بنیاد پرستوں کی بینظیر
عافیہ صدیقی بھی ایک ڈرامائي کیریکٹر ہیں۔ پہلے انہیں غائب کردیا گیا یا وہ غائب ہوگئيں۔ پھر گرفتار ہو کر افغانستان سے کسی چھومنتر کی طرح نیویارک پہنچائي گئيں۔
امریکی فوجیوں اور سرکاری اہلکاروں پر ان کی ہی ایم فور رائفل سے مبینہ قاتلانہ حملے کے الزام میں انہیں امریکہ لایا گیا۔ 'زخمی، مظلوم، کرلاتی روتی چلاتی نہتی لڑکی۔' امریکی اور پاکستانی حکومتوں پر تبروں میں تیزی آگئي۔
تمام امریکی مخالفین کو اپنی ایک 'پوسٹر گرل' مل گئی جبکہ امریکی میڈیا کے ایک حصے نے اسے 'القائدہ لیڈی' کہا تو دوسرے نے 'القائدہ کی اما بھارتی۔' کسی نے کہا کہ وہ القائدہ کے لیے کام کرتی ہیں تو کسی نے کہا آئی ایس آئی کے لیے۔
جماعت اسلامی سے لیکر عمران خان تک اور بائيں بازو کے معروف لکھاری اور دانشور طارق علی سے لے کر نیویارک کے شاہد کامریڈ تک سبھی اس کی رہائي کی مہم کا حصہ بن گئے۔
سابق فوجی آمر پرویز مشرف پر اسے لاپتہ کروانے کا الزام تھا انہوں نے بھی ایک وکیل کو اپنا کارڈ دیتے ہوئےکہا کہ وہ بھی 'مدد کرسکتے ہیں۔'
حال ہی میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے قومی اسمبلی میں کہا کہ انہوں نے امریکی رہنماؤں سے کہا کہ اگر وہ پاکستان میں اپنا امیج بہتر بنانا چاہتے ہیں تو بڑی باتیں درکنار فقط ایک کام کریں کہ عافیہ صدیقی کو رہا کردیں۔
لگتا ہے کہ اب عافیہ صدیقی کے لیے بھی کوئي این آر او ورک آؤٹ ہو رہا ہے۔ لگتا ہے امریکی حکومت نے بھی عافیہ کے معاملے میں اپنا ہاتھ ہولا کردیا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ پاکستانی حکومت نے عافیہ صدیقی کے دفاع کے وکلاء کی فیس بیس لاکھ ڈالر بھی ادا کی ہوئي ہے۔
تمام مہربانیاں صرف عافیہ صدیقی پر اس لیے کہ حکومت اسلامسٹوں اور انکی حاشیہ بردار میڈیا سے سہمی ہوئی ہے۔ وگرنہ امریکہ میں سینکڑوں پاکستانی ہیں جو امیگریشن و دیگر مقدمات میں محبوس ہیں اور خود پاکستان میں سینکڑوں مرد اور خواتین بلوچ لڑکی زرینہ مری سمیت غائب کردیے گئے ہیں، ان کے لیے نہ انسانی ہمدردی عود کر آتی ہے اور نہ ہی جنیوا کنونشن۔
لگتا ہے بنانے والے اب اسلامسٹوں یا بنیاد پرستوں کی نئي بنیظیر بنانے میں مگن ہیں۔انگریزی بولنے والی تعلیم یافتہ لیکن باپردہ اور مظلوم اور اسلامی شعائر سے آراستہ مگر مڈل کلاسی۔ بقول فیض:
اس کارگہ ہستی میں جہاں ، یہ ساغر شیشے ڈھلتے ہیں
ہر شے کا بدل مل سکتا ہے سب دامن پر ہو سکتے ہیں
