غير سے برامد ہو چکی ہيں جو پاکستانی عوام کي مکمل حمايت وتائد سے(بلکل ايسی حمايت وتائد جيسی ظياء کو ريفرنڈم ميں ملی تھي) سے فلسطين کی جنگ پاکستان اور افغنستان ميں لڑ ريی ہيں
’داڑھی اسلام میں ہے، اسلام داڑھی میں نہیں۔‘
یہ ڈائیلاگ جماعت اسلامی کے بانی حضرت مولانا ابوالاعلیٰ مودودی کا لکھا ہوا ہے یا نہیں مگر آپ مولانا مودودی کے ایک قدم کا ذکر کرنا تو بھول ہی گئے ہیں اور وہ ہے قادیانیوں کو غیر مسلم دلوانے کی کوشش کرنا اور یہ کوشش آج تک قادیانیوں کو تلملا رہی ہے۔ ویسے آپ کا کیا خیال ہے۔؟
مودودی صاحب بہت خوش ہونگے کے ان کی فکری تحریک پر محمّد حنیف بار بار کالم یا بلاگ لکھنے پر مجبور ہوجاتے ہیں . ویسے اتنی چھوٹی سی فکری تحریک پر دس بلاُگز . معمّہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا .. حنیف صاحب کبھی بائیں بازو کی فکری تحریک پر بھی زور آزمائی کیجیے کہ سامراج کے خلاف اُٹھی ہوئی بائیں بازو کی فکری تحریک آج کل امریکا کی گود میں کیوں بیٹھی ہے؟ اپ کیلیے اس پر لکھنا کچھ مشکل تو ضرور ہوگا پر کوشش کرنے میں کیا حرج ہے
چھوٹی سے فکری و سیاسی تحریک کے لیے 10 بلاگ۔ زبردست۔ بی بی سی اپنے آپ کو غیر جانبدار کہتا ہے تو یہاں دوسروں کا موقف بھی آنا چاہیے صرف حنیف صاحب جیسے لوگوں کا بلاگ ہی نہیں جنہیں شاید رات کو سوتے ہوئے بھی جماعت اسلامی ڈراتی ہے اور صبح اٹھ کر یہ جماعت کے خلاف بلاگ لکھ مارتے ہیں۔
محمد حنیف صاحب
میں نے مودودی صاحب کی کئی کتابیں پڑھی ہیں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ان کا بہترین تصنیفی کام وہ ہے جو وہ قیام پاکستان سے پہلےکر چکے تھے۔ مگر جس طرح آپ نے مولانا مودودی کو جنرل ضیاء الحق جیسے ظالم آمر سے نتھی کیا ہے اس سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ جیسے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی ضیاء الحق کی پیداوار ہیں، حالانکہ مولانا مودودی ضیاء دور سے پہلے ہی اس دار فانی سے کوچ کر گئے تھے۔ اور جماعت اسلامی جہاں تک مجھے معلوم ہے انیس سو اکتالیس میں قائم ہوئی تھی، ان سب باتوں سے قطع نظر اگر صرف بھد اڑانے کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو آپ نے ایک اچھا مزاحیہ کام کیا ہے ، مجھے بھی یہ کالم پڑھ کر بہت مزہ آیا ہے خاص طور پر عنوان ’مودودی دا کھڑاک‘ کا جواب نہیں ہے ۔ لیکن جو فکری کام مولانا مودودی نے کیا ہے وہ بالکل اسی سطح کا ہے جو بیسویں صدی میں علامہ اقبال، ڈاکٹر علی شریعتی اور سید قطب کر چکے ہیں ۔۔اگر آپ ان کے نظریات کو غلط سمجھتے ہیں تو فکری اور نظری دلائل کے ذریعے ان کا جواب پیش کریں ۔کیونکہ بھد اڑانے سے مزاح تو پیدا ہو سکتا ہے مگر افکار کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ، افکار کا مقابلہ افکار کرتے ہیں ، نظریات کی جنگ نظریات ہی سے جیتی جا سکتی ہے ، بالکل اسی طرح جیسے کہا جاتا ہے کہ نظام کا متبادل نظام ہی ہوسکتا ہے انارکی نظام کا متبادل نہیں ہو سکتی ۔۔
