کشمیر میں پھر تشدد
کشمیر میں شوپیان کے دلدوز واقعے نے پھر حالات کو ابتر کردیا پھر وادی سراپااحتجاج بن گئی ہےاور مظاہروں کی لپیٹ میں ہے اور پھر لوگوں کی بھاری تعداد سڑکوں گلیوں اور چوراہوں پر آزادی کے نعرے بلند کر رہی ہے۔
اگرچہ ریاستی اسمبلی اور پھر پارلیمان کے لئے عوام کے ایک بڑے طبقے نے بھارتی آئین کے تحت ہونے والے انتخابات میں ووٹ ڈالا جس پر بھارتی حکمرانوں نے لوگوں کو شاباشی دے کر یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کیا کہ کشمریوں نے انتخابات میں ووٹ ڈال کر آزادی کی تحریک اور آزادی مانگنے والوں کو مسترد کردیا ہے تو خود بھارت میں رہنے والے دانشوروں کو یہ بات حلق سے نہیں نیچے نہیں اتریُ خاص طور سے ان معروف شخصیات کو جو کبھی ٹریک ٹو
ڈپلومیسی میں شامل رہے ہیں اور کبھی کشمیری رہنماؤں کو بھارت کے ساتھ الحاق پر منواتے رہے ہیں۔
جب انتخابی مرکزوں کے باہر کشمریوں کی لمبی قطاریں دیکھی گئیں تو خود حکمرانوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔
۔جو لوگ بھارت مخالف تحریک کی قیادت کر تے رہےتھے وہی ووٹ دینے کی قطاروں میں آگےآگے دیکھے گئے۔
میڈیا نے اس کی وجہ جاننے کے لئے جب ووٹروں سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ وہ نہ صرف علاقے میں بنیادی سہولیات کے حصول کے لئے ووٹ دینے آئے ہیں بلکہ سیکورٹی کے کیمپ ہٹانے کے لئے بھی جن کی مسلسل موجودگی سے وہ ڈر اور خوف کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ لوگوں کو یقین ہے کہ علاقائی رکن اسمبلی ان کے تمام مسائل کا حل تلاش کرنے کا اہل ہوگا حتی کہ سیکورٹی کو ہٹانے کا بھی۔
بعض مبصر کہتے ہیں کہ لوگوں نے پانی بجلی سڑک کے لئے ووٹ ڈالا جن کا بجٹ مسلح تحریک کے دوران سیکورٹی کے اخراجات کے زمرے میں ڈال دیاگیا ہے۔
حکومت بھارت ماضی کی طرح سمجھنے لگی کہ کشمیر تحریک کی پھونک نکل گئ اور انتخابات کے بعد نارمل کی زندگی بحال ہوجائے گی حالانکہ انہیں بخوبی احساس ہے کہ معمولی چنگاری کشمیر میں آگ کے شعلے بھڑکاتی ہے اور اس مسلے کو قالین کے نیچے دبادبا کر حالات کو ابتر بنا دیا گیا ہے۔
نیشنل کانفرنس سے لے کر کانگریس تک سبھی جماعتیں کہتی ہیں کہ کشمیر کا مسلہ حل طلب ہے تو پھر اس کو حل کرنے میں سنجیدہ کیوں نہیں بقول کشمیری دانشور ڈاکٹر حمیدہ " بھارتی حکومت اب بھی سمجھتی ہے کہ انتخابات میں شمولیت کرکےکشمیری اپنے مطالبے سے دستبردار ہوگئے ہیں یا وہ مسلح تحریک سے تنگ آکر اپنی نارمل زندگی گذارنا چاہتے ہیں مگر اس کو یہ احساس نہیں کہ ساٹھ سال میں اتنا سب ہونے کے باوجود یہ تحریک ختم نہیں ہوئی تو کیا اگلےساٹھ سال میں یہ تحریک ختم ہونے کا امکان ہے" ۔ بیشتر مبصرین کا خیال ہے کہ آزادی کا جذبہ اتنے مصائب کے باوجود لوگوں کے دلوں میں موجود ہے اور یہ جذبہ ہر خون ریز واقعے کے بعد مظبوط ہوتا جارہا ہے"
وادی میں کیبل اور بعض چینلوں پر پابندی آزادی نواز رہنماوں کی گرفتاری اور ہزاروں سیکورٹی اہلکاروں کی سڑکوں پر موجودگی کو اگر حکومت وقت نارمل سمجھ کر اب بھی اس مسلے کو قالین کے نیچے دبانا چاہتی ہے تو وہ ان کروڑوں بھارتیوں کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے جن کے پیسے کا ضیاع کرکے سیکورٹی پر بے تحاشا خرچ کیا جارہا ہے