جو ہاتھ بڑھے یاور ہے یہاں جو آنکھ اٹھے وہ بختاور۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترم حسن مجتبٰٰی صاحب، اسلام علیکم! سیاسی نقطہ نظر سے آپ کی بات زندہ، وزن دار، جاندار، لمحہء فکریہ، صحیح اور قابلِ غور ہے لیکن عافیہ صدیقی کیس کے ساتھ چُپ کرکے جسطرح دیگر ‘مظلومین‘ کو نتھی کرکے ‘سارے جہاں کا درد ہے ہمارے جگر میں‘ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے، اس سے بلاگ کی تعلیمات میں گڑبڑ، لفاظی کا ھیر پھیر، اور دال میں کالا کالا بھی بآسانی دیکھنے میں آتا ہے۔ جہاں تک خاکسار کا خیال ہے، عافیہ صدیقی کیس کو اہمییت دینے میں حکومت کا مقصد صرف یہ ہے کہ وہ پاکستانی عوام کی اخلاقی ہمدریاں سیمٹ کر حکومت کو کسی قسم کے ‘خطرہ‘ سے محفوظ رکھنے کی تدبیر کر سکے۔ علاوہ ازیں عافیہ صدیقی کیس کو ‘دین و ایماں‘ سمجھ کر لڑنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ ایسا کرنا دراصل پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کا ‘مصالحت پسندانہ‘ پالیسی کا ایک حصہ ہے۔ اور ظاہر ہے کہ چونکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے اتحادی پارٹیاں قریبآ تمام کی تمام نہ صرف بیک وقت بلکہ خالصتآ ملائیت و آمریت کی پیداواریں ہیں اور ان پارٹیوں کی پیدائش کا بنیادی مقصد ہی پیپلز پارٹی کو ختم کرنا، اسے تقسیم کرنا، اسکے ٹوٹے کرنا اور اس میں انتشار پھیلانا تھا، لہذا ان حالات میں عافیہ صدیقی کیس کو اولیت دینا دراصل پاکستان کو ‘عالمی شر‘ سے زیادہ سے زیادہ دیر تک محفوظ رکھنا ہے، نیز عافیہ صدیقی کیس کو جس خشوع و خضوع سے حکومت لڑ رہی ہے اس سے امریکہ مخالف جذبات میں کمی لانا اور ‘ڈرون حملوں‘ پر عوامی جذبات میں کمی لانا بھی ہے۔
مجھے تو ڈاکٹر عافیہ کے اس دعوٰی پر حیرت ہے کہ وہ ایک گھنٹے میں پاکستان اور طالبان کے درمیان امن قائم کرا سکتی ہیں۔ حوالہ کے لئے کل کا بی بی سی اردو موجود ہے
بندے کی شکل جسیی بھی ہو بات تو اچھی کرنی چاہیے۔
ميرے خيال ميں امريکہ عافيہ صديقی کے کيس کی وج سے بہت بدنام ہوا ہے اور اسے اس کيس کو ختم ہی کرنا پڑے گا ۔ويسے بھی پاکستانی عورتيں اپنی مرضی سے قدم نہيں اٹھاتی بلکہ ان کے ذہنوں پہ اپنے خاوند يا کسی روحانی پيشوا کا زيادہ اثر ہوتا ہے۔ اس ليۓ پاکستانی کرتا دھرتا اگر امريکی حکام کو يہ باور کروانے ميں کامياب ہوگئے تو اس بيچاری کی جان چھوٹ جائے گي۔يہ جن کو آپ نے اسلامسٹ کہا ہے يہ بنيادی طور پر مذہبی بيوپاری ہيں جو کہ اپنا کاروبار چمکانے کے ليۓ ہر وقت مال کی تلاش ميں ہوتے ہيں اس ليۓ عافيہ صديقی ان کے کاروبار ميں بے نظير ہی ثابت ہونگيں ۔
آپ کو عافیہ صدیقی کی رہائی کی مہم پر اعتراض ہے یا اسلامسٹوں پر یہ تحریک چلانے پر ؟ کسی کے نظریات سے اختلاف ہونا کوئی بری بات نہیں مگر اگر کوئی اچھا کام کر رہا ہے تو اس پر بھی تنقید چہ معنی دارد ؟
