محاصرے سے بمباری تک
سرینگر میں فوجی محاصرے میں انتخابات ممبئ دھماکوں کے بعد بھارت پاکستان میں نیشنلزم کی تباہ کنُ لہراور کروڑوں لوگوں کے ذہنوں پر جنگ کے منڈلاتے بادل دیکھ کرجب میں نےہیتھرو ائرپورٹ پر قدم رکھا تو شدید سردی کی لہر میں ٹھٹھہرنےکے باوجود دل کا بھاری پن کم کم ہونے لگا۔
میں اپنے آپ کو یہ تسلی دیتے ہوئے گھر پہنچی کہ چند روز خون خرابے مارا ماری اور دل دہلانے والی ان خبروں سے نجات ملے گی۔
اپنے آپ کو اینٹر ٹین کرنے کے لیے ٹیلی ویژن آن کیا تو غزہ کی تباہ کن تصویریں اور ہر طرف فلسطینیوں کی خون میں لت پت لاشیں میرا مذاق اُڑانے لگی۔
اقوام عالم کے چند بیانات کے بغیر اس پر جیسےساری دنیا کو سانپ سوُنگھ گیا ہے۔
ممبئی حملوں پر ساری دنیا ایک آواز میں پاکستان کے خلاف صف آرا ہوئی ہے حالانکہ وہ گلا پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہا ہے کہ اس کا کوئی ہاتھ نہیں اور وہ دہشت گردوں کو پکڑنے میں ہر ممکن تعاون کرے گا مگر اس کی بات پرکسی کو یقین ہی نہیں ہو رہا ہے۔
سرجیکل سٹرائکس سے لے کر ایک بڑے حملے تک کی دھمکیوں سے کروڑوں عوام کی نیند اڑ گئی ہے مگر میڈیا نے رائے عامہ کو تیار کر ہی لیا ہے کہ "پاکستان کو سبق" سکھانا چاہے۔
معلوم نہیں کہ پاکستان خود اپنی کرتوتوں کی وجہ سے تنہا ہو رہا ہے یا اس سے افغان جہاد سے لے کر طالبان کو پیٹھ دکھانے تک کے تمام کام کروانے کے بعد بڑی طاقتیں اب اس سےاُوب گئی ہیں مگر مسلمان ملکوں کا حال ہی برُا ہے جو اپنی تباہی اور زوال کی داستان خود اپنے حکمرانوں سے لکھوا رہے ہیں۔
مصر سے لے کر سعودی شہنشاہوں کو اس کا کیا تجربہ کہ جو قوم ایک سال سے محصور اور ضروریات زندگی سے محروم بنائی گئی ہے وہ شائد خود بھی اب اسرائیلی بمباری سے ہی اپنا خاتمہ چاہتی ہو تاکہ بار بار کی ذلت سے نجات حاصل کی جائے۔
ایشیائی مسلمان ہو یا فلسطینی وہ جہاں کہیں بھی ہے باقی دنیا اسے اپنے لۓ بڑا درد سر سمجھ رہی ہے۔
دوسری قومیں ترقی کر رہی ہیں، مسلم دنیا کو نیچا دکھانے میں ایک دوسرے کی پیٹھ تھپ تھپا رہی ہیں، جہاں چاہیں بمباری کرسکتی ہیں، اپنے فوجی اڈے قائم کرسکتی ہیں اور جہاں ذرا سی بھی مزاحمت کا سامنا ہے وہاں کے حکمرانوں کو چند سکے دے کر خرید رہی ہیں۔ پیسہ نہیں تو ویاگرہ دے کر اپنے غلام بنا رہی ہیں۔
ایک ارب سے زائد آبادی پر مشتمل قوم اب تک صرف آپس میں لڑنا سیکھ گئی ہے اور بلند بانگ کھُوکھلےدعوے کرنے میں سب سے سبقت لے رہی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
قوم کے حکمرانوں کو کیا کہنتا
قوم سے دو ہاتھ بڑھ کر ہی تو ہیں
اور یہ تو فخر کی بات ہونی چاہے کہ ہمارے حکمران ہم سے بہتر ہیں
