زرداری کی 'لاٹری'
'پاکستان میں کئی لوگ زرداری سے ایسے جلتے ہیں جیسے یہاں امریکہ میں لوگ اس لاطینی امریکی تارک وطن سے حاسد ہیں جس کی حال ہی میں تین سو تیس ملین ڈالر کی لاٹری نکل آئی ہے۔' زرداری سے نفرت - محبت کے ملے جلے خیالات رکھنے والے میرے ایک دوست نے مجھ سے کہا۔
مجھے میرے دوست کا پاکستان کے حالات و حادثات کے پروردہ صدر زرداری کا موازنہ امریکہ میں ایک ایسے شخص سے کرنا جس کی اتنی بڑی لاٹری نکل آئی ہو اچھا لگا۔
مجھے پاکستانی ٹرکوں، بسوں اور رکشوں پر لکھا ہوا یہ بھی اچھا لگا 'محنت کر حسد نہ کر۔' میں نے سوچا اس شخص نے کتنی محنت کی ہے۔ جارج بش سینئر کے دنوں میں وائٹ ہاؤس کے لان پر سر پر بلوچی پگڑ سجائے پاکستان میں تاریکیوں کے اس گمنام شہزادے کا دنیا کی پریس فوٹو گرافروں کی چکا چوند کیمروں کی توجہ اپنی طرف متوجہ کروا کر ٹائم میگزین کے سرورق پر آنے سے لے کر وائٹ ہاؤس کے لان پر اپنے امریکی ہم منصب کے ساتھ فوٹو کھنچوانے کے سیشن کتنی محنت کا کام ہے۔ اور اس 'کمرشل وقفے' میں کراچی سینٹرل جیل اور وزیر اعظم ہاؤس کے درمیاں جو 'راہ میں اجل تھی' اس کی بات ہم اس لیے بھی نہیں کرتے کہ وہ ان کی ذہین بیوی کے حصے میں آئی۔ کسی کو تخت ملا اور کسی کو تختہ۔ 'نصیب اپنا اپنا۔'
ٹرکوں پر عجیب غریب چیزیں لکھی ہوتی ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
’نصیب اپنا اپنا‘ کے ساتھ دوسرا مصرا، ’پسند اپنی اپنی‘، بھی لکھا ہوتا ہے۔ تو جنابِ عالی، ایک نے غیرت مندی سے جان دینا پسند کیا تو دوسرے نےاس خون کو بیچ ڈالا ۔۔۔
ٹرکوں پر يہ بھی تو لکھا ہوتا ہے ’کسی کا يار نہ بچھڑے‘ ليکن زرداری صاحب يہ ہرگز نہيں کہيں گے کيونکہ ان کی لاٹری نکلی ہی بيوی کی موت کے بعد۔
بہت اعلی!
حسن صاحب وہ کچھ ايسے بھی تو کہا جاتا ہے نا ’جلنے والے کا منہ کالا‘۔ سو صاحب بہادر جو اور جيسا کی بنياد پر اب اِتنی بڑی لاٹری نِکلی ہے تو خدارا پچا کر کھائيں اور صرف اپنے لیے ہی کرنے کا نا کريں، سوچيں ان کے لیے بھی جو انہيں لے کر آئے ہيں۔ پليز
حسن بھائی آپ اور آپ کا دوست بہت شرارتی ہو گئے ہيں۔ ميں اس بلاگ پر کوئی تبصرہ کر کے پھنسنا نہيں چاہتا اور ويسے رکشوں پہ تو ايک جملہ اور بھی ہوتا ہے۔’ديکھ کر دعا کر‘
کیسی عجب بات ہے کہ زرداری صاحب کا دور آتے ہی اقلیتوں کے سر پر پڑی کاغذ کی چادر بھی تار تار ہو گئی ہے۔ سوال ہے کہ کیا اقلیتیں انسان نہیں؟ ان کے خون پر سیاست کرنا کیا کسی مسلمان کو زیب ہے۔۔۔
پپو يار تنگ نہ کر!
ٹرکوں پر تو یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ نصیب اپنا اپنا۔۔۔ یہ تو قسمت کی بات ہے کہ کسے کیا ملا۔۔۔ اور یہ بھی لکھا ہوتا ہے کہ دیکھ کے جل گیا اور کسی نے دعا دی۔۔۔!
حسن صاحب زرداری سے نفرت کرنے والا ايک مخصوص طبقہ ہے جس کا کام بس تنقيد برائے تنقيد ہے اور يہ طبقہ اپنے علاوہ کسی کو اچھا نہيں سمجھتا۔ يہ سب لوگ آمريت کی پيدہ وار ہيں اور مافيا کے طرز پر چلتے ہيں جدھر سے کچھ ملے اسی کے ہو جاتے ہيں۔ ويسے بھی ہمارے معاشرے ميں کسی سياسي، فلمی يا کسی بھی مشہور عورت کا خاوند ہونا دوسروں کے ليے حسد کا باعث بنتا ہے۔ ان کے ليے بس اتنا کافی ہے کہ جلنے والے کا منہ کالا۔۔۔