حسن بجافرمايا آپ نے۔کوئي دن ہوتا ہے کہ شہر بھر ميں ڈاکٹر عافيہ کے پوسٹر اور بينرز بمعہ تصاوير امڈ آتے ہيں پھر چند دن کی خاموشي۔کچھ دن کے بعد انکی بہن ميڈيا ميں سامنے آتی ہيں اور کراچی ميں پريس کانفرنس کے بعد اسلام آباد رحمان ملک يا وزيراعظم گيلانی سے ملتی ہيں ۔اگر اسلام آباد کے ايوانوں تک رسائی نہ ہو تو جماعت اسلامی کے رہ نماوں کے ہمراہ پريس کے سامنے جلوہ گر ہوتی ہيں۔ اس کے بعد وہ سفارتی محاذ پر سرگرم عمل ہوجاتی ہيں۔عافيہ کے منظرعام آجانے پر اسے بيٹے کی حوالگی کا مطالبہ کرتی ہيں تو صرف ايک بچے کی واپسی ہوتی ہے۔ اسی دوران ايک آدھ بار انکی والدہ محترمہ بھی سامنے آئيں۔ساتھ ہی ايک اور معاملہ سامنے آيا کہ ڈاکٹر عافيہ کے شوہرنامدار اچانک سامنے آگئے يوں کہانی نے ايک نيا موڑ لے ليا۔شہر ميں گاہے بگاہے انکی رہائی کے لئيے مظاہرے ہوتے رہے۔ليکن يہ معمہ اپنی جگہ برقراررہاکہ يہ نيورو سائنسدان ڈاکٹر عافيہ کون ہيں اور انکا قصور کيا ہے انکو گرفتار کيوں کيا گيا ہے۔حالت يہ تھی کہ ميڈيا ميں يہ معاملہ سامنے آنے پر اتنا گھمبير بن گيا تو اسلام آباد ميں مقيم امريکی خاتون سفير کو اخبارات کے مديران کو وضاحتی خط لکھنے پڑے۔اسی دوران ايک نہ سمجھ ميں آنے والی ديو مالائی قسم کی فلمی کہانی سامنے آئی کہ اس نہتی خاتون نے دوران حراست نقاہت کا شکارہونے کے باوجود بھی باپردہ ہوکر پردے کے پيچھے چھپ کر امريکی فوجيوں پر دوران حراست کابل کے امريکی سفارت خانے ميں حملہ کرديا۔اس کے بعد اس کو زخمی حالت ميں امريکہ منتقل کرديا گيا۔اب حالات بدلتے ہيں کہ ان کے اغواء کی ايف آئی آر کراچی کے گلشن اقبال تھانے ميں درج ہوجاتی ہےغرض کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی کے مصداق لگتا ہے کہ جس طرف آپ نے اشارہ کيا ہے وہ بڑی حد تک درست دکھائی ديتا ہے
سامراج کی نمک حلالی انسان کی سوچ و فکر پر اتنا برا اثر ڈالتی ہے، اس کا اندازہ يہ بلاگ پڑھ کر ہواـ عافيہ صديقی کی بڑھتی ہوی حمايت پر اتنی تکليف شايد امريکہ کو بھی نہ ہوی ہو جتني نام نہاد روشن خيالوں کو ہو رہی ہےـ اپنے „سازشی نظريات„ سے پاکستانی قوم کو معاف ہی رکھا کرو تو بہتر ہے۔
پاکستان کے کسی بڑے شہرمیں آپ کی گاڑی اشارے پر رُکے تو قوم کی عافیہ صدیقی جیسی بیٹیاں بھاگتی ہوئی آتی ہیں اور بھوک سے رہائی کے لئے بھیک مانگتی ہیں- بیس لاکھ ڈالر میں سے انکو کوئی کچھ نہیں دیتا، نا ہی انکی رہائی کے لئے کوئی عمران خان یا منور حسن مہم چلاتا ہے- جیسے یہ کسی کو نظر ہی نہیں آتیں-
اگر اسلامی بنياد پرستوں کی اس مہم سے اتنی تکليف ہو رہی ہے تو بائيں بازو والے انسانی جانوں کے بيوپاری بشمول ايم کيو ايم اور اس کا حاشيہ بردار ميڈيا بی بی سی يہ کام شروع کيوں نہيں کر ديتا! اگر عافيہ صديقی پر کوئی الزام تھا تو يہ مقدمہ پاکستان ميں چلنا چاہيے تھا ، رات کے اندھيرے ميں اس کو کراچي سے بگرام ائربيس کس نے پہنچايا؟ کيا کوئی مشرف سے يہ پوچھنے کی جسارت کرے گاکہ اس ”دلالي” کے کتنے پيسے ملے؟
