خبریں سونے نہیں دیتیں
جنیاں تن میرے تے لگیاں تینوں اک لگے تے توں جانیں، قسم قرآن اے۔ (جتنے زخم میرے جسم پہ لگے ہیں، اگر اس کا ایک حصہ بھی تمہیں لگا ہوتا تو قرآن کی قسم تمہیں پتہ چل جاتا)۔
بم، اغوا، قتل، حملے۔ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اور جس طرح کہ اکثر لوگوں کی رائے ہے کہ یہ 'دوسرے کر رہے ہیں یا کروا رہے ہیں' کیا ہم نے یہ کبھی سوچا ہے کہ ہم اپنے یا اپنے بچوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ اس کا اطلاق جس طرح کے ایک جہاز پر لگے ہوئے بم پھینکنے والے فوجی پر ہوتا ہے اسی طرح جسم پر بارود باندھنے والے بمبار اور بچوں کے لیے روزی روٹی کمانے کے لیے دفتر جانے والے کلرک پر بھی۔ لیکن پھر بھی سبھی اس بات کو 'ایک خبر' یا 'ایک واقعہ' کہہ کر آگے نکل جاتے ہیں۔ کیا خبریں 'ہانٹ'(پیچھا) نہیں کرتیں۔ کیا خبریں شکلیں نہیں اختیار کرتیں، جن، بھوت نہیں بنتیں۔
ابھی حال ہی میں دو دوستوں سے بات ہوئی۔ دونوں کی کہانی اگرچہ الگ الگ تھی لیکن اس میں چھپا ہوا دکھ سانجھا تھا۔ ہوا یوں کہ میرے ایک بہت قریبی دوست نے مجھ سے کہا کہ یار ہم اپنے بچوں کو کیا دے رہے ہیں، ان کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔ 'ابھی کچھ دن پہلے جب میں گھر گیا تو میرا بیٹا کھلونوں سے کھیل رہا تھا۔ میرے دیکھتے دیکھتے اس نے ایک کھلونا ٹرک پلاسٹک کے فوجیوں کے ایک ہجوم کے ساتھ ٹکرا دیا۔'
اس نے جب اپنے بچے سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو تو اس نے کہا کہ بارود سے بھرے ہوئے ٹرک میں خودکش بمبار فوجیوں کو مار رہا ہے۔ میرا دوست اپنے بیٹے کو یہ بھی نہیں کہہ سکا کہ بیٹے ایسا حقیقت میں نہیں ہوتا۔
اسی طرح کا ایک واقعہ ایک اور دوست کے ساتھ پیش آیا۔ جب اس کے بیٹے کی استانی نے اس سے پوچھا کہ تم کیا بننا چاہتے ہو تو اس کا جواب تھا، 'ہائی جیکر'۔ کچھ دن پہلے ہی شاید اس نے ٹی وی پر بالی وڈ فلم 'ہائی جیکر' دیکھی تھی۔
اب اگر یہ لکھوں کہ خبریں سونے نہیں دیتیں تو شاید غلط نہ ہو گا۔
تبصرےتبصرہ کریں
'ميري آنکھيں کسي اندھے کو نہ دينا، يارو!
مِل گئي جو اسکو بينائي تو مر جاۓ گا'
ہمیں سونا ہی تو نہیں ہے جاگنا ہے، جگانا ہے خود کو، قوم کو اور ان خودکش بمباروں کی سوئی ہوئی انسانیت کو۔ کوئی ان سے پوچھے جس اسلام کے نام پر یہ انسانیت کا قتلِ عام کر رہے ہیں اس کے لانے والے نے کس خودکش بمبار کے سر پر ہاتھ رکھ کر یہ تعلیم دی تھی۔ پتہ ہے، اصل مسئلہ تعلیم کا ہے مذہب نے جو بنیادی تعلیمات دی ہیں ہم وہ بھول گئے ہیں۔ میں نے سنا تھا کہ اللہ اپنے حقوق معاف کر دے گا مگر بندوں کے حقوق کبھی معاف نہیں کرے گا۔ تو کیا کسی کی جان و مال کی حفاظت بندوں کے حقوق میں نہیں آتی؟ خود کش بمبار اور انہیں تعلیم دینے والے بس ایک سوال کا جواب دے دیں کہ یہ کس حق سے کسی دوسرے بے قصور مسلمان کی جان لیتے ہیں۔ اسلام کا یہ رخ صرف انہیں ہی کیوں دکھائی دیتا ہے؟