محترمہ! آپ کا غصہ سو % صحيح اور بجا ھے۔ ليکن اگر کوئ بھی اپنے حکمرانوں سے مذاکرات در مذاکات کے بعدنتيجہ=0 تو جنگ چھڑ جاتی ھے۔ پھر آپ ان کو ھماری ھی حکومتوں کے ساتھ ملکر لوگوں کو دہشتگرد+ عليہدگی پسند کا نام دے کر حکمرانوں کے ظلم کا راستہ صاف کر ديتے ہيں۔
نعيمہ صابہ جسکی لاٹھی اس کی بھينس کا زمانہ ہے---
نعيمہ مہجور صاحبہ ، طاغوتی قوتوں کے لۓ پاکستان روز اول ہی سے واحد خطرہ رہا ہے کيونکہ صرف پاکستانی ہی پان اسلامک سوچ کا حامل رہا ہے - باقي نسلوں اور قوموں ميں بٹ چکے ہيں اور اسی ميں خوش نظر آتے ہيں جبکہ پاکستاني فلسطين ، بوسنيا ، کشمير اور گجرات کے سانحات پر بے چين ہو اٹھتا ہے - کبھي صرف ايک افواہ پر اسلام آباد ميں امريکي سفارتخانہ نذرآتش کر ديتاہے - پاکستان سب سے بڑي فکر ہے عالمي استعمار کے لۓ - نااہل قيادت کے ہاتھوں مار کھا گيا ورنہ وسائل کي کمي نہ تھي - سلسلہ منقطع نہيں ہوتا تو پاکستان تمام عالم اسلام کو متحد کر چکا تھا جس کي شروعات اس کے ايک فرزند ذوالفقار علي بھٹو نےکر دي تھي جب تاريخ ميں پہلی بار تمام مسلمان قائدين کو 1974ء کي اسلامي سربراہ کانفرنس منعقدہ لاہور ميں ايک چھت تلے لا کھڑا کيا تھا - يہ کام صرف پاکستانی ہی کر سکتے ہيں اس لۓ وہ نشانے پر ہيں - انہيں کبھی چين سے بيٹھنے نہيں ديا جاۓ گا جب تک اس ايجنڈے سے دستبردار نہيں ہو جاتے - اسي نيت سے بيروني دباؤ کے علاوہ اب ان کی صفوں ميں نفاق ڈال کر انہيں کمزور بھي کيا جا رہا ہے - اور يہ حربہ کارگر ثابت ہو رہا ہے -
فکرانگيزصورتحال بنی ہوئی ہے تيسری دنيا کو شاہد اب بھٹو مرحوم کے نارتھ ساوتھ ڈائيلاگ کی تحرير سمجھ انے لگی ہو مگر جس واسطے پہلے ريجنل ازم کو فعال کيے ساوتھ کو منظم ہونا پڑےگا ديکھيۓ انصاف خود اس موجودہ صورتحال ميں مزيد کيا تقاضہ کرتا ہے
ميں اے رضا صا حب سے متفق ھو ں
بے حس مسلمان اور بے غيرت حکمران
„ حالانکہ وہ گلہ پھاڑ پھاڑ کر کہہ رہا ہے کہ اس کا کوئی ہاتھ نہيں„
کيا بات ہے آپ کی اور اب تو لگتا ہے کہ اس کی آواز آنا ہی بند ہو جائے گي۔
سلام! آللہ فرماتا ہے کہ سارے دشمنان دين مل کرچاليں چلتے ہيں اور آللہ ايک چال چلتا ہے اور وہ سب چالوں پر بھاری ہوتی ہے جزاک آللہ خير
نعيمہ جی آپکی ساری باتيں ٹھيک ہيں ليکن ہم لوگ جوکہ ايک ارب سے زيادہ ہيں کب تک خود کو مظلوم سمجھتے ہوۓ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے بيٹھے رہينگے اور ہمارے حکمراں کوئ مارس سے تو تشريف نہيں لاۓ ہيں بلکہ ہم جيسے ہی ہيں مسلمانوں ميں اتفاق ہی نہيں کسی بھی لحاظ سے جسکا معمولی سا مظاہرہ آپ خود ديکھ پڑھ سکتی ہيں بی بی سی کے ہی آپ کی آواز پر ہر بندے پر جيسے فرض ہے دوسرے کو کم عقل بتانا اور خود کو انٹرنيشنل ليول کا دانشور ظاہر کرنا ، تيس مارخان ہيں ليکن فل ٹائم فارغ اب سوچيۓ کہ اتفاق کہاں سے آئيگا ؟