کشور کمار اور نانی!
کشور کمار اور میری نانی ہمیشہ میرے ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔
کشور کمار اپنے اس گیت کی وجہ سے میرے دل کے بریف کیس میں بند ہے کہ
' آدمی جو کہتا ہے آدمی جو سنتا ہے زندگی بھر وہ صدائیں پیچھا کرتی ہیں'۔
جبکہ میری نانی کی یہ بات میرے دماغ کے مٹکے میں ابلتی رہتی ہے کہ برائی تب تک بھوت بن کر تمہیں روپ بدل بدل کر ستاتی رہے گی جب تک تم اسے اچھائی سے نہیں بدلو گے۔
مجھے اس وقت کشور کمار اور نانی یہ خبر سن کر شدت سے یاد آ رہے ہیں کہ بھارتی سپریم کورٹ نے سن دو ہزار دو کے خونی گجرات فسادات میں مرنے والوں کی بھٹکتی ہوئی روحوں کو سکون دینے کے لیے تیز رفتار عدالتوں کے قیام کا فیصلہ کیا ہے۔ شاید سپریم کورٹ کو احساس ہوگیا ہے کہ گجرات سیکولر ہندوستان کے ضمیر پر تب تک بوجھ بنا رہے گا جب تک ناانصافی کی چتا پر رکھے ہوئی لاش کا انصاف کے گھی سےکریا کرم نہیں ہو جاتا۔
اور صرف گجرات ہی کیا، بھارت اور پاکستان میں ابھی بہت سی لاشیں ہیں جنہیں تاریخ کے سینے سے اتار کر باعزت طور پر دفن کرنے کی ضرورت ہے۔
جیسے وہ مسلمان، ہندو اور سکھ جو سینتالیس میں لاکھوں کی تعداد میں مارے گئے۔ ان کی بھٹکتی ہوئی روحیں آج تک آپس کے تعلقات پر روپ بدل بدل کر وار کررہی ہیں۔ مگر یہ بات نہ تو دلی سیکریٹریٹ کے ففتھ بلاک میں بیٹھنے والوں کی بدھی میں آ رہی ہے اور نہ ہی اسلام آباد کے فیڈرل سیکریٹیریٹ والے اس پر یقین رکھتے ہیں۔
سن اکہتر میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے تک جو لاکھوں لوگ بےگناہ مارے گئے اس سے انکار کے سبب اکہتر کا بھوت آج تک کبھی ضیا الحق تو کبھی مشرف آمریت کی شکل میں تو کبھی بلوچستان میں فوج کشی کی شکل میں پاکستان کو چین نہیں لینے دے رہا ہے۔
سن انیس سو اناسی میں ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل اس وقت تک بھٹکی ہوئی روح کی طرح پاکستانی سیاست سے چمٹا رہے گا جب تک اس کیس کا ری ٹرائیل نہیں ہوجاتا۔
سن چوراسی میں دلی سمیت بھارت کے مختلف شہروں میں جو ہزاروں سکھ مارے گئے۔ ان کی روحیں آج تک ہر انتخابات کے موقع پر بھوت بن کر انصاف کی دہائی دیتی ہیں۔
فرانس نے کیپٹن ڈریفس کی بےگناہ سزائے موت کو سو برس بعد ری ٹرائیل کر کے اپنے ضمیر کو آزاد کروا لیا۔ جرمنی نے نورمبرگ ٹرائیل کے ذریعے اور لاکھوں متاثرہ یہودیوں کو مالی معاوضہ دے کر اپنے قومی ضمیر کو نازی بھوت سے آزاد کروا لیا۔ نیلسن منڈیلا نے سچائی اور صلح جوئی کا کمیشن بنا کر گورے اور کالے کو اور ظالموں اور مظلوموں کو گلے لگ کر رونے اور معافی مانگنے اور معاف کر دینے کا موقع فراہم کر کے جنوبی افریقہ میں نسلی امتیاز کے نظام کو زمین میں سو فٹ نیچے گاڑنے کا انتظام کر دیا۔
