بے اعتبار صحافت
بیرون ملک سے گزشتہ دنوں ایک ٹیلیفون نے ذہن میں عجیب سی ہلچل شروع کر دی۔ کرے تو بیچارہ صحافی کرے کیا آج کل کے انتہائی کشیدہ اور پرُخطر حالات میں؟ حکومت اور خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے تو صحافیوں اور خصوصاً ان صحافیوں کے ٹیلیفون 'بگ' کرنا جو قبائلی علاقوں کی رپورٹنگ کرتے ہیں کوئی خفیہ بات نہیں رہی۔ اب تو وہ ہنس کر بتا بھی دیتے ہیں کہ آپ کے فون ہم سنتے رہتے ہیں لہذا آپ کی طالبان سے کیا بات چیت ہوتی ہے ہمیں بتانے کی ضرورت نہیں تاہم آپ کے لیے بہتر ہے کہ آپ باتوں میں احتیاط کیا کریں۔ یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے۔
دوسری جانب حکومت کے بلوچستان پیکج پرگزشتہ دنوں مزاحمتی تحریک کے ایک بلوچ رہنما کا ردعمل جاننے کے لیے ان سے بیرون ملک ٹیلفونک انٹرویو کیا۔ اکثر ایسے انٹرویو بہتر جواب کی توقع میں طویل کئے جاتے ہیں لیکن بعد میں ضرورتِ پروگرام کے تحت ایڈٹ کر لیے جاتے ہیں۔ یہی کچھ ان بلوچ رہنما کے انٹرویو کے ساتھ بھی پیشہ ورانہ دیانت کے ساتھ کیا۔
لیکن اس کے بعد بیرون ملک سے ایک کال موصول ہوئی۔ تعارف کے بعد فون کرنے والے نے ایسے سوالات شروع کیے جیسے کسی حوالاتی سے کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اصل انٹرویو بھی ریکارڈ تھا اور جو نشر ہوا وہ بھی۔ ان کا اصرار تھا کہ دونوں انٹرویو میں سنوں اور بتاؤں کہ فلاں سوال کا فلاں جواب کیوں کاٹا گیا؟ پھر انہوں نے میری وضاحت بھی یہ کہتے ہوئے ریکارڈ کی کہ وہ پورا انٹرویو اپنے انٹرنٹ ریڈیو سے نشر کریں گے۔
صحافت ناصرف مشکل ہوگئی ہے بلکہ بےاعتبار بھی۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترم ہارون رشید صاحب، عید مبارک! آپ نے بالکل بجا فرمایا ہے۔ ویسے بھی صحافت پر اندھا دھند بھروسہ کرنا کبھی بھی دانشمندی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ کیونکہ آجکل صحافت کی آڑ میں ‘پراپیگنڈہ‘ کیا جاتا ہے، لوگوں کو گمراہ کرکے ‘استعماری عزائم‘ کی راہ ہموار کی جاتی ہے، جلتی پر پانی ڈالنے کی بجائے آج کی صحافت تیل ڈالتی ہے۔ دور کیوں جائیں نام نہاد مقبول چینل کے اس پروگرام کو ہی دیکھ لیں جسکو بند کیا گیا ہے، اسکے میزبان کو ‘این آر او‘ سے فائدہ اٹھانے والا صرف ایک ہی شخص یعنی ‘ہِز ایکسیلینسی صدر پاکستان‘ نظر آتا ہے اور اس کے پروگرام میں سارا ‘این آر او‘ صرف اسی ایک شخصیت کے گرد گھومتا ہے۔ دوسری طرف اس میزبان کو ایم کیو ایم کا الطاف حسین، فاروق ستار ‘این آر او‘ میں نظر ہی نہیں آتے۔ یہ حقیقت عیاں کر دیتی ہے کہ آج کی صحافت رنگ میں بھنگ ڈالتی ہے، جمہوریت پر آمریت کو مسلط کرنے کی راہ ہموار کرتی ہے اور آمریت میں جمہوریت کا ڈھول پیٹتی ہے۔ دوسری طرف یہ بات بھی صحافت پر بھروسہ کرنے نہیں دیتی کہ ہر بندہ چاہتا ہے کہ وہ وہی سنے، پڑھے، دیکھے جو اس کے اپنے نظریات پر فِٹ بیٹھتا ہو۔ اگر ایسا نہیں تو وہ صحافت اس کے لیے ‘پراپیگنڈہ‘ کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ غیرجابنداریت ہی صحافت اور قاری میں باہم توازن پیدا کر سکتی ہے۔ ‘ایڈیٹنگ‘ کا بنیادی مقصد ہی انٹرویو یا پروگرام کو ‘ری رائیٹ‘ کرنا ہوتا ہے باالفاظ دیگر، صرف ‘کام کی باتیں‘ شامل کرنا ہوتا ہے۔ اب یہ کام کی باتیں نہیں معلوم کہ کیا ہوتی ہیں کیونکہ اگر بی بی سی کے لیے کام کی باتیں ہوں تو عین ممکن ہے کہ بلوچستان یا پاکستان کے لیے خطرناک ہوں۔ شکریہ۔
