کیانی کا جہاں اور !
کرگل کی لڑائی کے دوران ایئر چیف مارشل اے وائی ٹپنس بھارتی فضائیہ کے سربراہ تھے۔
ایک دن آپریشن روم میں بیٹھے بیٹھے انہیں کرگل سے آنے والی خبروں پر اتنا جوش آیا کہ آؤ دیکھا نہ تاؤ، فائٹر جیٹ میں بیٹھ کر محاذِ جنگ کی جانب اڑ گئے۔ انہیں بڑی مشکل سے بیچ رستے سے یہ کہہ کر واپس آنے پر مجبور کیا گیا کہ اس طرح کی حرکت آپ کے عہدے کے شایان ِ شان نہیں ہے۔ اگر آپ کو کچھ ہوگیا تو بڑی جگ ہنسائی ہوگی۔ بعد ازاں ایک اخباری اطلاع کے مطابق ان کے سیاسی باسز نے ٹپنس صاحب کو اس طرح کا غیر ذمہ دار رویہ اپنانے پر سخت سست سنائیں۔
لیکن آٹھ برس پہلے ریٹائر ہونے والے ٹپنس صاحب نے اگر پاکستانی چینلز کی پندرہ جون کی نشریات دیکھی ہوں تو انہیں ایک دفعہ پھر یہ سوچ کر بہت غضہ آیا ہوگا کہ وہ پاکستان میں کیوں پیدا نہیں ہوئے جہاں جرنیل کے لیے سکائی از دی لمٹ۔ جہاں جنگی طیارہ اڑانے کے لیے پیشہ ور پائلٹ ہونے سے زیادہ اقبال کا شاہین ہونا ضروری ہے۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہاں میں
ٹپنس کا جہاں اور ہے، کیانی کا جہاں اور
تبصرےتبصرہ کریں
محترم ميں نے پاکستانی چينلز کی نشريات تو نہيں ديکھی ليکن اتنا ضرور کہوں گی کی جوشيلی اور علامتی پرواز ميں فرق ہوتا ہے۔ باقی رہی پاکستانی ميڈيا اور قوم کی بات تو انہيں مزہ نہيں آتا جب تک سنسنی نہ پھيلائی جائے۔
مجھے تو کيانی اور ٹينس کے عہدوں ميں مماثلت نظر نہيں آتی کيونکہ ايک بری اور دوسرا ہوائی فوج کا افسر۔۔ اور حقيقت جانے تو مجھے تو يہ سمجھ بھی نہيں آئی کہ آپ يہ موازنہ کيوں اور کس مشترکہ خصوصيت پر کر رہے ہيں اور اس بلاگ کا کوئی ’آگا پيچھا‘ بھی ہی يا صرف بات سے بات کے ليے لکھا گيا ہے۔۔۔
وسعت صاحب آپ بھی کمال کرتے ہیں، صرف ایک ریٹائرڈ ائیر مارشل ہی کیوں، انڈیا کے بہت سارے ریٹایرڈ آرمی چیف بھی افسوس کرتے ہوں گے کہ وہ پاکستان میں پیدا ہوتے اور صدرِ پاکستان بھی ہوتے۔۔۔
یہ غازی يہ ’پراسرار‘ بندے۔۔۔ ان کا مقابلہ ’ناممکن‘۔۔۔
آپ کی جرآت کو سلام!
اس ميں کونسی بڑی بات ہے، ايک جہاز ہی تو اڑايا کيانی نے۔۔۔ ٹپنس کی ادھوری ياترا کی کہانی سنانے کا شکريہ، نہيں کيونکہ يہ لوگ کچھ بھی کريں خبر بن جاتی ہے۔۔۔
آپ تنقيد کی عادت سے ضرور مجبور ہيں ليکن اس واقعے ميں طنز بنتا نہيں تھا ليکن پھر بھی اتنی محنت کرنے پر اور اقبال کا شعر بگاڑنے پر آپ کو فل مارکس۔ جيتے رہيں وسعت بھائي!
