وائسرائے گلگت بلتستان
اکیسویں صدی کے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی گلگت بلتستان وہ علاقے ہیں جہاں کے بالغ عوام کو حق رائے دہی یعنی ووٹ کا بھی حق حاصل نہیں۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ گلگت و بلتستان اور اسکے ملحقہ علاقوں پر حق گلگتی و بلتی لوگوں کا مانتے ہوئے انہیں بالغ رائے دہی کا حق ملنا چاہیے تھا لیکن اسلام آباد نے ان پر ایک وائسرائے گورنر کی شکل میں نازل کر دیا۔ اسی لیے تو گلگت و بلتستان کی ایک سینئر سیاستدان کہتی ہیں 'ہم گلگت و بلتستان کے لوگ اب تک (حکمرانوں کی نظر میں) نابالغ ہیں کہ انہیں ووٹ کا بھی حق حاصل نہیں۔'
گلگت وبلتستان میں 'سیلف رول' کے نام پر اسلام آباد یا 'مضبوط مرکز' نے جو گورنر مقرر کیا ہے وہ بھی غیر بلتی یا غیر گلگتی لیکن صدر آصف علی زرداری کے دوست قمر زمان کائرہ ہیں۔ بالکل ایسے جیسے 'نیٹیِو' ہندوستانیوں پر ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے گماشتے بھیجا کرتی تھی۔
سندھ پر مقامی گورنر عشرت العباد، پنجاب پر مقامی پنجابی سلمان تاثیر، بلوچستان پر بلوچ نواب ذوالفقار مگسی، صوبہ سرحد یا پختونخواہ پر اویس غنی لیکن بلتستان و گلگت پر گونر گوجر خان! یاروں کے یار صدر کی یار نوازی کی ایک اور عظیم مثال۔
گلگت و بلتستان اور شمالی علاقہ جات کو پاکستان کے اعلی سول و فوجی حکام یا جنریلوں نے اپنے لیے پولو کے میدان سے زیادہ اہمیت نہیں دی۔ یہ اور بات ہے کہ گلگت و بلتستان کے لوگوں نے پاکستان کے لیے کیا کچھ نہیں کیا۔۔۔ بقول شاعر:
'ہم جیئے بھی دنیا میں اور جان بھی دے دی
مگر یہ نہ کھل سکا آّپ کی خوشی کیا تھی۔۔۔'
آگر کسی نے محاورتاً نہیں حقیقتاً گھاس کھا کر بھی پاکستان کے لیے دنیا کے برفانی چھت والے حصے یعنی سیاچن (جہاں بقول ڈکٹیٹر ضیاء گھاس بھی نہیں اگتی تھی) کی حفاظت کی تھی تو وہ گلگت و بلتستان کے نوجوان تھے۔ اس کے جواب میں گلگت و بلتستان کا کوئی فوجی برگیڈئير کے عہدے سے شاید ہی آگے بڑھا ہو (اگر بڑھتا بھی تو کیا کرتا!)۔ یہ کشمیر کے کیس میں گروی رکھے لوگ ہیں۔۔۔
'سیلف رول' کے تصور سے اس سے زیادہ بھونڈا مذاق کیا ہوگا کہ گلگت و بلتستان پر پہلے اسلام آباد سے وفاقی وزیر وائسرائے کی طرح حکومت کرتا تھا اور اب وہ اسلام آباد کے 'کیمپ آفس' سے ہی اپنے اس غیر حاضر زمیندارے کو دیکھا کریں گے۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
گلگت، بلتستان کے ليے وزيراعلی اور گورنر کے عہدوں اور صوبائي اختيارات کي حامل انتظامی پارليمنٹ کا اعلان بڑا ہی خوش آئيند ہے۔ اس عمل سے ان علاقوں کا باقی علاقوں سے کٹ اور دور ہونے کا اعتراض کچھ کم ہو جائے گا۔ اپني خوبصورتي اور بلندي کي وجہ سے يہ علاقہ ہميشہ سے بلند مقام رکھتا تھا پر انتظامی معاملات اور ترقی میں يہ علاقہ بہت پيچھے رہا ہے۔ اب مستقبل ميں يہ علاقہ اپنی تمام تر قدرتی صلاحيتوں کے ساتھ ترقی کر سکتا ہے۔
کيا کريں مجتبی صاحب جہاں اسلام ہوتا ہے شيطان بھی وہيں آدھمکتا ہے۔۔۔ چاہے وہ اسلام آباد ہو يا اسلامی جمہوريہ اگر يہاں شيطان نہيں ہوتا تو پھر اتنی نا انصافياں ہوتيں بھلا۔۔۔