‘اُسے کسی کی محبت کا اعتبار نہیں
اُسے زمانے نے شاید ستایا بہت ہے‘
ہارون رشيدصاحب!جن حالات ميں آپ حضرات آپ رپورٹنگ کررہے ہيں اس پر آپ داد و شاباشی کے مستحق ہيں۔ ايک طرف شدت پسندوں کی دل پسند خبروں کی اشاعت کا اصرار دوسری طرف قومی مفادات کے نگہبانوں کی ناراضگی مول لينے کامعاملہ جبکہ دونوں طرف سے اس بات کا خدشہ بکہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ مقعہ پاتے ہی يہ لوگ حملہ آور ہونگے۔صحافی حضرات پيشہ وارانہ سرگرميوں ميں مصروف عمل رہتے ہيں تو يہ دونوں فريق انکی ٹوہ جو ميں گھات لگائے انکی کڑی نگرانی ميں مصروف عمل رہتے ہيں
ايڈٹنگ کے نام پر پوری بات ہی بدل دينا کون سے کلر کی صحافت کہلاتی ہے؟
کيا آپ نے سوچا ہے کہ ايک غلام قوم کی کس طرح اور کتنی دل آذاری ہوئی ہوگي؟ جہاں لوگ اپنی جان و مال قربان کر رہے ہوں وہاں مفاحمت کے معنی کيا نکلتے ہيں؟
خفيہ ايجنسيوں کے علاوہ وہ بھی تو انٹرويو ريکارڈ کرسکتا ہے جس سے آپ انٹرويو لے رہے ہوں کيونکہ يہ ٹيکنالوجی عام ہے اور ويسے بھی يہ کامن سينس والی بات ہے کہ جنگ ہو رہی ہو اور ملک سے عليحدگی کی تحريکيں چل رہی ہوں اور فون ٹيپ نہ کيۓ جائيں کيونکہ يہ بھی ايک جنگی حکمت عملی کا حصہ ہے۔ رہی بات صحافت کی تو کسی بھی خبر کو توڑمرور کر پيش کرنا يا عوام کی خواہس کے مطابق دينا تجارتی حربے ہيں جو کہ تقريباْ تمام نيوز چينلز کرتے ہيں کيونکہ يہ تو لوگوں کے بھی علم ميں ہے کہ فلاں اخبار پی پی پی کا ہے اور فلاں جماعت اسلامی يا مسلم ليگ وغيرہ کا ۔نيز پرانے زمانے ميں افواہيں لوگ پھيلاتے تھے جبکہ يہ کام آج کل نيوز چينلز نے سنبھالا ہوا ہے ليکن کچھ اچھے ادارے آج بھی غير جانبداری کی وجہ سے مقبول ہيں۔
جناب اگر ڈر لگتا ھے تو کوہی اور پیشہ اختیار کری-
سب سے اچھا جہاد ظالم حکمران کے آگے کلمہ حق کہنا ہے۔ اگر آپ یہ مقصد درست طریقے سے ادا کر رہے ہیں تو میرا یقین ہے کہ آپ کا دل بہت مضبوط ہو جاتا ہے۔ جس طرح کے حالات میں آپ لوگ رپورٹنگ کر رہے ہیں حقیقت میں بہی مشکل ہے۔ لیکن حقیقت کا سامنا کرنا آپ لوگوں کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ آللہ آپ سب کو اپنے حفظ امان میں رکھے۔
پاکستانی صحافت باقی دنیا سے بلکل مختلف ہے۔ یہاں چند اخبارات سیاست میں کھل کر حصہ لیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نئی بات میڈیا مافیا کی سن رہے ہیں جس میں پانچ صحافی قوم کی تقدیر کے ساتھ کھیلنا چاہتے ہیں۔ ایک اخباری گروپ زرداری سے نفرت کرتا ہے تو دوسرا انہیں پسند کرتا ہے۔ یہی گروپ انیس سو ننانوے میں نواز شریف کے بھی خلاف تھا۔ مجھے یہ کہنے کا موقع دیں کہ پاکستانی صحافی اس پیشے کی ایتھکس کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ ہمیں پشاور یونیورسٹی میں حافظ ثنا اللہ ہمیں صحافتی ایتھکس کے بارے میں ہی پڑھایا کرتے تھے لیکن یہ سب کچھ کہاں گیا؟
