کشمیری معاشرہ بکھر گیا
آپ کو معلوم ہے کہ جس خطے یا علاقے میں سیاسی تنازعہ ہوتا ہے وہاں شک و شبہات کی خطرناک فضا بھی جنم لیتی ہے۔ ماں بیٹی کو، باپ بیٹے کو اور بھائی بھائی کو مشکوک سمجھتا ہے۔
اکثر لوگ کہتےہیں کہ اس طرح کی فضا پیدا کرنے میں خفیہ ادارے اہم کردار ادا کرتے ہیں تاکہ اصل مقصد سے توجہ ہٹ سکے۔ وہ ماحول میں صرف شک کا ایک بیج بوتے ہیں پھر اس کی آبیاری کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ یہ پودا خود بخود نُمو پاتا ہے اور ایک طاقتور درخت کی شکل اختیار کرتا ہے۔ اِس درخت کو کاٹنے میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔
کشمیر میں اب ایسا ہی ماحول ہے اور ایسا ہی درخت اپنی شاخوں میں سب کوجکڑ رہا ہے۔ ہر شخص دوسرے کو خفیہ اداروں کا ایجنٹ سمجھتا ہے۔ کوئی پاکستان سے کیا آیا کہ آئی ایس آئی کا ایجنٹ ہے، بھارتی اہلکار سے کوئی کیا ملا کہ را کا کارکن کہلایا جاتا ہے اور اگر کوئی برطانیہ سے کشمیر پہنچ گیا تو ایم آئی فائو کا لیبل لگ جاتا ہے اور ان سب کی اُستاد سی آئی اے ہے جو امریکہ میں رہنے والے ہر کشمیری کے ذہن میں بیٹھ کر راز نچوڑ رہی ہے، جیسے دنیا میں کشمیر کے بغیر اب کسی کے پاس کوئی کام نہیں رہا ہے۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ کشمیر میں نہ کسی لیڈر کی عزت رہی ہے اور نہ اُن کے پیروکاروں کی۔
اگر یہ مان بھی لیں کہ ایسی فضا جان بوجھ کر پیدا کی گئی ہے تو پھر اس کا فائدہ ضرور خفیہ اداروں کو حاصل ہوا ہے۔ اس وقت کشمیری معاشرے کا تانا بانا بالکل بکھر چکا ہے۔
معاشرے میں اتنی خرابیاں پیدا ہوئی ہیں کہ ہر خرابی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالی جاتی ہے اور ان کو دور کرنےپر کوئی توجہ نہیں۔
جرائم، ڈرگس، ریپ اور مرڈر سب کچھ اُس وادی میں ہو رہا ہے جہاں گھروں میں چاقو رکھنے کی روایت نہیں تھی کہ کہیں کوئی فعل نہ ہوجائے۔ مرغی ذبح کرنے کے لیے میلوں جا کر کسی شخص کی منت سماجت کرنی پڑتی تھی اور پھر یہی وادی ہتھیاروں کا ڈیپو بھی بن گئی۔
کشمیر میں جس کسی سے بات کریں وہ صرف دہائی دیتا ہے لیڈروں کی، آزادی نوازوں کی، فوج کی اور خفیہ اداروں کی، کوئی یہ نہیں کہتا کہ معاشرے میں بڑھتے جرائم کو کیسے روکیں اور کون روکے۔ شاید آزادی کے جذبے نے باقی تمام جذبوں کو روند ڈالا ہے مگر وہ آزادی کس کام کی جب معاشرہ ہی بکھر چُکا ہوگا۔
تبصرےتبصرہ کریں
بجا فرمايا-برسوں سے غلامی ميں جکڈی يہ حال نہ ہو تو اور کيا ہو گا-اپ ک بلاگ پڑ کر يہ خوشی ضرور ہوتی ہے کہ چلو کوہی تو ہے جسے اپنے وطن اور اپنے لوگوں کا کچہ خيال ہے
يہ صرف کشمير ہی نہيں بلکہ پاک و ہند کے کے وہ تمام علاقے يہاں لوگ عليدگی کو اپنی کاميابی کا مستقبل سمجھتے ہيں نہ کہ حکومت سے تعاون کرنے کی سوچتے ہيں تو خفيہ ادارے يہ حربے تو استعمال کرينگے ہی کيونکہ يہ ہی آسان حل ہےـدنيا ميں اچھی زندگی گزارنے کا واحد حل اپنی مرکزی حکومت سے مکمل تعاون ميں ہے چاہے وہ کيسی ہی کيوں نہ ہو باقی نظريات کی جنگ ووٹنگ سے جيتی جاتی ہے جنگوں سے نہيںـ
کشمیری معاشرے کا شیرازہ آج نہیں بلکی کئے سال پہلے ہی بکھر چکا تھا. اور کشمیری لوگ اب صرف ایک کھوکھلی آزادی کے حصول کیلئے خاک چھان رہے ہیں.
محترمہ یاد رکھئے آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور اسے پانے کیلئے بہت قربانیاں دینا پڑتی ہیں ذرا چچنیا پر نظر ڈالیے اس کی تقریبا ساری آبادی آزادی کی جنگ لڑنے میں خرچ ہو گئی مگر جذبہ حریت اب بھی زندہ ہے۔ جب آزادی مل جائے گی تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ ہر قوم پر بحران آتے ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ انھہیں حرف آخر سمجھ لیا جائے اور جو کچھ آج کشمیر میں ہو رہا ہے اس کیلئے بھارت، امریکہ، روس اور عالمی برادری ذمہ دار ہے ان کے خلاف بھی کچھ لکھئے۔ مظلوم کو مزید ظلم سہنے کی صلاح دے کر آپ نے انصاف سے کام نہیں لیا۔
بہت درست تجزیہ کیا ھے۔ اس طرف بھی ایسی ہی صورتِ حال ہے۔ ہر کوئ دوسرے کو مشکوک سمجہتا ہے۔ مقبول بٹ شہید کو بھی اُدھر پاکستان کا تو اِدھر بھارت کا ایجنٹ کہا جاتا تھا مگر وہ اپنے ضمیر کا ایجنٹ تھا۔
عارف محمود کسانہ۔ سویڈن
کشمیری معاشرہ خود تقسیم نہیں ہوا بلکہ سازشوں کے تحت بکھیرا گیا اور یہ معاشرہ ان لوگوں نے بکھیرا ہے جنہوں نے 63سالوں سے کشمیریوں کو غلام بنا یا ہوا ہے حالانکہ اقوام متحدہ میں ان لوگوں کے آباءو اجداد نے کشمیریوں کو ان کا حق دینے کیلئے رائے شماری کرانے کا وعدہ کیا تھا مگر منافقت سے آج تک کشمیریوں کو ان کا حق دینے کے بجائے تقسیم در تقسیم کیا جا رہا ہے