آپ گلگت بلتستان کی بات کرتے ہيں مجھے يہ بتائیے کيا کوئی ايک کونا بھی خالصتاً عوامی نمائندگان کے زير انتظام ہے؟ نچلے طبقات کو تو کبھی اس قابل ہی نہيں سمجھا گيا۔ کہتے ہيں باسٹھ برس ہو گئے آزاد ہوئے۔ ميں کہتا ہوں سراسر جھوٹ ہے۔ آپ تو غلاموں کی غلامی ميں چلےگئے۔ اب ان سے آزاد ہو پائيں گے تب کی بات ہے۔۔۔
’چور چوری سے جائے ہيرا پھيری سے نہ جائے‘ زندہ و عملی مثال ہے صدر صاحب کی۔۔۔
آپ نے گلگت اور بلتستان کے مسئلے کو مسئلہ برصغير سے ملانے کی کوشش کی ہے۔ ہو سکتا ہے اب آپ کو وہاں پر کوئی جناح بھی نظر آ جائے۔ جناب ايک بات تو صاف نظر آ رہی ہے کہ کسی نہ کسی حد تک گلگت اور بلتستان کو خود مختاری حاصل ہو جائےگی کيوں کہ حکومت نے اس علاقے کو صوبے کا درجہ تو نہیں ديا مگر اسمبلی، وزيراعلی اور قانون سازی تک کی اجازت دے ہی دی ہے۔ اب آہستہ آہستہ مزيد مسئلے بھی حل ہو جائيں گے۔
بہت زبردست مجتبی بھائی۔ کیا کریں ہم مظلوم لوگ ہر وقت کسی نہ کسی پاکستانی حکمران کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ پلیز یہ بھی لکھیے گا کہ یہاں ہر پانچ سال بعد مذہبی فسادات کروائے جاتے ہیں تاکہ یہاں کے لوگ اپنا حق نہ مانگ سکیں، یا لگتا ہے کہ یہ لوگ ہمیں بنگال اور بلوچستان کی طرح پاکستان سے دور کرنا چاہتے ہیں۔۔۔
ماضی ميں بلوچستان کے بھی زيادہ تر گورنر غيرمقامی ہی ہوتے تھے، تب تو کسی کو کچھ لکھنے کی توفيق نہيں ہوئی۔۔۔
جناب مجتبی صاحب اسلام عليکم، گلگت بلتستان يا شمالی علاقہ جات کی عوام کا مسئلہ خالصتاً انسانی اور بنيادی انسانی حقوق کا مسئلہ ہے۔ جس کو حل کرنے میں پاکستان کی تمام طاقتيں چاہے وہ فوجی ہوں يا سول حکمران، اپوزيشن ارکان ہون يا اسٹيبلشمنٹ کا طاقتور حصہ، ہميشہ سے غير سنجيدہ رہے ہيں۔۔۔ اور اس سلسلے ميں نام نہاد کشميری قيادت کا کردار بھی نظرانداز نہیں کيا جا سکتا۔ جنہوں نے ان طاقتوں سے مل کر اس علاقے کو تمام حقوق بشمول سياسي ’جمہوري‘، آئيني اور بنيادی انساني حقوق سے دور رکھا۔۔۔ اور 62 سال کا طويل عرصہ گزر جانے کے باؤجود اس علاقے کے لوگوں کی کوئی شناخت اور پہچان نہيں ہے کيونکہ مملکت پاکستان کا آئين گلگت بلتستان کی عوام کو اپنا شہری نہيں تصور کرتا۔ موجودہ حکومت کی طرف سے جاری کردہ سيلف رول ارڈينيس ميں مجھے کوئی نئی چيز نظر نہيں آتی۔ سوائے چند انتظامی عہدوں کے ناموں ميں ردوبدل کے۔ جو اس علاقے کی غريب عوام کے ساتھ مزيد ناانصافی ہے۔ گويا اس ارڈيننس کا مفہوم اس مثال سے واضح ہو سکتا ہے۔۔۔ کہتے ہیں ناں ’پرانی شراب اور نئی بوتل۔۔۔‘ عوام کو اس سے کچھ نہيں ملے گا۔۔۔
جب تک پاکستان اسلامی جمہوريہ، فوجی جمہوريہ، نيم ملاں جمہوريہ يا لوٹے سياستدان جمہوريہ رہے گا تو الٹی گنگا بہتی ہی رہے گی۔ ووٹ ڈالنے کا حق ضرور ملنا چاہيے ليکن اگر نہيں ملتا تو غم نہيں کرنا چاہيے کيونکہ حکومتيں عوام کی مرضی سے نہيں بنتيں۔ جن کو ووٹ ڈالنے کا حق حاصل ہے وہ کون سا ووٹ ڈالنے ميں فخر محسوس کرتے ہيں۔۔۔ کئی جگہوں پر ووٹنگ کی شرح دس فيصد سے بھی کم ہوتی ہے۔ اگر باقی دنيا کے ساتھ چلنا چاہتے ہيں تو ذہن بھی ان جيسا بنانا پڑے گا يعنی مکمل سيکولر۔۔۔ پاکستان يہاں ايک دوسرے کے مذہبی نظريات کو ہر ايک کا ذاتی مسئلہ سمجھیں جبکہ کام کرنے اور کام کرنے کے مواقع پيدا کرنے کو اپنا مذہب سمجھیں۔
