یہ نہ ہوتا تو کوئی ۔۔۔
سندھ میں کچھ قوم پرست جماعتیں ہر سال مئی یا جون کے مہینوں میں اپنی سرگرمیاں تیز کردیتی ہیں جن میں خاص طور پر ہڑتالیں، تحریکیں اور لانگ مارچ منظم کیے جاتے ہیں۔ لیکن مئی اور جون مہینے کیوں؟
سندھ میں سیاست کی اندرونی دنیا کو قریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ ایسی کئی پارٹیوں کے لیڈروں اور ان کی فیملیوں کے کاروبار اے کلاس سرکاری ٹھیکوں یا کانٹریکٹوں پر مشتمل ہیں اور مئی اور جون سال کے ایسے مہینے ہیں جن میں پاکستان میں نئے سرکاری ٹھیکے یا ٹینڈر جاری کیے جاتے ہیں۔ حکومت چاہے کسی پارٹی کی بھی ہو لیکن ایسی قوم پرست پارٹیوں کے لیڈر نئے ٹھیکے اور ٹینڈر اپنے حق میں کروانے کے لیے 'جدوجہد تیز ہو' کہتے میدان میں نکلے ہوئے ہوتے ہیں۔
یونین اور ضلع کاؤنسلوں کے ٹھیکے ہوں یا پھر ہائی ویز کی تعمیرات یا پھر ٹول ٹیکس یا چونگی ناکہ کے کانٹریکٹ، سندھ میں ایسی کئی انقلابی پارٹیوں کے عظیم لیڈروں اور ان کے خاندان کے افراد کو حکومت وقت نے ٹھیکے دے رکھے ہوتے ہیں کہ ان پارٹیوں کو سندھ میں لوگ کہتے ہی 'ٹھیکہ پارٹی' ہیں۔
ان 'ٹھیکہ پارٹی' میں ایسی عظیم تحاریک اور لانگ مارچ منظم کرنے والے عظیم قائدین بھی ہیں جن کے ٹھیکے ملک گیر سطح ملتان اور پشاور تک پھیلے ہوئے ہیں بلکہ جاننے والے تو جانتے ہیں کہ ایسے رہنما اور پارٹیاں اپنے قومی ایجنڈے اور سیاسی اتحاد حسب ٹھیکہ بدلتے رہتے ہیں۔
ماضی میں اچھے دنوں میں اگر عوامی نیشنل پارٹی کی حکومت صوبہ سرحد میں تھی تو سندھ کے ان عظیم رہنماؤں کے زبردست اتحاد عوامی نیشنل پارٹی سے تھے کہ ایک ایسی سندھی پارٹی کو ٹھیکے پشاور میں اے این پی حکومت کے اثر رسوخ سے جاری کیے گئے تھے۔ اگر ٹول ٹیکس کے ٹھیکے جنوبی پنجاب اور اسکے دیگر ضلعی ٹھیکے تھے تو سندھی سیرائکی حقوق پر زیادہ زور دیا جاتا رہا تھا۔ پنوعاقل کی فوجی چھاؤنی اور کالا باغ ڈیم کی تعمیرات کے ٹھیکے بھی اگر ان کو ملیں تو یہ وہ لینے میں پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
یہ جو حال ہی میں صوبہ سرحد یا پختون خواہ میں فوج اور طالبان کے ستائے ہوئے اندرونی طور نقل مکانی پر مجبور پختونوں کی سندھ میں آمد کے خلاف پر تشدد تحریک ابھری ہے اس میں زیادہ تر وہی ٹھیکہ پارٹیاں لینڈ و بھتہ مافیا کے ساتھ کسی نہ کسی طرح انتہائی سرگرم دکھائی دیتی ہیں۔ اگر صوبہ سرحد سے انتہائي انسانی مصائب کے شکار پختون سوات سے سندھ میں نہ بھی آتے تب بھی ان ٹھیکہ پارٹیوں کو اگلے ماہ جاری ہونے والے حکومتی ٹھیکوں کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہی تھا۔:'یہ نہ ہوتا تو کوئی اور غم ہونا تھا۔'
تبصرےتبصرہ کریں
مجتبیٰ صاحب
اگر ان پارٹیوں کی نشاندہی کر دیتے تو اچھا ہوتا۔ وہاں ایک نہیں بیسیوں پارٹیاں ہیں۔ لگتا ہے آپ کے پاس کئی چشمے ہیں، کبھی کوئی پہنتے ہیں تو کبھی کوئی۔ کبھی آپ ایک شخص کی تعریف کرتے ہیں تو کبھی اس پر تنقید۔ آپ کس پالیسی پر کام کرتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ آپ کی سمجھ نہیں آتی۔
پہلی بار کچھ ڈھنگ کا اور سمجھ آنے والا لکھا ہے آپ نے
استاد دامن نے کہا تھا
’چیچوں چیچ گنڈیریاں
دو تیریاں دو میریاں
وچوں وچوں کھائی جاؤ
اتوں رولا پائی جاؤ‘