کاش مولوی حضرات اسلام کی ٹھيکيداری چھوڑ کر اپنی مظلوم رعايا پہ رحم کريں تاکہ فرقہ پرستي، عناد اور شدت پسندی سے پاک معاشرہ وجود ميں آئے اور لوگ ڈائريکٹ اپنی فرياديں اپنے رب سے مانگيں اور اپنے برے بھلے کے ذمہ دار بنيں کيونکہ آخر سب نے اپنی اپنی قبر ميں ہی تو جانا ہے۔ اگر آخرت ميں ان مولويوں سے وابستہ نہيں پڑے گا تو اب بھی ان کے بغير ہم اپنے رب کو تلاش کر سکتے ہيں۔ مودودی کے ڈائيلاگ زبردست ہيں کيونکہ سچ تو آخر منہ سے في البديح نکل ہی جاتا ہے۔
اصل قصور کچھ اپنا ہی ہے۔ ہماری اپنی سوچ منجمد ہو چکی ہے۔ کبھی کسی کے اشارے پر اسلام کا باجا اٹھا کر خود بھی ناچنے لگتے ہیں اور کبھی کسی کے اشارے پر اعتدال پسند بن کر لوگوں کو ماڈرن بننے کے لیچکر دینا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے اپنے مفاد میں کیا ہے کیسا نظام ہونا چاہیے کبھی ہم نے سوچا ہی نہیں۔
واہ حنیف صاحب دنیا کو مسائل پر فوکس کرنے کا مشورہ دے کر خود گڑھے مردے اکھاڑنے کی راہ پر چل پڑے ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ جن باتوں کو بھول کر آگے بڑھنے میں ہی عافیت ہے انہیں دوبارہ چھیڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن اگر ایسا ہے تو حنیف صاحب آپ ہمیشہ تصویر کا ایک ہی رخ کیوں دکھاتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ اس طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں جو اسلام کو ’طالبانائزیشن‘ کے رنگ میں رنگ کر ایک اسلامی مملکت کو مغرب پرستی میں مبتلا کرنا چاہتا ہے۔ آپ جیسے لوگ یقیناً انہی سامراجی قوتوں کے آلہ کار ہیں جنہوں نے ڈیڑھ سو سال تک ہمیں غلام بنائے رکھا اور اس کے بعد بھی ان کے آلہ کار ہمیں لارڈ میکالے کے نظریات پر چلاتے ہوئے مغرب زدہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ آپ نے مولانا مودودی کی ’سازش‘ کا پردہ تو چاک کر دیا اب مہربانی کر کے بتائیں کہ اپنے انگریز آقا لارڈ میکالے کی سازش کا پردہ کب فاش کریں گے جس کے نتیجے میں وہ طبقہ وجود میں آیا جس کی گٹھی میں ہی اسلام کی نفرت بسی ہوئی ہے؟
لگتا ہے وطن عزیز میں شہادت boom کا اثر کچھ آپ پر بھی ہو گیا ہے۔ کیوں ہمارے ذوق کے پیچھے پڑے ہیں۔ بہرحال تلخ سچ لکھنے کا شکریہ .....