محترم
آج تو وسیع النظری عنقا ہے تنقید برداشت کرنے کے لیے جس عالی ضرورت ہے وہ خیال و خواب بن گئ ہے حریت فکر کے مجاہد بے بسی کے عالم میں الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرتے ہیں جبر کی اس فضا میں یوں لگتا ہے روح قبض کی جا رہی ہو
يہ تپصرہ خوب ہے
پاکستانی صحافت پر ابھی بھی ضیاء الحق دور کے اثرات ہیں ،میڈیا پر جرنل حمید گل بڑی ڈھٹائی سے جھوٹ بول بول کر جاتا ہے اور اس سے پوچھے اور ثبوت مانگنے والا کوئی صحافی نہیں ہوتا
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان خفیہ ایجنسیوں کو پاکستان کے دوسرے مساپل کی طرف بھی دھیان دینا چاہیے۔ یہ انڈیا کے جاسوسوں کو کیوں نہیں پکڑتے ۔ جو شر پھیلانے کی وجہ ہیں ۔ میری ان سے درخواست ہے کہ آپ لوگ صحافیوں کی جان چھوڑ کر کوی اور کام بھی کریں۔
آپ اپنے پيشے کو صحافت کہ کر صحافت کی تذليل نہ کريںۂ
جناب ہارون رشید صاحب آپ نے خفیہ ایجنسیوں کی کارروائیوں پر تو تنقید کر دی مگر آپ کو چاہیے تھا کہ عوام کو یہ بھی بتا دیتے کہ تمام تر ’’مظالم‘‘ کے باوجود آپ نے پاکسستان کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے کا کام بند نہیں کیا اور آپ اپنے ’’عزم‘‘ پر ثابت قدمی سے ڈٹے ہوئے ہیں۔ اور اس سلسلے میں دھمکی تو دور کی بات ہے کوئی آپ کی منت بھی کرے تو بھی ’’پایہ استقلال‘‘ میں لغزش نہیں آئے گی۔
یاس بلاگ پر کئے گئے تبصروں میں ہمارے ایک بلوچ بھائی نے خود کو ’’غلامی میں جکڑی ہوئی قوم‘‘ قرار دیا ہے ان کی خدمت میں عرض کرتا چلوں کی پورا پاکستان سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کا غلام ہے اور اسٹیبلشمنٹ کا نہ کوئی مذہب ہوتا ہے نہ کوئی فرقہ اور نہ کوئی صوبہ وہ بلا امتیاز پوری قوم کے ساتھ ایک جیسا سلوک روا رکھتی ہے۔ اور آپ بھی اپنے ان بلوچ سرداروں سے ضرور ساب مانگیئے جو اپنے بچوں کو آکسفورڈ میں پڑھاتے ہیں اور اپنے علاقے میں ایک سکول تک نہیں بننے دیتے۔ شکریہ
و ا قعی اس د و ر ميں صحا فت ھر جگہ او ر با لخصو ص تيسر ی دنيا ميں بھت کٹھن کا م ھو گيا ھے„بھر حال استقا مت د کھا نے او ر بے با ک رپو ر ٹنگ پر مبار ک با د
ہارون صاحب: صحافت ہو یا سیاست اس کی پرورش اور افزائش ایک احساس اور دردمند دل میں ہوا کرتی ہے۔ اسے پروان چڑھانے کے لیے خون دل کشید کرنا پرتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اب صحافت تجارت بن گئی ہے اور سیاست دہشت اور سامراجیت۔ لیکن جب بھی کسی عالمی خبررساں ادارے کی بات آتی ہے تو بی بی سی کا نام ضرور آتا ہے۔ حالانکہ بی بی سی نے اپنے معیار اور اعتبار کو مزید بلند کرنا شاید چھوڑ دیا ہے یا پھر ہماری ضرورت سے زیادہ امیدیں اس سے وابستہ ہوگئی ہیں۔