شاہين تيری پرواز سے جلتا ہے زمانہ۔۔۔
محترم، بی بی سی اردو ہی کی خبر کے مطابق جنرل کیانی کے طیارے کو ونگ کمانڈر کے عہدے کا افسر اڑا رہا تھا۔ جنرل کیانی پچھلی نشست پر تھے۔ کم از کم آپ یہ تو نہ لکھتے، ’جہاں جنگی طیارہ اڑانے کے لیے پیشہ ور پائلٹ ہونے سے زیادہ اقبال کا شاہین ہونا ضروری ہے۔‘ شاید آپ بی بی سی کی اردو نشریات نہیں پڑھتے؟
اگر ميں غلط نہيں سمجھا تو وسعت صاحب کا مطلب ہے کہ انڈيا ميں فوج اور فضايہ حکومت کے تحت کام کرتی ہے ليکن پاکستان ميں سياسی ليڈرشپ کب يہ جرآت کر سکتی ہے کہ فوج کے سربراہ سے کہے يہ کر، وہ نہ کرو۔۔۔!
مزہ آگيا وسعت صاحب! یہی بات تو ہمیں آپ کی بہت اچھی لگتی ہے۔ کیپ اٹ اپ!
وسعت صاحب مانا کہ آپ اہلِ دانش ہیں مگر اس طرح کے بلاگ لکھنے کا کيا مطلب جس کا نہ حاصل ہو اور نہ حصول۔۔۔؟
طنز برائے طنز۔ کوئی مزہ نہیں آيا۔۔۔ میں بھی فوج کا کوئی بڑا فین نہیں ہوں، پر پھر بھی کوئی حد ہوتی ہے۔
جناب وسعت صاحب سلام۔ تنقيد اچھی چيز ہے ليکن کوئی تو گراونڈ ہونا چاہيے۔ لکھنے والے کے ليے معيار کا برقرار رکھنا بہت ضروری ہے۔ صرف بی بی سی کا نام کافی نہیں۔ شکريہ
اسلام علیکم! میں آپ سب سے یہ بات کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ کسی کے لیے اچھا نہیں سوچ سکتے تو کسی کے لیے بری رائے بھی مت رکھیے۔ کیانی صاحب پر پوری پاکستانی قوم کو فخر بھی ہے اور اعتماد بھی ہے۔ رہی بات موازنے کی تو مجھے یہ سمجھ نہیں آتا کہ ہم ہر چیز کا موازنہ پڑوسی ملک سے کیوں کرتے ہیں؟ اور ہر کسی کو پاکستان کے ساتھ ہی اعتراز کیوں ہوتا ہے۔۔۔ معذرت اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہو۔۔۔
باقی دنیا کے جرنیلوں کو ابھی ہمارے جرنیلوں کی پوری صلاحیتوں کا علم نہیں ہوا۔ جس دن انہیں پتہ چل گیا کہ یہ بہترین جرنیل ہونے کے علاوہ بہترین سیاستدان، بہترین صدر، بہترین ادیب، ناول نگار، بہترین پائلٹ، اور اگر خلائی ٹیکنالوجی ہمارے ساینسدانوں نے حاصل کی ہوتی تو بہترین خلانورد کے علاوہ پتہ نہیں کیا کچھ ہیں۔ ایک خصوصیت ایسی ہے جو صرف ایک ایڈمنسٹریشن کے لیے مخصوص ہے اور وہ ہے اطاعت اور وہ بھی ایسی کہ بس اشارہ ہی کافی ہے۔ یعنی پیر پٹخ، سیلوٹ مار، عقل بند، یک زبان بہ آواز بلند۔ ایک ہی نعرہ، ’یس سر، یس سر۔‘
جناب وسعت صاحب سلام۔
جنگی جہاز اڑا لینا ایسی کوئی کمال کی بات نھیں ہے۔ بلکہ سوچنے کی بات ہے کی اپنے ہی ملک کی فضائی سرحد میں اڑان بھرنا اتنا جرات مندانہ قدم کیوں سمجھا جا رہا ہے؟ ان سے کہیے کی ذرا بھارت کی سرحد میں بھی اڑان بھر کر بتائیں، حالات امن میں ہی سہی۔۔۔