عافيہ صديقی پيشہ ور اسلامسٹ کی بے نظير صرف ان کے مقاصد کی تکميل تک تو ہو سکتی ہے اور اس کے بعد اس کی زندگی شايد بے کار جائے ليکن محترمہ بے نظير اپنی بے باقی اور عوام کے دلوں پہ راج کرنے کی وجہ سے ہميشہ (دم مست قلندر بے نظير) رہے گي۔
اتنی لائق فائق اور ہونہار خاتون کا اس طرح خوار ہونا دکھ ديتا ہے، بالکل بے نظير کی طرح، جو نالائقوں کی پارٹی کی سر براہ تھيں- عافیہ کا ٹيلنٹ دہشت گردوں کی ہمدردی ميں ضائع ہوا اور بے نظير کا دہشت گردوں کی دشمنی ميں- ليکن دہشت گردوں اور نالائقوں کو کيا فرق پڑتا ہے؟ انھيں تو صرف اپنے پروپيگنڈے سے غرض ہے-
يہ حکومت قومی خزانے کو مفت کا مال سمجھ کر لٹا رہی ہے، خود لوٹنے کے علاوہ، ميڈيا پر چھائے ہوئے شدت پسندوں کے حاميوں کو ٹھنڈا کرنے کے ليۓ دو ملين ڈالر کی خطير رقم امريکی وکيلوں کے حوالے کردي- ورنہ سب جانتے ہيں کہ اصل کہانی کيا ہے- صرف خود کش حملوں کے ڈر کي وجہ سے سب خاموش ہيں- امريکي ڈرون اور طالباني خوکش بمبار، انہي کي آجکل مرضي چلتي ہے-
ذاتي طور پہ ميں بھٹو كو پسند نہيں كرتا۔ ضياء مجھے اس سے بھي زيادہ نا پسند ہے ۔
قطع نظر اس بحث سے كہ عافيہ صديقي كي رہائي كي آواز بلند كرنا كتني ملائيت پسندي ہے، اہم بات سوچنے والي يہ ہے ، خاص طور پر ان لوگوں كے ليے كہ جو دائمي ملائيت كے فوبیا ميں مبتلا ہيں اور جنہيں بي بي سي كي خاص مہربانياں حاصل ہيں، كہ ضياء دور نے آخر كتنے پاور كي ملائيت پاكستان ميں انجيكٹ كر دي تھي جو، باوجود متعدد پچھلے اور موجودہ سرخ دور حكومتوں كے، ابھي تك نہ صرف زور و شور سے موجود ہے بلكہ روز بروز بڑہتي ہي جا رہي ہے؟
وہ سرخ انقلاب جو كم و بيش سو سال سے بھي زيادہ عمر والا ہو گيا ہے، كيا اتنا بودا ہے كہ صرف گيارہ سالہ ملائي، بدعنواني سے بھرپور دور اس كے تدارک كے ليے كافي تھا؟
بنگلہ ديش سے لے كر فلسطين تك پھيلے ہوئے اسلامي ممالک كے وہ لوگ جو ملائيت زدہ ہيں، كيا ضياء كي پيداوار ہيں ؟صرف اتنا عرض كر ديجيئے كہ پچھلے نو سالوں ميں روشن خيال، ايمان دار اور غير انتہا پسند حضرات اپني تمام تر مرضي كے وسائل، زمان اور مكان كے باوجود عراق اور افغانستان ميں، مكمل نظام تو چھوڑيں، امن ہي كيوں نہ قائم كر سكے ؟
ايك بات كہ جن مظالم كا تزكرہ آپ نے كيا ہے، بلوچستان اور وہاں كي خواتيں كے حوالے سے وہ بلا شک و شبہ نہ صرف حقيقت ہيں بلكہ اندوہناک بھي ہيں۔موجودہ حكومت ان مظالم كے خاتمے كي خواہاں بھي ہے اور دعوےدار بھي ہے۔يہ حكومت اپني مقتولہ
رہنما كي تفتيش كے سلسلے ميں كتني مخلص رہي ہے، كيا آپ بتا سكتے ہيں؟ اس كہ جواب ميں ہي اس سوال كا جواب بھي چھپا ہوا ہےكہ ملائيت كيوں ابھي تک باقي ہے اور انتہا پسندكيوں پيدا ہو رہے ہيں۔