پاکستان کچی دیوار
پاکستان کے ہر دور کے حکمران جو ملک کی آدھے سے زیادہ آبادی جتنے لوگوں کو ملک توڑنے کے الزمات میں قید و بند یا دارو رسن کے دروازوں تک پہنچاتے رہے تھے اب انہوں نے پاکستان کے وجود کو آخر کار حقیقی خطروں سے دو چار کر ہی دیا ہے۔
بچپن میں درسی کتابوں میں پڑھا تھا کہ جعفر نامی ایک چرواہا جنگل میں بھیڑیں چرایا کرتا تھا اور ہر روز چیخ و پکار کرتا تھا کہ بھیڑیا آگيا بھیڑیا آ گيا 'بچاؤ بچاؤ'۔ جب گاؤں کے لوگ جعفر چرواہے کی چيخ و پکار پر لاٹھی ہھتیار لیکر نکل آتے تو بس یہی پاتے کہ جعفر چرواہے کی چيخ و پکار جھوٹی تھی۔
جعفر نے کئی بار ایسا کیا۔ آخری بار سچ مچ میں بھیڑیا جعفر کے ریوڑ میں آگيا اور جعفر نے مدد کے لیے بڑی چیخ و پکار کی لیکن کوئی اس کی مدد کو نہیں آيا کہ سب جانتے تھے کہ جعفر جعلی الارم بھیج رہا تھا۔
یہی حال پاکستانی حکمرانوں کا رپا ہے کہ وہ مختلف بنیادوں پر غفار خان، بھاشانی، مجیب الرحمان، حسین شہید سہروردری، جی ایم سید تو کبھی مری، مینگل، بزنجو، ولی خان، اچکزئی، ممتاز بھٹو، الطاف حسین اور حتیٰ کہ بنظیر بھٹو، نواز شریف کو غداری اور ملک توڑنے کے مقدمات میں قید و بند رکھتے رہے۔ کبھی اگر تلہ گنگ سازش کیس، کبھی لندن سازش تو کبھی حیدرآباد سازش تو کبھی اٹک سازش۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان تھا کہ کچی اینٹ اور گارے سے بنی کوئی دیوار جو ایک دھکے سے ٹوٹ جائے گی۔
جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے نام پر تو 'نیشنل سکیورٹی ریاست' اپنی جگہ اب نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے نظریہ ضرورت کے تحت بھی چوکیدرا گھر کے مالک بن بیٹھے۔ ملک بنانے میں جرنیلوں نے کوئي کردار ادا نہیں کیا تھا سوائے جنرل ضیاء کے کہ جن کا دعویٰ تھا کہ انہوں نے تحریک پاکستان میں کردار اس طرح ادا کیا تھا کہ دلی میں محمد علی جناح کے قائم کیے گئے اخبار 'ڈان' کا پہلا یا افتتاحی پرچہ بانٹا تھا۔ جرنیلوں نے ملک توڑنے میں کردار ضرور ادا کیا۔
اب وہ ملک جو آڑھتیوں، پٹواریوں، زوال پذیر مسلم جاگیرداروں اور زیرک وکیلوں نے بنایا تھا اس کی ایک طرف 'میڈ اِن آئی ایس آئی' طالبان لگے ہیں تو دوسری طرف بلوچوں کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ اگر دیورار کی زبان نہیں پڑھتے تو رحمان ملک کی زبان ضرور پڑھ لیں کہ جس سے ظاہر ہے کہ آگ گلستاں نہیں بنا کرتی۔
وہ بات جو سندھی لکھاری حلیم بروہی کہتا تھا اب شہباز شریف کہنے لگے ہیں کہ ایسا نہ ہو کہ (بلوچستان) ویزہ لے کر جانا پڑے۔
تبصرےتبصرہ کریں
بزرگوں نے کہا ہے کہ ’گرتی ہوئی ديوار کو ايک اور دھکا ديا جاۓ‘ شايد اسی ميں ہی سب کا بھلا ہو۔
جناب محترم حسن مجتبی صاحب، اسلام علیکم! خاکسار کے غوطوں کا لبِ لباب جو نکلتا ہے وہ کچھ یوں ہے کہ پاکستان کچی دیوار نہیں ہے بلکہ نہ صرف بیک وقت بلکہ خالصتاً ملائیت و آمریت کی پیدواریں اور ’ملاں ازم‘ اور اس ملاں ازم کی پروردہ ’اسٹیبلیشمنٹ‘ پاکستان کو کچی دیوار بنائے رکھنا چاہتی ہے کہ ایسا کرنے سے ہی انکا حلوہ مانڈا چلتا ہے۔ پاکستان بنانے میں کوئی بھی سنجیدہ نہیں تھا بلکہ پاکستان حادثاً بن گیا ہے جیسا کہ دوران قیام پاکستان قتل و غارت گری سے بھی عیاں ہے، یا اس کو بنوانے میں بہت سے ہتھکنڈے استعمال کیے گئے ہیں جن میں سب سے بڑا ہتھکنڈا کانگریسی وزارتوں کے ’ظلم و ستم‘ کو اس طرح ہوا دینا تھا کہ مسلمان نہ چاہتے ہوئے بھی ان ظلم و ستم کو اپنے ’دین و ایمان‘ پر حملہ گرادننے پر مجبور و لاچار ہونے لگے۔
حلات خراب ہیں لیکن ہمیں اس مشکل وقت کا مقابلہ کرنے کے لیے یکجا ہونے کی ضرورت ہے۔
حسن بھائی آپ ديگر غداروں کو تو بھول ہی گئے۔ یہ فقہ بھی غدار، وہ فقہ بھی غدار، غير مسلم بھی غدار، عورتيں بھی غدار۔ غرض يہ کہ مولوی اور فوجی کے علاوہ سب غدار اور مملکت خداداد پاکستان چن چن کر ان غداروں سے نمٹ رہی ہے۔
حسن بھائی! آخری قہقہہ غدار ہی لگائيں گے۔ بکرے کی ماں کب تک خير مناتی۔ ملا اور ملٹری کی آپس ميں جوتم پريڈ سے سب کا بھلا ہونے والا ہے۔ لالچی اور اقتتدار کے بھوکے سياستدان تھوڑا صبر کر ليتے تو دو ہاتھيوں کی لڑائی ميں کچلے جانے سے بچ جاتے۔
اچانک بن جانے والے ممالک، اچنک ہی ختم ہو جاتے ہیں۔