بلٹ پروف سکیورٹی
میرا ایک دوست حال ہی میں ایک امریکی غیر سرکاری تنظیم کے ساتھ کام کرنے عراق گیا ہے۔ اس سے وقتاً فوقتاً بات چیت رہتی ہے۔ اس کے عراق پہنچنے کے کچھ عرصے بعد میں نے اس سے پوچھا کہ حالات کیسے ہیں۔
اس کا کہنا تھا کہ حالات یہ ہیں کہ جگہ جگہ ناکے لگے ہوئے ہیں جہاں سخت چیکنگ ہو رہی ہوتی ہے۔ جہاں بھی جانا ہو کمانڈوز ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔ وہ سفر بلٹ پروف مرسیڈیز کار میں کرتے ہیں اور ان بلٹ پروف گاڑیوں میں بھی ان کو یہ احکامات دیے گئے ہیں کہ بلٹ پروف جیکٹ پہن کر بیٹھنا ہے۔
میرے دوست کے مطابق وہ ایک رہائشی کمپاؤنڈ میں اس تنظیم کے دیگر اہلکاروں کے ہمراہ رہتے ہیں۔ اسی کمپاؤنڈ میں چند دکانیں ہیں اور انہی دکانوں سے خریداری کرنی ہوتی ہے کیونکہ اس رہائشی کمپاؤنڈ سے باہر بازار میں جانے کی اجازت ایک ہفتے میں ایک ہی بار ہوتی ہے اور وہ بھی دس سے پندرہ منٹ کے لیے اور پھر واپس کمپاؤنڈ میں۔ کمپاؤنڈ سے باہر بازار میں سکیورٹی کے بغیر جانے کی اجازت نہیں ہے۔
پاکستان میں بھی اہم سیاسی شخصیات کے تحفظ کے لیے کئی اقدامات کیے گئے ہیں جن میں ان کی رہائشگاہوں کو جانے والے راستوں کو عام شہریوں کے لیے بند کرنا، حفاظت کے لیے پولیس کمانڈو اور اب وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق وزراء کے لیے بلٹ پروف گاڑیاں منگوائی جائیں گی۔
دیکھنا یہ ہے کہ بلٹ پروف جیکٹس کب آتی ہیں؟
تبصرےتبصرہ کریں
فرينڈز آف پاکستان سے بلٹ پروف جيکٹس مانگنے ہی تو ہمارے صدر جائیں گے ايک نئے دورے پر۔ مل گئی تو ٹھيک ورنہ ڈيزائنر وئير بنواليں گے، عوامی کھال بيچ کر۔
پاکستان ميں خود کش جيکٹ اور بلٹ پروف جيکٹ عام ہو گئی ہيں جبکہ سردی سے بچنے والی جيکٹ مہنگی اور ناياب اور عوام کی قوت خريد سے باہر ہو چکی ہيں۔ سياستدانوں کو اس کا خيال کب آئے گا۔
جس کو ہے دل و جان عزيز اس کی گلی ميں جائے کيوں کے مصداق کوئی ان سے پوچھے انہيں کيا مصيبت آن پڑی ہے جو يہ بلا گلے ڈالے ہوئے ہيں۔ چلے کيوں نہيں جاتے اس قوم کی جان چھوڑ کر۔ ان کی نسليں بھي کام کرنے کی محتاج نہيں رہيں۔ اب کسی گوشہ عافيت ميں بيٹھ کر مزے کيوں نہيں کرتے۔ ليکن برا ہو ہوس اقتدار کا جو جينے نہيں ديتی۔ کوئی اور کڑاہی ميں منہ ڈال دے يہ کيسے سہا جائے گا۔
جب اپ کہيں گے آرڈر ہو جائيگا مگر ان ميں کتنی فيصد صحافيوں کے لیے مختض ہوں گی؟ آخر کھيل تو انہوں نے چلانا ہے۔۔۔
بلٹ پروف سکیورٹی کوئی نيا انکشاف نہيں، جہاں حکمرانوں کا منصوبہ فقط اپنی بہبود کا سوچنا ہو وہاں اس طرح کی خبروں کا ملنا کوئی انہونی تو نہيں۔
پاکستان ميں گرمی بہت ہوتی ہے اس ليے بلٹ پروف جيکٹس نہيں پہنی جا سکتيں يا پھر اس کے اندر مائيکل جيکسن کی جيکٹ ٹائپ کولنگ سسٹم لگانا پڑے گا جس سے ہمارے سياستدانوں کے ’کوول‘ ہونے کا خدشہ ہے اور لوگوں کے اور ’ہاٹ‘ ہونے کا۔
خدا ہمارے حکمرانوں کا سايہ ہمارے سروں پر تا قيامت رکھے۔ انہی کے دم سے تو زندگی کی رونقيں ہيں۔ باقی تنقيد کرنے والوں پر کڑھنے کے بجائے شيخ سعدی کی حکايات کا مطالعہ فرمائيے۔
مولويوں نے اس بات پہ کوئی فتویٰ نہيں ديا کہ اسلام ميں جيکٹ پہننا جائز ہے کہ نہيں حالانکہ وہ پينٹ شرٹ کو حرام قرار ديتے ہيں کہ يہ انگريزی لباس ہے۔ کيا وہ بھول گئے ہيں کہ جيکٹ بھی ان ہی نے بنائی ہے۔
بلٹ پروف جيکٹ کے بوجھ تلے دب کر مرنے کی بجائے ہمارے حکمرانوں کو جھوٹ، خزانہ خوري، انا، دھوکہ، اقربا پروري اور رشوت ستانی جيسی عادات سے جان چھڑانی چاہيے۔ يہی قوم جو ان کے جانے يا مرنے کی دوہائی ديتی ہے ان کی ڈھال بن جائے گی۔ سوچ اور اداروں کو مستحکم کرنے سے ہی اصل ميں عافيت ہے۔ اب يہ ان کی سوچ پر منحصر ہے کہ يہ کچھ عرصہ حکمرانی کر کے جيل اور پھر اپنی اگلی باری کا انتظار کرتے ہيں يا لوگوں کے دلوں ميں اپنا کوئی اعلٰی نقش چھوڑنا چاہتے ہيں۔