سارے جہاں کا درد آپ کے جگر ميں ہے۔ ٹينشن نہيں ليا کريں۔ بقول منا بھائی، ٹينشن لينے کا نہيں۔ ويسے بھی ٹينشن لينے سے کون سے مسائل حل ہو جائيں گے۔
السلام علیکم، عارف بھائی کہا تو آپ نے بالکل سچ ہے کہ ہم اپنے بچوں کو کیا دکھا رہے ہیں اور ان حالات کی ذمہ داری ہم سب پر ہی عائد ہوتی ہے لیکن انتہائی معذرت کے ساتھ کہنا چاہوں گا کہ بحیثیت قوم ہم بے حس ہو چکے ہیں اور اب اس بات کا کوئی بھروسہ نہیں کہ اللہ نہ کرے کل کو ہمارے اپنوں کے ساتھ ایسا کوئی حادثہ رونماء ہو جائے اور ہم اس کو بھی ایک خبر سمجھ کر گذر جائیں۔ میرا تعلق شعبہ صحافت سے ہے اور اپنی اس دنیا میں آجکل یہ صورتحال دیکھنے میں آتی ہے کہ اگر کوئی بڑی خبر نہ آئی ہو تو نیوز اڈیٹر صاحب بڑے سکون سے کہہ دیتے ہیں ’انتظار کرو بھئی ابھی تھوڑی دیر تک کسی نہ کسی دھماکے یا امریکی حملے کی خبر آ جائے گی۔میرا بی بی سی بلاگ کے توسط سے آپ سب سے یہ سوال بھی ہے کہ اگر اس موضوع پر لکھنے والے 50فیصد لوگ بھی اس صورتحال پر تشویش میں مبتلا ہوں تو ہم میں سے تبدیلی یا انقلاب یا پھر عوامی سطح پر آگہی کا علم کون اٹھائے گا؟
محترمی عارف صاحب! سلام مسنُون۔
يہ سچ ہے کہ کچھ خبريں اور واقعات واقعتاً انسان کی نيند اڈا کر رکھ ديتے ہيں، اور ڈراؤنے خواب کی طرح آپ کے اعصاب اور دِل و دماغ پر لرزہ طاری کر جاتے ہيں! کِسی ايسی ہی ذہنی کيفيت کا اظہار کرتے ہوئے نامور شاعر احمد فراز مرحوم نے اپنی ايک نہايت خوبصورت نيم طويل نظم ’آئی بينک‘ (EYE BANK) کا آغاز اِس زوردار مصرعے سے کيا تھا:
’ميں تو اِس کربِ نظارہ سے تڑپ اُٹھا ہُوں!‘
اخبارات ( بہ معني خبريں)، واقعات ، سانحات، حادثات، آفات، جذبات وغيرہ وغيرہ سبھی آپ کي نيند اور خوابوں پر لامحالہ اثر انداز ہوتے ہيں!
خبريں سونے نہيں ديتيں! بری تو خير بری ہيں ہي، بعض اوقات اچھی بھي سونے نہيں ديتيں! کيوں نہ ہو! دُنيا ميں ’شاديِ مرگ‘ نام کی کوئی شے ( کيفيت) بھی تو آخر پائی ہی جاتی ہے ناں!
پاکستان کی خبريں پڑھنے سننے کے لۓ جتنابڑا دل چايئے اس سے دگنا دل گردہ خبريں لکھنے والوں کا ہوتا ہے جب ہی تو پاکستانی صحافی اج کل مرد اہن کہلاتے ہيں
ہم تاريخ ميں اپنے آپ کو ايک ظالم قوم کہلوانا چاہتے ہيں- کاش ايسا نہ ہوں پر حقيقت سے کبوتروں کی طرح آنکھيں نہيں بند کی جا سکتي-
عارِف بھائی آپ کی بات اپنی جگہ اِتنی درُست ہے کہ بچوں کا واقعی کيا قصُور، اُنہوں نے تو جو ديکھنا ہے اُسی جيسا جوابی برتاؤ روا رکھنا ہے۔ مُجھے ياد ہے جب نائن اِليون کا واقعہ ہُوا تھا تو ميرا تين سالہ بھتيجا جو ايکسيڈينٹ کی وجہ سے ہاسپٹلائز تھا اپنے ليگو سيٹ سے ايک بڑا سا مينارہ بنا کر ايک کھلونا جہاز اُس سے ٹکرا ديا کرتا تھا کہ اوہ ورلڈ ٹريڈ سينٹر تباہ ہو گيا اور صدّام حُسين کی پھانسی کے بعد لاہور کے ايک بچے کا پھانسی لے کر ختم ہو جانا بھی ياد ہی ہوگا۔ يہ سب ياد دِلانے کی وجُوہات يہ ہيں کہ ميڈيا والے اپنی خبروں کا پيٹ بھرنے کے لیے نا صِرف ہم بڑوں کی نينديں اُڑاتے ہيں بلکہ بچوں کے معصُوم ذِہنوں کو کيسے کيسے پراگندہ نہيں کرتے جِن کا ثبُوت آپ کا يہ بلاگ ہے کاش کہ ہم يہ بھی سوچيں کہ ہمارے يہ بچے اپنی معصُوميّت کھو رہے ہيں اور کيا سيکھ رہے ہيں ہماری دُنيا سے؟
