ترس کھا!
ترس کھا ایسی ملت پر جو توہمات سے پر اور عقیدے سے خالی ہو!
ترس کھا ایسی ملت پر جو وہ زیبِ تن کرتی ہو جو اس نے نہیں بنا، وہ کھاتی ہو جو اس نے نہیں بویا، وہ شراب پیتی ہو جو کسی اور نے کشید کی!
ترس کھا ایسی ملت پر جو غنڈے کو ہیرو سمجھےاور فاتح کو بھر بھر جھولی درازی عمر کی دعا دے!
ترس کھا ایسی ملت پر جو نیند میں بہادر اور جاگتے میں بزدل ہو!
ترس کھا ایسی ملت پر جس کی صدا سوائے جلوسِ جنازہ کبھی بلند نہ ہو، سوائے زیرِ شمشیر کبھی گردن نہ اٹھے!
ترس کھا ایسی ملت ہر جس کا مدبر لومڑ اور فلسفی مداری ہو اور ہنر ان کا صرف لیپا پوتی اور نقالی ہو!
ترس کھا ایسی ملت پر جو نقارہ بجا کر نئے حاکم کا استقبال کرے اور آوازے کس کے رخصت کرے اور پھر نقارہ بجائے اگلے حاکم کے لیے!
ترس کھا ایسی ملت پر جس کے دانشمند گزرتے وقت کے ساتھ بہرے ہوتے چلے جائیں، جس کے قوی اب تک گہوارے میں ہوں!
ترس کھا ایسی ملت پر جو ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے اور ہر ٹکڑا خود کو ملت جانے۔۔۔۔۔۔۔
( گلشنِ پیمبر۔ خلیل جبران۔انیس سو تینتیس )
تبصرےتبصرہ کریں
ترس کھا ایسی قوم پر جو شیشہ دکھانے والے کو غدار کہے۔۔۔۔وسعت ساحب آپ کیوں بار بار ہمیں شیشہ دکھا کر غصہ دلاتے ہیں؟
بہت غلط لکھا ہے۔ پاکستانی قوم اتنی بھی بری نہيں ہے۔
گزارش ہے مسيحاؤں کا انتظار ترک کر کے خدا ہميں اپنےگھروں سے ابتدا کرتے ہوئے اپنے معاملات درست کرنے کی توفيق عطا فرمائے۔ تب ہی جا کر يہ معاشرہ سدھر سکتا ہے۔ اس کے بعد جيسا دودھ ويسی بالائی کے مصداق، جيسي قوم ويسے رہبر بھي ميسر ہوں گے، انشااللہ۔
محمد عمران صاحب کیا آپ کہیں پاکستانی قوم کا ذکر دیکھ رہے ہیں ساری تحریر میں۔۔۔میرا نہیں خیال کہ وسعت اللہ صاحب نے کہیں بھی پاکستانی قوم کا ذکر کیا ہو۔
خرابيوں کی نشاندہی تو ہر لکھنے والا کرتا ہے۔ کبھی کسی نے کوئی علاج بھی تشخيص کيا ہے؟ نوے فیصد سے زائد قلم کاروں کی روزی اور زور ِقلم ايسے ہی چلتا ہے۔
کھانا ہی ہے تو کوئی ايسی چيز کيوں نہ کھائيں جو مرغوب اور بارآور ہو جيسے بالائی يعنی کہ اوپر کی آمدنی۔ ترس کھانے سے تقدير نہيں بدلتی۔
ترس نہ کھا ايسی ملت پر جو بے سروسامانی اور جہاں بھر کی کھينچا تانيوں کے باوجود بھی ايٹمی قوت بن کر دکھائے
جو خود اپنوں اور پرائے سے بار بار ڈسے جانے کے باوجود آج بھی زندہ ہے
جو عقيدہ اسلام پر وہم نہيں يقين رکھتی ہو
جو دنيا کہ کسی کونے سے اٹھنے والی مظلوم کی پکار پر اپنے غموں کو بھول کر لبيک کہتی ہو
ہاں ترس کھا ملت کے ان افراد پر جن کو اپنے آپ پر اور اس ملک و ملت پر اور اس دين پر يقين نہيں
خلیل جبران کا یہ دانش پارہ کسی پر بھی وجدانی کیفیت طاری کر سکتا ہے۔ لگتا ہے جیسے اس نے پاکستانی قوم کی حالت کشفی طور پر دیکھ کر یہ سب لکھا ہو۔ اس میں بہت کچھ مزید لکھا جا سکتا ہے مثلاً ترس کھا اس قوم پر جو سلامتی اور امن کے نام پر پرامن لوگوں کی گردنیں اتارتی ہے۔
وسعت بھائي! يہ آپ کس سے مخاطب ہو؟
’ترس کھا ايسی قوم پر جو اپنے محسن کو غدار کہے ۔۔۔ اورغدار کو توپوں کی سلامی دے کے رخصت کرے۔‘
پاکستانی قوم بری نہيں ہے۔ بس اس ملک پر راج کرنے والے ٹھيک ہو جائيں تو يہ ملک جنت نظير بن جائے۔
آپ نے اس ملت کے بارے ہميشہ منفی لکھا۔
يار آپ کو صرف برائی ہی نظر آتی ہے؟ آپ چلا لو ملک کو۔
خان صاحب اب ہم صرف ترس کھانے کے قابل رہ گئے ہیں۔
وسعت صاحب پاکستان کی قسمت ميں جو لکھا ہے وہ اسے ہر صورت ملنا ہے۔
ويسے بھی پاکستان دعاوں پر چل رہا ہے۔
لگتاہے تصور پاکستان کے خالق علامہ اقبال نہیں ہیں بلکہ خلیل جبران ہے