تو سازش کیا ہے؟
80 کی دہائی میں جب امریکہ کی خفیہ ایجنسیاں افغان مجاہدین کی دامے، درمے اور سخنے مدد کر رہی تھیں تو سی آئی اے کے کچھ اہلکار مجاہدین کی کارکردگی سے زیادہ مطمئن نہیں تھے۔ ایک امریکی اہلکار کی یادداشتوں کے مطابق اُنہوں نے کچھ مجاہدین کو مشورہ دیا کہ وہ خود کش حملہ آور کیوں نہیں تیار کرتے۔ مجاہدین رہنما ناراض ہوئے اور بولے اسلام میں خودکشی حرام ہے۔
دس سال سے زیادہ عرصے تک چلنے والی افغان مزاحمت میں ایک بھی خودکش حملہ نہیں ہوا۔
تو یہ کیسے ہوا کہ بیس سال بعد خودکش حملے نہ صرف حلال ہوئے بلکہ جہاد کی سب سے ارفع شکل قرار پائے۔ اور وہ ہی امریکی اہلکار جو خودکش حملوں کی راہ دکھا رہے تھے اب اپنی حواری حکومتوں کے حواری علما سے ایسے حملوں کے خلاف فتوے دلوا رہے ہیں لیکن یہ حملے کرنے والے جوق در جوق چلے آرہے ہیں۔
تو سازش کیا ہے؟
جناب یہ خودکش، خودکشی کرنے کے لئیے نہیں نکلتے۔ انکو بھیجنے والے جو جیکٹ انہیں پہناتے ہیں اس میں تالا لگا ہوتا ہے جس کی چابی بھیجنے والے کے پاس ہوتی ہے۔ جو بارود ان کی کمر کے گرد باندھا جاتا ہے اسے ہٹانے کی کوشش کریں تو پھٹ جاتا ہے۔
ہر خودکش حملہ آور کے پیچھے کہیں نہ کہیں ایک ریموٹ کنٹرول والا بیٹھا ہے۔ جس طرح آپ اپنا ریموٹ دبا کر ٹی وی کا چینل بدلتے ہیں اسی طرح کوئ دور بیٹھا ہوا پہلے ایک ریموٹ دبا کر خودکش حملہ آور کو دھماکے سے اڑاتا ہے پھر دوسرا ریموٹ اٹھا کر ٹیلیویژن پر بریکنگ نیوز میں اپنا کارنامہ لائیو دیکھنے لگتا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترم حنيف صاحب ذرا غور فرمائيں کہ جب نہ صرف بيک وقت بلکہ خالصتآ ملائيت و آمريت کی پيداوار ن ليگ ’جمہوريت‘ کا ڈنکا بجا سکتی ہے تو پھر حرام خودکش حملے ’حلال‘ کيوں نہيں ہوسکتے! جب يہی سياسی کم معاشی و مفاداتی پارٹی زيادہ يعنی آمرِزمانہ ضياء الحق کی پيدا کردہ ن ليگ ملک کی سب سے بڑی عدليہ سپريم کورٹ پر دن دہاڑے مسلح حملہ ميں ملوث ہونے کے بعد معطل عدليہ ايشو کو پکڑ کر ووٹ ہتيا سکتی ہے تو پھر حرام خودکش حملے ’حلال‘ کيوں نہيں ہوسکتے!
اچھا۔ يہ بات آپ کو کيسے پتہ چلي؟
جس دن سے ملائت پپروفيشن بنا ہے اس دن سے اب تک اسکے مختلف برانچز جیسے پير، گیلانی، مخدوم، سجادہ نشين، علامہ، مولانا اور نہ جانے کيا اپنی دوکانين سجائے بيٹھے ہيں کوئی تعويز کوئی روحانی کوئی سماجی کوئی سیاسی پراڈکٹ بيچ رہا ہيے۔ اس کے علاوہ اس دوکانداری ميں آرڈر پر خصوصی مال بھی تيار کيا جاتا ہے- خود کش حملہ آور ان کی فخريہ پیشکش ہے۔ ان بازيگروں سے اس سےبھی زيادہ کی توقع کي جاسکتی ہے - ياد رہے دين اسلام ايک بغاوت تھی اسی طرح کے ٹھیکےداروں کے خلاف مگر افسوس!!