تبصرےتبصرہ کریں
شکر ہے آپ اپنے کشميری پس منظر کی وجہ سے اس موضوع کو چھيڑتی رہتی ہيں ورنہ تو بی بی سی پر سوائے قبائلی علاقوں ميں ہونے والی دہشتگردی کے موضوع کے سوا کچھ نہيں۔
آپ نے جو لکھا، درست لکھا اور کشمير کی آزادی ہی علاقائی امن کی ضمانت ہے اور ہندوستان يکسو ہو کر سپر پاور بننے کا سفر دنوں ميں طے کر سکتا ہے ليکن يہ بات ان کو کون سمجھائے۔
لازم ہے کہ ہم بھی ديکھيں گے
جب تاج اچھالے جائيں گے
جب تخت گرائے جائيں گے
محترمہ نعیمہ احمد مہجور صاحبہ، آداب عرض! مودبانہ عرض ہے کہ جب تک پاکستانی جمہوریت ‘کراچی‘ نہیں پہنچے گی تب تک بھاررتی جمہوریت ‘کشمیر‘ تک نہیں پہنچ سکتی،
محترمہ! آپ کو کشمیر میں امن کب نظر آگیا جو یہاں ’پھر تشدد‘ لکھ رہی ہیں؟؟
تشدد نے کشمير کی تحريک کو بہت نقصان پہنچايا۔ اگر ہم ديکھيں يہ سب کيوں ، کيسے اور کس نے کيا؟ اس کے ليے آسان طريقہ يہ ہے کہ غور کريں فائدہ کسے ہوا اور نقصان کسے پہنچا؟ سب سے زيادہ سياسی فائدہ انڈيا کو ہوا۔ اس نے پاکستان کو اس معاملے پر دنيا ميں بالکل تنہا کر ديا جس سے نہ صرف سياسی نقصان ہوا بلکہ اکانومی پر بھی بہت سے دباؤ آئے۔ کشميری عوام کو نقصان پہنچا کہ نہ صرف جانی نقصان ہوا بلکہ رياست کی معشيت بھی کمزور ہوئي۔ پاک فوج کو فائدہ ہوا کہ اسے بھارت دشمنی کا جواز ملا جس سے ملک کی حکمرانی اور وسائل استمعال کرنے کا موقع ملا۔ تشدد سے نقصان ہی نقصان ہے صرف اور صرف پرامن اور مسلسل سياسی جدوجہد ہی حالات ميں بہتری لاتے ہیں۔
نعيمہ جي! ايک بات تو واضح ہوئی کہ اب وہاں کے لوگ اپنا جينا مرنا اور اپنے مفادات کو اسی سرزمين سے وابستہ سمجھنا شروع ہوگئے ہيں۔ اسی ليے اپنا جمہوری حق استعمال کر کے اپنے حقوق لينا چاہتے ہيں۔ يہ ان لوگوں کی آنکھيں کھولنے کے ليے کافی ہے جو سرحد پار امداد سے وہاں ايسی کارروائيوں ميں جتے رہ کر سياست کرتے ہيں۔ سرحد پار والی خفيہ سرکار کو بھی اب عقل کے ناخن لينے چاہئیں۔۔۔
جمہوریت، آزادی، کشمیر، پاکستان، ہندوستان، عسکریت پسندی، دہشت گردی، سب سموک سکرین ہے۔۔۔ کشمیر ایک وجہ ہے، ہندوستان اور پاکستان کی اشرافیہ کے لیے، عوام کو محکوم رکھنے کی اور وہ اس وجہ کو مسئلہ سمجھ کر حل کر کے اپنے پاؤں پر کلہاڑی نہیں ماریں گے!
نعيمہ باجی ميں کشمير ميں پاکستانی مداخلت اور پاکستان سے کشمير کے الحاق کی کوششوں کا حد درجہ مخالف رہا ہوں۔ اس کی بنيادی وجہ يہ تھی کہ ميں کشميرکو پاک بھارت مسئلہ کی بنيادی وجہ سمجھتا تھا، ليکن جب سے پاکستان نے کشمير پر اپنے موقف سے ہٹنا شروع کيا ملک کے سکیورٹی مسائل بجائے اس کے کہ کم ہوتے اور بڑھ گئے اور يہ عقدہ کھلا کہ بھارت کشمير کو اٹوٹ تو سمجھتا ہی ہے ليکن پاکستان کے بارے ميں بھی بھارت سرکار يہی سوچ رکھتی ہے۔ لہذا پاکستانی گورنمنٹ کو کشمير کے حوالے سے سابقہ پاليسی دوبارہ بحال کر دينی چاہیے اور کشمير ميں ہونے والے موجودہ مظالم کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔ ايک بات اور کہ دو دن قبل امريکی صدر نے مسلمانوں سے ايک انتہائی شيريں خطاب کيا۔ میں اميد کرتا ہوں کہ اوباما اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے کشمير میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے حوالے سے بھارت پر دباؤ ڈاليں گے۔