چاول، آٹا اور آپا!
ان دنوں بھارت انتخابی بخار کی لپیٹ میں ہے اور ووٹ کھینچو اصول کے تحت وہاں ایک بار پھرگذشتہ انتخابات کی طرح غریب غربا کو پولنگ بوتھ تک رجھانے کے لیے چاول کی سیاست ہو رہی ہے۔ایک پارٹی کہہ رہی ہے کہ ووٹ دو اور چاول دو روپے کیلو لو۔۔۔۔۔۔دوسری پارٹی کہہ رہی ہے ہمیں جتواؤ اور چاول ایک روپے کیلو میں لے جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ووٹر چاولا گیا ہے کہ کدھر جائے
جبکہ سرحد پار گندم کے آٹے پر سیاست ہورہی ہے۔ زرداری حکومت روٹی بذریعہ طفل تسلی سستی کرنے پر عمل پیرا ہے۔ صوبہ سرحد کی حکومت نے روٹی کی سرکاری قیمت پانچ روپے مقرر کر دی ہے۔ عمران خان کے مٹھی بھر تندوروں پر روٹی تین روپے میں دستیاب ہے۔ شہباز شریف نے پنجاب میں گورنر راج لگنے سے پہلے روٹی دو روپے میں بیچنے کے لیے آدھی سے زائد انتظامی توانائی صرف کردی۔ اب گورنر راج ہٹنے کے بعد شہباز شریف نے دوسری بار بحالی کی خوشی میں روٹی ایک روپے میں بیچنے کا اعلان کر دیا۔
لیکن عوام کا ایک حصہ شہباز شریف کے اس اعلان کا خیر مقدم کرنے کے بجائے اب یہ دعائیں مانگ رہا ہے کہ خدا شہباز شریف کو ایک بار پھر معزول کروائے تاکہ جب وہ تیسری بار بحال ہوں تو روٹی پچاس پیسے کی کردیں۔اور چوتھی بار ۔۔۔۔۔۔۔۔
بدقسمتی سے روٹی کی سیاست ایک ایسے ملک میں ہو رہی ہے جو گندم کی پیداوار کے حساب سے دنیا میں پانچویں نمبر پر ہے۔ لیکن روٹی یوں پہنچ سے باہر ہے کہ یہی ملک کرپشن کے اعتبار سے ٹاپ ٹین کی عالمی فہرست میں بھی شامل ہے۔
مگر اس میں قصور وار خود گندم بھی ہے۔ پہلے اس نے آدم کو جنت سے باہر کیا اب آدمی کو آپے سے باہر کر رہی ہے
تبصرےتبصرہ کریں
'زندہ رہ لوں کسی صورت تو بڑی بات ہے
ورنہ جان سے تو گزرنا کوئی دشوار نہيں'
مجھے نہ چاول چاہيے نہ آٹا صرف آپا چاہيے بس
اس خوشہ گندم کو جلا دينا چاہیے۔
چاول اور آٹے پر سياست يہ ثابت کرتی ہے کہ غريب لوگ کس حال ميں جی رہے ہيں اور اشيائے ضروريات کس طرح عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہيں۔
وسعت صاحب اس بار گندم انسان کو جہنم نکالے گی معاملہ برعکس ہے۔
سرمایہ دارانہ نظام کے کرشمے ہیں۔۔۔ جو اگائے، خوب پسینہ بہائے اور آخر میں خود ہی ترسے کیونکہ سرمایہ دار کا تو ایمان ہی یہ ہے
کیسا رسول کیسا خدا
پیسہ رسول پیسہ خدا
شاید اسی لیے اس نظام کو دجالی نظام بھی کہتے ہیں۔۔۔
کاش آپ کی بات کا آٹے ميں نمک جتنا وزن ہی ہوتا۔
فصل امير شہر کی ہوتی رہی خراب
بيٹی مگر غريب کی فاقوں سے مر گئی
اف ميرے اللہ ! يہ دن بھی ديکھنے تھے۔ سمجھ نہیں آتا يہ حکمران آخر چاہتے کيا ہيں۔ جيو اور جينے دو پر کيوں عمل نہيں کرتے۔ اناج پہلے ہی کم پيدا ہوتا، ہے ڈيمز بنا نہيں پاتے اور اوپر سے انڈيا نے ہمارا پانی بند کر کے ملک کو بدحالی کی طرف دھکيل ديا ہے۔ دريا خشک ہوچکے ہيں۔ ملک اندھيروں ميں ڈوبا ہے۔ قابل کاشت رقبے ميں اضافہ ممکن نہيں رہا۔ تيل، کھاد، بيج کسانوں کو لائنوں ميں دھکے، گالياں مکے کھا کے مہنگا ملتا ہے۔ يہ سب حکومت کی ناقص پلاننگ ہے اور عوام پر خدا کا قہر کہ زرعی ملک ہوتے ہوئے بھی عوام دانے دانے کو ترسے اور مٹھی بھر چاول کی نوبت سر پہ آجائے۔ پاکستان کا خدا ہی حافظ
وسعت صاحب
آپ کی بے ساختگی کا ہميشہ سے ہی معترف رہا ہوں۔ چاہے وہ بلاگ ہو مضمون ہو يا پھر بات سے بات بات سے بات پيدا کرنا کوئی آپ سے سيکھے۔ ميں نے سنا ہے کہ بی بی سی کی ٹرين حيدرآباد سے بھی گزرے گی۔ دلی تمنا ہے ملاقات کی اور کوشش بھی کروں گا۔ بس دعاوں ميں ياد رکھيے گا۔ ويسے چاول يا دال آٹے کے بھاؤ ميں ميں پڑھنا نہيں چاہتا۔ بس اتنی سی دعا ہے کہ خدا سب کے ساتھ بہتری کرے۔
خوب تحرير ہے ۔ مجھے نمک کے کام ميں مٹھاس کی تلاش ہے!
خدا کا رذق تو کم نہيں زميں پر
مگر يہ کاٹنے والے يہ بانٹنے والے
جب لوگ صحیح ہو جائیں گے تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔ انشااللہ۔
اک اور دريا کا سامنا تھا مجھے منير
اک دريا کے پار اترا تو ميں نے دیکھا
حسب سابق بہت اعلیٰ تحریر ہے۔ عوامی مسائل کو اس طرح نمایاں کرنے کا طریقہ بہت اچھا ہے۔ کسی زمانے میں یہی ذمہ داری میڈیا نبھاتا تھا (ففٹی ففٹی اور الف نون جیسے پروگرامز کے ذریعے) اب میڈیا روٹی کی بھوک کے علاوہ عوام کی ’پیاس‘ و ’اشتہار‘ بڑھانے کا سبب بھی بنا ہوا ہے۔
بہت خوب!