حنيف صاحب سلام مسنون
آپ نے يہ بلاگ کيوں لکھا ؟ آپ نے يہ کيوں کہا کہ خود کش حملے کيوں ہوتے ہيں ؟ آپ حيران کيوں ہيں؟ ديکھيے تالا لگا ہوتا ہے ريموٹ ہوتا ہے اور دھماکہ کرنے والا ايک ساتھ دو ريموٹ چلاتا ہے اور پھر سازش کيا ہے ؟ حنيف صاحب آپ نے سوال بڑا اہم اٹھايا ہے چونکا دينے والا تو نہيں مگر يقينا سوچ ميں مبتلا کرنے والا ہے بلکہ غور وفکر کے لیے مجبور کرنے والا ہے ؟اور ہميں اميد بلکہ يقين ہے کہ آگے آنے والے بلاگ ميں اس پر سے پردہ بھی آپ ہی اٹھائيں گے
خير انديش سجادالحسنين حيدرآباد دکن
مجھے تو نجيب صاحب کی بات پر حیرت ھے غلط یا درست طریقہ سے ووٹ لینے یا کسی بے گناہ کی جان لینے ایک برابر کیسے ھو گئے۔
لگتا ھے آپ صرف مخالفت برائے مخالفت میں بے گناھوں کی جانوں کو بھی بھول گئے
انثهائی افسوسناك اؤرالمناك طريقه كارهى مذهب كي مسخ شده شكل هي۔ تباهي اور بر بادي هے-
خوب کہا، بالکل درست تجزیہ
آپ اک کش لگائيں اور سو جائيں ٰ
اتنا سوچنے کا وقت آپ کو کيسے مل جاتا ہے- ھميں ضرور بتائیے گا
بڑی دور کی کوڑی لائے هیں جی آپ تو ـ
قبائیلیوں میں بدلے کی روایت کا تو جی آپ کو بھی معلوم هی ہے
جب دشمن پہنچ سے دور هو تو دشمن کے دوست بھی تو دشمن هو تے هیں ـ
باقی جی
بی بی سی دی آپنی هی پالیسی هو تی هے
خود کش حمله اور خود کشی کا فرق ؟؟
اور
کچھ سال پہلے تک جس کو میڈیا بم دھماکه لکھتا تھا
وهی اب
خود کش حمله لکھا جاتا ہے
جو چاھے آپ کا حسن کرشمه ساز کرے
آپ کے سوال میں ہی آپ کا جواب ہے۔ بنے ہیں اہل حوس مدعی بھی منصف بھی ، کسے وکیل کرے کس سے منصفی چاہے
ن ليگ ايک ترقی پسند جماعت ہے
سلام، جس طرح رروس کے خلاف امریکہ نے مدد کی تھی اسی طرح اگر چین امریکہ کے خلاف مدد کرے تو
یہ حملے حرام ہو سکتے ہیں۔ کیا خیال ہے؟ نجیب صاحب تو بی بی سی کے چہیتے ہیں اب دیکھیے ہمارے ساتھ کیا ہوتا ہے۔
بھائی دنيا مين اپنے مطلب کے لے سب کچھ جائز ھے
فطرت شناس
سرگودھا پاکستان
دوغلا معيار کيوں ؟
