صدائے زنجیر آتی رہی۔۔۔
دیہاتی اور قصباتی بخوبی جانتے ہیں کہ بھینسیں پالنے والے بھینسیں کیسے پالتے ہیں۔
دوپہر کو مالک کا لڑکا ان بھینسوں کو نہر یا جوہڑ پر لے جا کر نہلاتا ہے۔ بھینسیس خوشی خوشی سہہ پہر تک خوب نہا دھو کر مالشی چمک لیے باڑے میں واپس آتی ہیں، جہاں چارہ اور بنولے کی کھلی ان کے لیے سجا دی جاتی ہے۔ بھینسیں اس 'ہائی ٹی' سے لطف اندوز ہوتی رہتی ہیں۔ اس دوران ان کے تھن دوہنے کے لیے جست کی بالٹیاں دھونے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ شام ڈھلنے سے پہلے دودھ دوہنے کا سلسلہ مکمل ہو جاتا ہے۔ اس دوران نوزائیدہ بچھڑوں کے پوٹے بھی دودھ سے تر ہو چکے ہوتے ہیں۔
اب ہر شے کو اندھیرے نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ مالک کے گھر جانے اور بھینسوں کو باڑھے میں پھونس کی چھت تلے باندھنے کا سمے آگیا ہے۔ مالک ایک بھاری زنجیر نکالتا ہے جس کی آواز سے بھینسوں کو پتہ چل جاتا ہے کہ اب انہیں فجر تک پا بجولاں رہنا ہے۔ لیکن زنجیر اتنی بڑی تو نہیں ہوتی کہ مالک پندرہ بھینسوں کے پاؤں میں ڈال سکے۔ مالک اس زنجیر کو چار کے پاؤں میں ڈال دیتا ہے اور باقی گیارہ بھینسوں کے گھٹنے اپنے ہاتھ سے زور سے دباتا ہوا رخصت ہوجاتا ہے۔ یہ گیارہ بھینسیں یہی سمجھتی ہیں کہ انکے پاؤں میں بھی زنجیر ڈلی ہوئی ہے اور اب وہ صبح ہی آزاد ہوں گی۔
آمریت کا بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ ہر مارشل لا چند سو لوگوں کے پاؤں میں زنجیر ڈال دیتا ہے۔ مگر پوری قوم سمجھتی ہے جیسے وہ بھی بندھ گئی ہے۔ یکے بعد دیگرے آمرانہ ادوار کے سبب قوم کی یہ سوچ اتنی پختہ ہو جاتی ہے کہ دورِ جمہوریت میں بھی اسے اپنے پیروں سے صدائے زنجیر آتی رہتی ہے۔ یوں آرٹیکل سکس ہوتے ہوئے بھی نظر نہیں آتا۔
جبر سے پیدا خوئے غلامی انسان اور بھینس کو ایک سطح پر لے آتی ہے!
تبصرےتبصرہ کریں
محترم وسعت اللہ صاحب، آداب! اس بلاگ کی وساطت سے مجھ کو میرا پنڈ واقع لائلپور یاد دلوانے پر آپ کا بہت شکریہ۔ خاکسار بھی بچپن میں اپنے پنڈ میں مَجھوں (بھیسنوں) کو نہلاتا رہا ہے کبھی کھالے کے پانی سے اور کبھی چھپڑ میں۔ نہر پنڈ سے کافی دور تھی اس لیے مال ڈنگر کو زیادہ تر کھالے یا پھر ٹیوب ویل کے پانی سے ہی نہایا جاتا تھا جبکہ بعض دفعہ چھپڑ میں۔ باقی یہ کہ آپ کا تشبیہات و استعارات کا استعمال بلاگ کو چار چاند لگا دیتا ہے جس سے پڑھائی سے الرجک بندہ بھی بلاگ پڑھنے کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ جب بات پنڈ اور مجھوں کی ہو تو پھر اسد علی چوہدری صاحب کا نام اور ان کے بلاگ خودکارانہ طرز پر ذہن کے پردے پر آ جاتے ہیں۔ سیاست و آمریت شامریت پر نو کمنٹس کہ خاکسار پنڈ کی سدا بہار و انمٹ یادوں کو گہنانا نہیں چاہتا۔ شکریہ۔
کمال ہے سر جی، اسی لیے تو ہم کئی نسلوں سے آپ کو پسند کرتے ہیں۔ کئی نسلوں سے مراد یہ کہ میرے والد صاحب بھی آپ کی فین ہیں اور میں بھی۔ اپنے بیٹے کو آپ کے بارے میں ضرور بتاؤں گا، انشا اللہ۔ آپ ایک عظیم لکھاری ہیں۔ اللہ آپ کی حفاظت کرے۔۔۔
بھینسیں بےوقوف نہیں ہوتیں۔ انہیں پتہ ہے کہ کیا ہونا ہے ان کے ساتھ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ ان کے پاس اور کوئی چارہ نہیں۔ آمریت بھی ویسے ہی ہے۔ بھینس شیر کا مقابلہ نہیں کر سکتی اور عام آدمی بندوق کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔۔۔۔
بہت خوب کہا آپ نے! مزہ آ گیا۔۔۔ بہت اچھے!
سانوں صبر سکھائی جاندے
آپے رج رج کھائی جاندے
سانوں آکھن دولت سپ اے
آپے بِين وجائی جاندے