لیکن بھارت اور پاکستان کب بڑے ہوں گے اور ایک دوسرے کے علاوہ اپنے اپنے شہریوں سے آخر کب معافی مانگیں گے۔ قانونی دلیلوں اور جھوٹے دلاسوں سے زندہ لوگ تو بہل جاتے ہیں۔ پر بھوت کہاں بہلتے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
کیوں مانگیں معافی؟
اچھی بات ہو گئی یہ تو۔ آٓپ تو چاہتے ہی یہ ہیں کہ حکمران حکمران رہیں ہی نہ۔ اور بھوتوں کی ہمیں فکر نہیں۔ پیر فقیر اور مخدوموں سیدوں کو رکھا ہوا ہے نا بھوت بند کرنے کو بلکہ سدھارنے کو۔
’خواب ہوتے ہیں دیکھنے کے لیے
ان میں جا کر مگر رہا نہ کرو‘
اس بلاگ کی مناسبت سے شعر عرض ہے
وہ بھی کيا دن تھے جب ہم جن تھے
اب تو ہم ديو ہيں جنوں کے پيو ہيں
غير پنجابی لوگوں کے ليے پيو يعنی باپ، فادر، ابا جان، دا جی وغيرہ وغيرہ
جس روز پاکستانی اور بھارتی علاقائی، لسانی اور مذہبی آسيبوں سے پيچھا چھڑا ليں گے يقين مانيں اس روز يہ بھوت بھی بيچھا چھوڑ ديں گے اور اس کے ساتھ ساتھ نانی کی روح کو قرار اور کشور کمار کی آتما کو بھی شانتی مل جائے گی۔ مجھے پورا يقين ہے کہ ايسا ضرور ہوگا۔ سوال اتنا ہے کہ انڈين اور پاکستانی آپ کی اوپر بتائی ہوئی دنيا کی مختلف جگہوں کی تاريخ سے سيکھ کر خود سےان آسيبوں سے پيچھا چھڑائيں گے يا پھر جس طرح کہاوت ہے کہ تاريخ کا سب سے بڑا سبق يہ ہے کہ تاريخ سے کوئی کچھ نہيں سيکھتا۔ تاريخ خود کو دہرا کر ہی خود سے ہميں سکھائے گی۔ بہرحال ميرا دل يہ ضرور کہتا ہے کہ خواہ کچھ ہو بھوت سے پيچھا چھوٹنے کا وقت آيا ہی چاہتا ہے۔ اب چاہے يہ صوفی محمد کے ہاتھوں ہو کہ بجرنگ دل کے ہاتھوں۔
وسعت صاحب سلام مسنون
آپ نے پشاور سے لے کر جنوبی ہند تک کو ديکھا۔ انڈیا میں حاليہ اليکشن ميں اپنے سفر کے دوران يہاں کے لوگوں کو بہت قريب سے ديکھنے کا آپ کو موقع بھی ملا۔ پاکستانی تو آپ ہيں ہی اس کے باوجود آپ کے ذہن ميں اگر يہ بات آئی ہے کہ ہم پشيمان کيوں نہيں ہوتے تو يقيناً کہيں نا کہيں اميد کی کرن نظر آتی ہے۔ بس دعا کيجيے گا کہ جس طرح عوام کے دلوں سے گزرتے وقت کے ساتھ کدورت دور ہو رہی ہے۔ سياستدان بھی اپنے دلوں کو صاف کرليں اور برملا نہ سہی کچھ تو پشيمانی کا اظہار کريں۔ ليکن مجھے نہيں لگتا کہ ان ظالم سياستدانوں کا دل نرم ہوگا۔ يہ جب ہم زندوں کو نہيں بخشتے تو پھر بھوت ان کا کیا بگاڑ ليں گے ؟