يہ بات درست کہ اسلام ميں خود کشی حرام ہے ليکن ايک بے دست وپا کو حد سے زيادہ مجبور کيا جائے تو وہ کيا کرے گا۔ اس کے علاوہ اگر جاپانی پائلٹ اپنے ملک کی حفاظت کے لۓ پيٹ سے بم باندھ کر امريکی جہازوں کی چمنيوں ميں کود جائيں تو وہ کيسے ہيرو ہو گۓـ
حنیف جان سلامت باشی آپ نے ایک اچھے نکتہ کی جانب اشارہ کیا ہے۔ بہ یکدم حرام (مذاہب کی طولانی تاریخ میں دس بیس سال کوئی بڑا عرصہ نہیں ہوتے) حلال کیسے ہوگیا؟واقعی قابل توجہ ہے۔لگتا ہے نظریات کی سیاست کے عقب میں ایک بڑی سیاست کارفرما ہے ۔نعرے چاہے کچھ بھی ہو،وہ محض لوگوں کے جذبات کو شعلہ خیز بنانے کے دستیاب ہتھکنڈے کے سوا کچھ نہیں۔ جواں مرگ سوویت یونین کے خلاف محاذ کھولنے والوں کے خلاف جب محاذ کھلا تو سب کچھ جائز ہوگیا۔حرام حلال میں بدل گیا۔دیکھئے آگے کیا ہوتا ہے۔ابھی جنگ فرسٹ اسٹیج پر ہے۔۔کھلی کشت وکشار نہیں ہورہی۔ بہرحال جب صف بندی ہوگی اور ممکنہ دستیاب نظریاتی و مادی وسائل استعمال میں لائے جائینگے۔ تب سوا ل غالباً کچھ صاف ہو گا اور اگر جستجو ہوگی تو یہ کہ حرام میں کون کون سے امور شامل کار ہیں۔
نئی بات سنائی آاپ نے۔ ميرے خيال مين کوی شعور سے خالی ھی تالا بند جيکٹ پہن سکتا ھے۔ يھ سب کفار کی ساذش ھے ورنہ کوئی اپنے مسلمان پھائی کی جان نھیں لے سکتا
ھمين دين اسلام کی اصل پھچان نھی رھی
افسوس اس بات کا ہے کے اس دینی اور سیاسی اشرافیہ نے پہلے مجاہد بیا کر ڈالر کمائے اور اب انھی کی لاشین گرا کر ڈالر کما رہی ہے۔ وللہ کوئی مسلمانون کو ان کی اشرافیہ سے بچائے
جناب نجيب صاب
ضياء جيسا جنرل اور ن ليگ جيسی پارٹی اگر نہ ہوتی تو بہٹو نے کب کا پاکستان بيج ديا ہوتا آج بنگلہ ديش کی کرنسی 16روپے ہے اور پاکستان کی 23 روپے۔
یہ بات آپ نے صحیح کہی ہے کہ یہ خود کش نہیں بلکہ ریموٹ کنٹرول ہیں۔ اور جہاں تک بات آمرانہ ن لیگ کے حلال ہونے کی ہے تو جناب اس گنگا میں سب نہائے ہوئے ہیں ۔ کوئی بھٹو ہو یا شریف سارے ایک ہی کھیتی کی پیداوار ہیں۔
جس کی لاٹھی اس کی بھینس
ڈئير محمد حنيف صاحب، اسلام عليکم!