قدم بڑھاؤ حنیف صاحب ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اگلے بلاگ کا انتظار رہے گا۔
جناب نے بڑی ہمت ڈالی۔ دسويں بلاگ کا انتظار رہے گا۔ اگر بے انتہا دباؤ برداشت کر گئے۔ ياد رہے کہ پچھتر فيصد قلم کار مولانا کے حواری ہيں۔ قلم کی نوکيں سہنے کی طاقت خدا آپ کو دے۔ مودودی صاحب اور جوش مليح آبادی کے قصے نہ آئے تو مزہ ادھورا رہ جائے گا۔ بيسٹ آف لک کہ آپ ’ہولی کاؤ‘ کو چھيڑنے چلے ہيں۔
جناب حنیف صاحب آپ کی سید ابوالااعلی مودودی سے سیاسی نوعیت کا بغض تو صاف عیاں ہے اور اسی وجہ سے آپ یہ بے وقت کی راگنی لے کر بیٹھ گئے ہیں۔ مسلمانان پاکستان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ تقسیم ملک کے وقت سید مودودی ہندوستان سے پاکستان تشریف لے آئے اور قائد اعظم کی علامہ اقبال کے ساتھ سید مودودی کو ایک نیک، مخلص، دیانتدار اور قابل انسان سمجھتے تھے۔ اور پاکستان کے حصول کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ صلاح مشورے کیا کرتے تھے۔ ڈاکٹر علامہ محمد اقبال سید مودودی کی تحریرات سے بے حد متاثر تھے۔ علامہ موصوف ’ترجمان القرآن‘ کے اُن مضامین کو پڑھوا کر سنتے تھے۔ اُن (مضامین) ہی سے متاثر ہوکر علامہ اقبال نے مولانا مودودی کو حیدرآباد دکن چھوڑ کر پنجاب آنے کی دعوت دی اور اسی دعوت پر مولانا 1938 میں پنجاب آئے۔ اپ تو اپنی باتوں سے قائد اعظم اور اقبال کو بھی مجرم قرار دیتے ہیں اور ان کی دوراندیشی اور بصیرت کو چیلنج کر رہے ہیں ۔اگر ان کو موضوع ہی بنانا ہے تو ان کی فکر اور خیالات پر بات کی جائے اور اس کے لیے سنیجدہ ہونا ضروری ہے جو آپ کے بلاگ میں مشکل نظر آتا ہے۔
مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ آخر حنیف صاحب کے سچ لکھنے پر کچھ لوگ چیں بچیں کیوں ہو رہے ہیں؟ شخصیت پرستی سے قطع ء نظر آخر مودودی بھی ایک انسان ہی تو تھا، اگر مولانا مودودی کی خوبیوں کے ترانے گانے والے کچھ تاریک پہلو سے واقف ہو جائیں تو کوئی قیامت نہیں آ جائے گی۔ ضیاء الحق اور مولانا مودودی کا فکری تعلق یاد کر کے بعض یار لوگ شرماتے ہیں تو کچھ لجاتے ہوئے تاویلات کا سہارا لیتے ہیں۔ ارے چھوڑو بھائی! مان لو سچ کڑوا ہوتا ہے۔
جب مودودی صاحب کو پاکستان کا خيرخواہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے تو سمجھ نہيں آتی قہقہہ لگايا جائے يا پھوٹ پھوٹ کے رويا جائے-
مزاح ہی مزاح میں سنجیدہ بات تو آپ نے بہت عمدہ انداز سے پیش کی ہے، مگر مزہ اس میں ہی ہے کہ اگر آپ کو کسی کی خواہ مخواہ میں مخالفت ہی کرنی ہے تو پورے دلائل کو ساتھ کی جائے۔۔۔ ۔
یا تو آپ مودودی کو اتنا بڑا تصور نہیں کرتے کہ ان کے بارے میں کوئی سنجیدہ پوسٹ دلائل کے ساتھ لکھی جائے یا پھر آپ کے ظرف کی کمی کہا جا سکتا ہے۔۔۔ ۔
البتہ پہلی بار بی بی سی پر آکر اسی پوسٹ سے پالا پرا اور سچ جانئے بہت "برا لگا"۔۔۔ ۔
ان دس بلاگز میں اس نعرے کا بھی ضرور ذکر کیجئے گا جو مودودی کے ہم عصر مولویوں نے ان کی شان میں ایجاد کیا تھا
ایک مودودی سو یہودی
!!!