محترم حسن مجتبی صاحب، آپ نے ایک صحافی ہو کر پنجابی، سندھی، بلوچی کی بات کی ہے۔۔۔ آج وہاں گورنر گوجر خان کے ہیں تو کیا یہ ضروری ہے کہ وہاں ہمیشہ گوجر خان کے ہی ہوں گے؟ اور آپ نے اپنی ساری گفتگو میں وہاں کے باقی نظام کی تو بات ہی نہیں کی۔۔۔ کچھ عرصے پہلے ایک کالم پڑھا تھا جس میں ایک سیاست دان کا ذکر تھا۔ وہ اپنے پریس سیکرٹری کو کہتے تھے کہ حکومت نے فلاں کام کیا کہ نہیں، اگر کیا ہے تو پریس میں خبر بھیجو کہ طریقہ غلط ہے، اگر نہیں کیا تو پریس کر دو کہ حکومت غلط ہے۔۔۔ افسوس!
کیا کریں مجتبی صاحب، آبا کی جان نثاریوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ ہمارے کھیت فصل سے صرف چار مہینے جبکہ پاکستان کے حلالی پرچم سے سالہا سال آباد رہ کے بھی بھانجھ ہیں۔ ہمارے نوجوانوں کے خون سے بھی ہمارے چہرے سے غلامی کا رنگ نہیں اترا۔
شکر کريں زرداری صاحب نے کسی زرداری کو وہاں مقرر نہیں کيا کيوں کہ آج کل صرف زرداری ہر عہدے کے لیے اہل ہو گئے ہیں۔۔۔
گلگت، بلتستان (پاکستانی زیر انتظام شمالی کشمیر) پر نیا مسلط کردہ نام نہاد سیلف رول ’نئی بوتل پرانی شراب‘ کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ یہ نیا وار کشمیریوں پر پاکستانی ریاست کی نئی مہربانی ہے! تاریخ کے کسی دور اور خود پاکستانی آئین کے مطابق یہ علاقے پاکستانی وفاق کا حصہ نہیں ہیں۔ کشمیری اس ظلم و ناانصافی کو نہ پہلے مانتے تھے نہ آج۔۔۔
جناب مجتبي صاحب، اسلام عليکم۔۔ ميرے خيال ميں حق حاصل کرنے کے لیے گلگت بلتستان کی عوام جب تک کوئی جدوجہد (جس طرح ہمارے بلوچ اور پشتون بھائی کر رہے ہیں) نہیں کرتے مجھے کوئی اميد نظر نہيں آتی۔ اسلام آباد ميں بيٹھے لوگ چاہے سويلين حکومت ہو يا فوجی آمر صرف ایک ہی زبان سمجھتے ہیں۔۔۔
معزز مجتبی صاحب، مجھے افسوس ہے کہ آپ حقیقت سے واقف نہیں یا پھر جان بوجھ کر تصویر کے تاریک رُخ پر توجہ کیے ہوئے ہیں۔۔۔
محترم حسن مجتبیٰ صاحب، آداب عرض! مودبانہ عرض ہے کہ چونکہ گلگت و بلتستان علاقوں کو نئی نئی ’آزادی‘ میسر ہوئی ہے اور جسکی وجہ سے مقامی لوگوں کی عدم دستیابی و تجربہ کاری کی کمی کی وجہ سے گورنر کی تقرری غیرمقامی ہوئی ہے محض انتظام و انصرام کو بہتر طور پر چلانے کے لیے کہ گلگت و بلتستان کی ’آزادی‘ کے خلاف پراپیگنڈہ بھی جاری ہے۔ بہرحال ان علاقوں میں گورنرز کی تقرری سے ایک بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ملکی تاریخ کی اب تک سب سے بڑی سیاسی پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت صوبائی خودمختاری کی نہ صرف قائل و مائل ہے بلکہ اسکی طرف ’غیر محسوس‘ طریقے سے بڑھ بھی رہی ہے اور وہ دن دور نہیں جب بلوچوں کے ’بلوچستان‘ کا مسئلہ بھی بہ احسن حل کر لیا جائے گا۔ شکریہ۔