پھر کہا جاتا ہے
بچّے ہمارے عہد کے چالاک ہو گۓ
فکر اور پريشانی کی کيا بات ہے اس ميں غلطی کريں بڑے اور الزام بچوں پر۔ بچے کے ہاتھ ميں جوئے سٹک پکڑائيں نہ کہ گاڑی اور ڈائريکٹ ہائی جيکنگ نہيں پہلے کڈنيپ فلم دکھائیں اور ہوسکے تو کھانے کے بعد لسی پی ليں جگ نماگلاس ميں۔ پھر آپ خود کہيں گے ’لسی اٹھنے نہيں ديتي‘ پھر بڑی سے بڑی خبر ہی کيوں نہ ملے تکيہ سے منہ چھڑانا مشکل ہوجايئگا۔
عارف شميم صاحب سلام مسنون
رات کے پونے دو بجے ہيں دير سے گھر لوٹنے کے بعد کھانا کھاکر فوری سونا ممکن نہيں تھا اسی لیے ميں نے سوچا کہ کچھ دير ٹی وی ہی ديکھ ليا جائے چينل بدلتے ہوئے اچانک پتہ چلا ہے کہ ممبئی ميں دو بڑے ہوٹلوں اور کچھ مقامات پر بم دھماکے ہوئے ہيں اور جب ميں نے نيوز کی تفصيل جاننے کے لیے مختلف نيوز چينل لگانے شروع کيے تو کچھ ايسی ہولناک تصويريں سامنے آئيں کہ خدا کی پناہ۔ دہشت گردوں نے تاج ہوٹل اوبرائے ہوٹل اور سی ايس ٹی کو نشانہ بنايا تھا اس حملے ميں سات دھماکے کیے گئے اور تاج ہوٹل ميں کچھ دہشت گردوں نے پناہ بھی لے لی تھی۔ سی ايس ٹی کے پاس فرار ہونے کے لیے دہشتگردوں نے پوليس کی گاڑی ہائی جيک کی اور فرار ہونے کے دوران اندھا دھند فائرنگ کرتے چلے گئے۔ اس اچانک فائرنگ کی زد ميں ايک راہگیر بھی آگيا ٹی وی پہ اس سارے منظر کو لائيو يعنی براہ راست دکھايا جارہا تھا- جس بدنصيب راہگير کو گولی لگی تھی وہ اسی وقت سڑک پر گرا اور موقع پر ہی ہلاک ہوگيا۔ ايک لمحہ پہلے جو ايک جيتا جاگتا انسان تھا بس ايک ہي پل ميں خدا کو پيارا ہوچکا تھا۔ ليکن اس سے بھی عبرت ناک تو وہ منظر تھا جس ميں دکھايا جارہا تھا کہ گولی کھاکر اچانک گرنے والے اس بے سدھ شخص کی تصويريں بنانے کے لیے صحافی کيسے ٹوٹے پڑ رہے تھے اور پوليس کيسے پير پکڑے لاش کو گاڑی ميں منتقل کرنے کی کوشش کررہی تھی۔ ان مناظر نے مجھے بے سدھ کر رکھا تھا سکتے کے عالم ميں ميں يہ منظر ديکھ ہی رہا تھا کہ اچانک مجھے ياد آيا کہ ميری سات ماہ کی بيٹی پاس ہی پڑی ايزی چير ميں آرام سے پڑے پڑے اس سارے منظر کو ديکھ رہی ہے گو کہ اس عمر ميں اس کے چہرے پر جذبات يا پھر کوئی بھی ردعمل نہيں تھا باوجود اس کے ميں پھرتی سے اٹھا اور تيزی سے کرسی کا رخ بدل ل ديا۔ اب بتائيے ايسے ميں مجھے نيند نہيں آتی ہے تو اس ميں ميرا کيا قصور ہے۔ ہم نے خود اتنے مسائيل پيدا کرليے ہيں کہ نيند نہيں آتی اور ہم اپنے آپ کو دوش بھی نہيں دے سکتے۔
خير انديش، سجادالحسنين، حيدرآباد دکن
حالات کا نہ رکنا ہماری ليڈر شپ کی ناکامی ہے (تمام)۔ دھماکے فرانس ميں بھی ہوئے انگلينڈ ميں بھی۔ وہاں کی حکوت کی پاليسی کا يہاں کی بيان بازی سے مقابلہ کريں تو يھ کسی گھٹيا بھانڈ کی بولی لگتی ہے۔ مگر ووٹ بھی ہم نے ديے ہيں۔