| بلاگز | اگلا بلاگ >>

جیڈگُڈی اور میڈیاہنٹ

نعیمہ احمد مہجور | 2009-03-12 ،14:25

اگر آپ شلپا شیٹی سے واقف ہیں تو جیڈ گُڈی کو بھی جانتے ہی ہونگے جن کے ساتھ تلخ کلامی کے مناظر برطانوی رییلٹی ٹیلویژن پر لاکھوں لوگوں نے بگ برادر پرگرام میں براہ راست دیکھے تھے۔

جیڈ گُڈی زندگی کی آخری سانسیں گن رہی ہیں۔ برطانیہ کا شاید ہی کوئی چینل ہوگا جو ان کے بارے میں آجکل خبریں نہ نشر کرتا ہو۔

گُڈی کینسر میں مبتلا ہیں۔ ڈاکٹروں کے مطابق ان کی زندگی چند ہفتوں میں ختم ہو رہی ہے۔ ان سے اختلافات اپنی جگہ مگر ان کے پیچھے جس طرح سے میڈیا لگا ہے اس پر نہ صرف حیرت ہوتی ہے بلکہ لگتا ہے کہ میڈیا انہیں زندگی کے آخری لمحے بھی سکون سے گزارنے نہیں دے گا۔

گوکہ انہوں نے بعض چینلوں کو موٹی رقوم کے عوض زندگی کے آخری لمحے ریکارڈ کرنے کی خود ہی اجازت دے دی ہے لیکن اس کا مطلب قطعاً یہ نہیں کہ میڈیا اس نازک مرحلے پر بھی ان کی جان نہ چھوڑے۔

دیکھا جائے تو گُڈی نے اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر اپنی موت کو گروی رکھا ہے جس کا احساس شاید ہم سب کو ہے۔

ہم مانتے ہیں کہ میڈیا لوگوں کی آواز ہے، معاشرے کا واچ ڈاگ ہے، سیاست دانوں کی پول کھول دیتا ہے، مقبول شخصیات کی زندگی کے ہر پہلو کی عکاسی کرتا ہے مگر کیا ان کی ذاتی زندگی میں کُودنا اور ایسے وقت جب وہ موت و حیات کی کشمکش میں ہیں کوئی معنی رکھتا ہے۔

شہزادی ڈیانا میڈیا کی ہی نذر ہوگئی، میکناز کی بیٹی غائب ہوگئی مگر میڈیا نے ایسا وِچ ہنٹ شروع کیا کہ ان کا جینا حرام کر دیا۔ جیڈ گُڈی مرنے والی ہے اور میڈیا نئی سٹوری کی تلاش میں ہے۔

معلوم نہیں میڈیا میں رہ کر انسان انسان نہیں رہتا۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 3:37 2009-03-13 ,خاورچودھری :

    آپ نے انتہائی اہم معاملے کی جانب توجہ دلوائی ہے۔ جیڈ کے ساتھ تقدیرنے تو زیادتی کی ہی ہے اب میڈیا جو کچھ کررہا ہے اسے جرم سمجھنا پڑے گا۔۔ جیڈ کی موجودہ حالت قابل رحم ہے اور کسی انسان کو زیب نہیں‌دیتا کہ وہ انہیں‌الجھنوں میں مبتلا کرے۔ میڈیا کی وجہ سے بہت سے لوگوں‌اور قوموں‌کو مشکلوں کا سامنا رہا ہے اور اب بھی ہے۔

  • 2. 5:52 2009-03-13 ,Nadeem Rehman Malik :

    پتہ نہيں کيوں ميڈيا والے آج کل بےحس ہوچکے ہيں -ان کا بس چلے تو يہ مرنے والے کےدماغ ميں کوہی کيمرا وغيرہ فٹ کر کے اس کےآخری لمحات کی دم توڑتی خواہشات کو ناضرين کے سامنے براہ راست پيش کريں--ايسی صحافت اور ايسی کوريج - -
    نديم رحمان ملک - مظفر گڑھ- پاکستان -

  • 3. 6:32 2009-03-13 ,محمد بلال افتخار خان :

    میں آپ سے پوری طرح متفق ہوں۔۔۔ بریکنگ سٹوری اور تہپ سٹوری کے لئے ہم کیا کیا نہیں کر جاتے۔۔۔جہان میڈیا کی آزادی خوش آئین ہے وہیں اس آزادی کا استمال بہت کم لوگ ہی جانتے ہیں

  • 4. 19:26 2009-03-13 ,عبدالوحيد خان ، برمنگھم (يوکے) :