صاحب جی کافی عرصے بعد آپ کو ديکھ کر خوشی ہوئی۔ اسی طر ح چٹپٹے بلاگ لکھتے رہو۔ آپ کے اگلے بلاگ کا انتظار رہے گا کہ اگلی قسط ميں کيا عقد کھلتا ہے۔
اس نعرے سے یہ بات تو ظاہر ہوگئی کہ اس معاملے پر ہمارے روایتی مولوی اور روشن خیال متفق ہیں۔
افسوس ہی کيا جا سکتا کہ نہ اسلام کی خود سمجہ ہے اور نہ ہم سيکہنا چاہتے ہين
بس يہ رٹ لگا کر بيٹے ہين يہ بھی غلط وہ بھی غلط
یہ وھی مودودی نہیں جو پاكستان بننے كا مخالف تھا اور جس كے حواری قائد اعظم كو ’كافراعظم‘ كہتے تھے كیونكہ قائد اعظم ایك شیعہ گھرانے میں پیدا ھوئے تھے۔ توبہ ھے ان مولویوں سے جو اپنی دكان چلانے كیلیے قائداعظم جیسے سیكولر اور عظیم رہنما كو بھی نہیں معاف كرتے۔
جی نہیں یہ وہ مودودی نہیں ہے کیونکہ مودودی صاحب ہی شیعہ سنی اتحاد کے سب سے بڑے داعی تھے۔ ذارا تاریخ کا مطالعہ اپنے اندر بھرے بغض و عناد کو ایک طرف رکھ کر کریں۔
عافیہ صدیقی کو بغش دیں
بعض لوگ شاید میری گذارشات کو غور سے پڑھ نہیں پائے۔ بس اپنی جو بات کرنی تھی جس کا نہ سر ہے اور نہ پیر ، کیو نکہ بات تو کرنی ہی تھی، میں شخصیت پرستی کا خود قائل نہیں اور اگر حنیف صاحب سمیت آپ نے مولانا مودودی کو تھوڑا بھی پڑھا ہوگا ،ویسے لگتا نہیں کے پڑھا ہوگا، توہزاروں صحفحات پر مشتمل لٹریچر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تمام معاملات میں اپنی رائے کا اظہار کیا کرتے تھے اس پر اصرار نہیں کرتے تھے انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ کہ میرا کہا ہوا حتمی ہے اور اس پر مزید بات کرنے کی گنجائش نہی ہے۔ لیکن آپ تو بس سنی سنائی بات کو آگے بڑھانے کی بیماری میں شاید مبتلا ہیں تو اس پر تو آپ کی صحتیابی کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔ تو میں دوبارہ یہی عرض کروں گا کہ مجھے اس بات سے سو فیصد اتفاق ہے کہ مولانا مودودی پر، ان کے خیالات پر،کتابوں پر گفتگو کی جا سکتی ہے کسی بات کو دلیل کی بنیاد پر مسترد بھی کیا جاسکتا ہے۔لیکن شرط یہ ہوکہ کہ بات تعصب کا عینک لگا کر نہ ہو بلکہ مثبت سوچ کے ساتھ اچھے انداز میں ورنہ الزام تراشی تو ہمارا ایک قومی مسئلہ ہے اور کچھ لوگو ں نے اسے قومی ایجنڈا بنادیا ہے اور بیمار زہنیت کے حامل بہت سے لوگ یہ کام بڑی مستعدی سے کررہے ہیں اور انہیں بدقسمتی سے پیلٹ فارم بھی میسر آگیا ہے جس پر رونے کے علاوہ کچھ نہیں کیا جاسکتاہے۔ اور ساتھ یہ بھی عرض کروں گا کہ مولانا مودودی نے کے بارے میں یہ کہنا کہ انہوں نے قائداعظم کو کافر اعظم کہا تھا یہ ایک ایسے بہتان کے علاوہ کچھ نہی اور جس کی تائید میں کوئی فرد بھی پیش نہیں کیا جاسکتا مولانا نے قائداعظم پر کجا اپنی زندگی میں کسی پر کفر کا فتوع صادر نہیں کیا اور ہمیشہ کفر سازی کے کلچر کی مخالفت کی اور معلومات اور آگہی کے لیے یہ بھی بتا دوں قائداعظم پر کفر کا فتوی مسلک احرار کے رہنما مظہر علی ایڈووکیٹ نے لگایا تھا اور جو شیعہ اور شعلہ نوا مقرر تھے۔