محترم حسن مجتبٰی صاحب، صوبہ سرحد میں فوج اور طالبان کے ستائے ہوئے نقل مکانی پر مجبور پختونوں کی سندھ میں آمد کے خلاف جو پر تشدد تحریک ابھری ہے اس میں وہی ٹولہ ملوث ہے جو ’طالبان طالبان‘ کی رٹ لگائے جا رہا ہے اور ایسا کر کے پُرتشدد تحریک کی ’راہ‘ ہموار کر رہا ہے۔ خاکسار کے خیال میں چونکہ مہنگائی بہت بڑھ گئی ہے اس لیے ’طالبان ڈھول‘ کے بدلے میں کوئی لمبا ہی ٹھیکہ لینے کی بُو آ رہی ہے اور متاثرین سرحد کو ’طالبان‘ گرداننے کے بدلے پاکستان کا ’حامد کرزئی‘ بننے کی تیاری ہو رہی ہے اور اس بات میں جان تب نظر آ جاتی ہے جب ’جناح پور‘ کے نقشے ذہن میں گردش کرنے لگتے ہیں۔
جناب والا بات کی آپ نے بڑے پتے کی، افسوس تو اسی بات کا ہے۔
جناب اعلیٰ ٹھيکوں کا موسم صرف سندھ ميں نہيں پورے ملک ميں ہوتا ہے بلکہ ميری معلومات کے مطابق باقی صوبوں ميں سندھ سے بھی بڑے بڑے شير بيٹھے ہیں ليکن ہنگامے صرف سندھ ميں کيوں ہوتے ہيں؟ سلام جناب کو کہ کس محنت سے اصولی موقف کو ٹھيکوں سے جوڑا ہے۔ کيا لاہور اور پشاور دھماکوں اور کراچی ميں آئے دہشت گردوں کی گرفتاری کے بعد بھی آپ کی آنکھيں نہيں کھليں کہ يہ خدشہ بالکل درست تھا کہ نقل مکانی کرنے والوں کے بھيس ميں دہشتگرد بھی آسکتے ہيں۔ ايک بات اور کہ سب سے بڑے ٹھيکیدار اور چونگی ماسٹر تو وزير اور مشير بنے بيٹھے ہيں۔
آپ نے سندھ کے حاليہ مظاہروں کو ٹھيکہ حاصل کرنے کا ايک سگنل قرار دیا تو مجھے ايسا احساس ہوا کہ مئی اور جون کے مہينوں ميں برصغير ميں مونسون کی بارشيں شروع ہو جاتی ہيں اور بارش کے پہلی بوند کے ساتھ موسمی مينڈکوں کے ترانے بھی شروع ہو جاتے ہيں۔ حسن صاحب کہيں آپ کا مقصد سندھ قوم پرست پارٹيوں کا اور موسمی مينڈکوں کا موازنہ تو نہيں؟
چاہے استعمال کوئی بھی کرے مگر ان کی دلیل تو درست ہے۔ مہاجر کوئی بھی ہو سندھی ہر مظلوم کے ساتھ ہے اور يہی سندھی کی پہچان ہے۔ مگر مہاجر آ کر اس مٹی ميں زعم نہ ہو بلکہ اپنے ہی کھيل شروع کر دے۔ پناہ دينے والے ہمدرد کے اس کی مٹی پر اختيار کو محدود کر دے، يہ تو ظالم مہاجر ہوا۔
حسن بھائی! آپ نے پتے اور اندر کی بات کہہ دی۔ يہی وجہ ہے کہ آج تک قوم پرست کامياب نہیں ہوسکے۔
بھائی صاحب!
کبھی کبھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ آپ کے نام سے مختلف لوگ لکھتے ہیں۔
یہ تحریر عقلیت اور دلیل کے بہت نزدیک ہے۔ جبکہ آپ کی کچھ تحریریں پڑھ کر سر پیٹ لینے کو دل کرتا ہے۔ پاکستان میں صرف سندھ میں نہیں بلکہ پورے پاکستان میں ایک ہی سیاست ہے۔ اپر کلاس سیاست۔ ایک بھائی پی پی پی میں دوسرا مسلم لیگ میں بھتیجا کسی بھی نئی آمریت یا اتفاقیہ پارٹی کی حکومت کے لیے تیار ملے گا۔ چٹ بھی میرا۔ پٹ بھی میرا۔
مسئلہ یہ ہے میرے اور آپ جیسے عوام کسے مرد مداوا بنائیں۔
آپ کی بات سر آنکھوں پر ليکن بحيثيت کراچی کے ايک بيس سال پرانے شہری کے ميں اب طالبانئزيشن کے تيزی سے بڑھتے اثرات سے شديد خوفزدہ ہوں اور يہ خدشات بے بنياد نہيں ہيں۔ يقين نہيں آتا تو کراچی ميں کھلی آنکھوں کے ساتھ پندرہ دن گزار کر ديکھ ليں۔
ٹھیکے کی سیاست ہو یا اپنوں کا بھلا، لٹتا کون ہے اور لوٹتا کون ہے، اس کی نشان دہی زیادہ اہم ہے۔ تاہم علی اعلان نام لینے سے کیا فائدہ، الٹا اپنے آپ کو خطرہ لاحق ہو جانا ہے۔
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔۔۔
کيا دہشت گردی صرف سوات والوں سے ہی منسوب ہے، کراچی اور سندھ کے لوگ اس سے مبرا و مستثنی ہيں؟ اس وقت ان کی مدد کيجیے۔ خدارا ان لٹے ہووں کو مزيد نہ لوٹیں۔
آپ قوم پرستوں پر تو شک کرسکتے ہیں ليکن سندھی عوام کے اجتماعی شعور پر نہیں۔ کامياب ہڑتال دراصل سندھی عوام کا فيصلہ تھا۔ وہ اپنے حقوق کے لیے اکٹھے ہیں۔