    ليکن يہ بات بھی تو سوچيں کہ اگر ميڈياميں ايسی دوڑنہ ہوتی تو کون اتنی بڑی رقوم جيڈ گوڈی کو ديتا؟ اپنے ہاں تو مہدی حسن جيسے بڑے فنکار علاج معالجہ کيلئے لاچار ہيں اور يہاں جيڈ گوڈی کی موت کے منہ ميں بيٹھ کراپنے بيٹوں کے مستقبل کيلئے رقم اکٹھی کرنے کے بے انتہا بہادرانہ اقدام نے يہ ثابت کر ديا ہے کہ ماں کي مامتا کو کبھی بھی کوئی شکست نہيں دے سکتا!سرپرمنڈلاتی موت کاخوف بھی ! ويل ڈن جيڈگوڈی

  • 5. 20:03 2009-03-13 ,میاں کامل قیوم :

    میڈیا کمرشل ازم کی اُن ظالمانہ حدود میں داخل ہو چکا ہے جہاں انسانی جذبات و احساسات بے معنی ہو کر رہ جاتے ہیں۔آزادی اظہار کی سرحدوں کا تعین کیا جانا نہایت ضروری ہو چکا ہے۔کیا کسی کے آخری لمحات کو ہولڈنگ بورڈ کی زینت بنا دینا آزادی اظہار ہے؟
    میاں کامل قیوم، لاہور

  • 6. 21:05 2009-03-13 ,shahidaakram :

    نعيمہ جی ہم لوگ وُہ ہيں جو اپنا پيٹ بھرنے کے لِۓ کِسی دُوسرے کو چير پھاڑ بھی سکتے ہيں کہتے خُود کو اشرفُ المخلُوقات ہيں ليکِن ہيں جانوروں سے بھی بدتر کہ جانور بھی پيٹ بھر نے پر شِکار کو چھوڑ ديتے ہيں ايک ہم ہيں کہ پيٹ بھرتا ہی نہيں خاص طور پر ميڈيا تو کُچھ زيادہ ہی بدنام ہے اِس مُعاملے ميں جِنہيں اپنے نمبر بنانے ميں يہ بھی دھيان نہيں رہتا کہ يہ سب کِسی کے جزبات کے ساتھ مزاق ہے نا کرو ايسا ايک تو بندہ تکليف ميں ہے اور جا رہا ہے دُنيا سے ،پر کيا کريں گے يہ لوگ کہ واقعی ميڈيا ميں رہ کر شايد اِنسان اِنسان نہيں رہتا پيسہ کمانے کی مشين بن جاتا ہے اور مشينوں کو جزبات سے کيا کام؟

  • 7. 6:47 2009-03-14 ,Seema :

    ميڑيا آج صرف اپنے مفاد کو سامنے رکھتا ہے اور اپنی صحافتی ظابطۓ اخلاق کو بھول بےٹھا ہے اور اسکا براہراست شکار عام آدمی ہے

  • 8. 12:27 2009-03-14 ,نجيب الرحمان سائکو، لاہور، پاکستان :

    آداب عرض! بحثيت مجموعی ديکھ کر حاصل کلام نکالا جاۓ تو ميڈيا دنيا کی سب سے بڑی اور خطرناک 'ايجنسي' معلوم ہوتا ہے- اس کے سامنے آئی ايس آئي، سی آئی اے، را، موساد، خار دنيا کی سب ايجنسياں اور نوکر شاہياں کچھ حيثيت نہيں رکھتيں- بغور ديکھا جاۓ تو دنيا ميں سب جھگڑوں، فسادوں، افراتفري، لڑائيوں، مہابھارتوں، يدھوں، دنگوں، جنگوں، اور لسانی و فرقہ وارانی و ثقافتی و معاشرتی جنگوں کا سبب يہی ميڈيا تھا، ہے اور رہے گا- ملک ميں خصوصآ جبکہ دنيا ميں عمومآ امن و آشتي، بھائی چارے، انسانيت، متوازن زندگی کے فروغ و ترقی کيلۓ سب سے پہلے ميڈيا پر آہنی ہاتھ ڈالنا ہوگا اور اسکو سو فيصد حکومتوں کے ماتحت لانا ہوگا- يہ ميڈيا اپنی 'آزادي' کی آڑ ميں انسانوں کو بلاواسطہ يا بلواسطہ غلامی ميں دھکيلتا ہے اور يہ اکثر ديدہ يا ناديدہ ملک دشمن عناصر کو سپورٹ کرتا ہے-
    'کر رہا تھا غمِ جہاں کا حساب
    آج تم ياد بے حساب آۓ'

91ȱ iD

91ȱ navigation

91ȱ © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