اور ریکارڈ کو درست رکھنے کے لیے جسٹس منیر کیانی کی انکوائری پرمشتعمل رپورٹ سنہ انیس سو تریپن انگریزی میں صفحہ گیا رہ پر دیکھی جاسکتی ہے۔
اگر بی بی سی والے لوگوں كو تبصرا شامل نہیں كرسكتے تو كیوں آزادی اظہار كا رونا روتے رھتے ھے۔ یہ انتھائی قابل مذمت فعل ھے۔
درحقیقت روشن خیال اعتدال پسندی کا ماسک چڑھائے ماضی کی ناکامیوں کے بوجھ تلے سکڑے سمٹے وہ عناصر جن کا بایاں بازو اب اٹھ بھی نہیں پاتا، اپنی تہی دامنی کا کما حقہ احساس کرتے ہوئے اس قسم کی گرمیٴ گفتار کا سہارا نہ لیں تو اب اور کیا کریں؟ قارئین مذکورہ احساس سے محمد حنیف صاحب کی تحریر کے ذریعے بھی بدرجہ اتم بہرہ مند ہو سکتے ہیں جب انہیں سید ابو الاعلیٰ مودودی کے ’ڈائیلاگ‘ ہماری سیاسی و سماجی زندگی کا ایک اہم جز نظر آتے ہیں۔ یقیناً یہ اعترافِ حق ان کے لئے سخت تکلیف دہ ہے جو’مودودی دا کھڑاک‘ جیسے عنوان پر منتج ہوا اور اس پر ہمیں ان کے ساتھ پوری ہمدردی بھی ہے مگر ساتھ ہی افسوس بھی کہ موصوف کوشش کے باوجود اپنی بات عنوان سے نیچے نہ اتار سکے جس کی وجہ غالباً یہی ہے کہ سید ابو الاعلیٰ مودودی کے فکری کام پر نظریاتی مباحث اٹھانے کی صلاحیت و سکت ان میں موجود نہیں۔
پچھلے ایک ہفتہ کے دوران تیسری باد اپنا تبصرہ ارسال کر رہا ہوں۔ نجانے شائع کرنے میں کیا چیز آڑے آ رہی ہے۔ اگر حنیف صاحب کی طبعٴ نازک پر گراں گزر رہا ہے تو براہِ کرم مطلع فرمائیں۔
محمد حنیف اینڈ کمپنی کی سرخی تو سویت یونین کے ڈوبنے کے ساتھ چلی گئی لیکن اس کی مرچی اب لوگوں کو لگ رہی ہے۔ جماعت اسلامی کو سرخوں کے قبلے و کعبہ سویت یونین کو گرانے کا کریڈیٹ جاتا ہے۔۔۔۔ ماضی کے سرخے آج بڑے بڑے ابلاغی گروہوں میں مالکان کے مشیر بنے بیٹھے ہیں۔ ان کا ایجنڈا تبدیل ہوگیا ہے ۔ کسی نے سوال کیا کہ یہ ملازمین کے لئے آواز اٹھانے کے بجائے مالکان کی کیوں اُٹھاتے ہیں؟ اس پر ایک اور صاحب نے جواب دیا کہ یہ’کسوٹی والے ‘ اور زندگی کے’شام ‘ ہونے والے سرخے کیمونسٹ نہیں رہے، آپرچونسٹ ہوگئے ہیں۔ ان کی یہی آپرچونزم ان کو امریکہ کی گود میں لے گئی ہے۔ حنیف صاحب بلاگ لکھنے سے قبل اوپر کئی تبصرہ نگاروں کے سوالات کے جواب ضرور دے دیجیے گا۔
ویسے سلطان راہی تو نہیں رہے لیکن مولا جٹ کے کردار آج بھی’اوے جاگیرداراں ‘ کہہ کر’کسی ‘ کو للکار رہے ہیں ۔ ایک اسکرپٹ لکھ کر ان پر فلم بنا دیجیے گا۔ پسند کی جائے گی ‘ لوگ ہنسیں گے آپ پر۔۔۔