سب سے پہلے ياد رکھنے والي بات يہ ہے کہ اُس وقت افغانستان ميں روس تھا يعنی سوشلزم- جبکہ آج امريکہ ہے يعنی سرمايہ دار- دوسرے لفظوں ميں افغانستان ميں جب 'باياں بازو' در ہوا تو خودکش دھماکے حرام تھے اور آج جب 'داياں بازو' افغانستان ميں ہے تو خودکش دھماکے 'حلال' ہوگۓ ہيں! کيوں؟- اس 'کيوں' کا جواب حاصل کرنے کيلۓ ہميں سوشلسٹ نظريات اور سرمايہ دارانہ نظريات کا تقابلی جائزہ لينا ہوگا اور ساتھ ہي انکي تاريخ کو بھي مدنظر رکھنا ہوگا کہ ان ميں کون مادہ پرست ہے، کون اعتدال پسند ہے، کون رجعت پسند ہے، کون سفاک ہے، کون زيادہ جمہوری ہے، کون انفرادی کی بجائے اجتماعی سوچ ومفاد کو اوليت ديتا ہے، کون زيادہ نظرياتی سوچ رکھتا ہے، کس کے سوچ وفلسفہ ميں تعمير بہ نسبت تخريب کے زيادہ پائی جاتی ہے، کون مکر وفريب و حيلہ سازی کرکے اپنے مقاصد حاصل کرتا ہے، کس ميں فخروغرور، جعل سازي، چرب زباني، مکاری جيسی غيرمہذب باتيں زيادہ موجود ہيں، کون اپنے مذموم مقاصد کی خاطر مذہب وثقافت جيسے 'علاقائی ورثہ' کو بھی نہيں بخشتا اور مختلف طريقوں سے ايسے حالات پيدا کرديتا ہے کہ بچہ اپنے پِنڈ ميں جنم ليتا ہے ليکن اسکی سوچيں لندن کے قصيدے پڑھنے لگتی ہيں اور اپنی جنم بھومی کو وہ لعنت ملامت کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے، وغيرہ - محمد حنيف صاحب، ان سوالوں کے جواب لينے کيلۓ جب خاکسار تاريخ، جنگوں، جنگی واقعات وحالات، زيرزمين چلنے والی تحريکوں کو مختلف کتابوں، اخباروں، رسالوں، جريدوں، ٹی سٹال مباحثوں، کارنر ميٹنگز، بسوں ويگنوں بس سٹاپوں پر ہونے والي پبلک کي باتوں، ٹی وی پروگراموں، ٹی وی اور ريڈيائی ڈراموں کے کرداروں کو تصور کرکے ذہن کے پردہ پر فلم کو چلاتا ہے تو نتيجہ يہی نکلتا ہے کہ سرمايہ دارانہ نظام کی نسبت سوشلزم يا کميونزم کہں زيادہ انسان دوست ثابت ہوتا ہے اور يہ نتيجہ خاکسار کے لبوں پر نہيں بلکہ چہرے پر مسکراھٹ بکھير ديتا ہے کہ فدوی نے سوشلزم نظريہ کو درست تھاما ہے! حاصل کلام يہ نکلا کہ جب سوشلزم افغانستان ميں در ہوا تو اس وقت خودکش حملے اس ليۓ 'حلال' نہيں کيے گۓ کہ روسی فوجيں بيگناہوں کو نہيں مارتی تھيں، شک کا سہارا لے کر شادی کی باراتوں پر آگ نہيں برساتی تھيں، جاسوسی طيارے نہيں تھے، 'باغيوں' کو امريکہ، پاکستان، مصر، سعودی عرب کی حمايت حاصل تھی نتيجتآ انہيں اچھي خاص 'کمک' مل جاتي تھي اور انہيں چھپ کر يا خودکش حملہ کرنے کی ضرورت نہيں تھی کہ جس سے کمک کم خرچ ہوتي اور 'کُھرا' بھي ختم ہو جاتا- دوسری طرف آج سرمايہ دارانہ نظام مبينہ ايک يا دو دہشتگردوں کو ختم کرنے کيلۓ بيس پچيس بيگناہ بھی مار ڈالتا ہے، معمولی سی مبينہ مخبری پر بم پھينک ديتا ہے چاہے وہ کوئی شادی کا اجتماع ہي کيوں نہ ہو- نيز آج 'مبينہ باغي' بظاہر اکيلے ہيں لہذا انکی کمک بھی کم ہے نتيجتآ خودکش حملے 'حلال' قرار دے ديۓ گۓ ہيں- اسکے ساتھ ايک اور خيال يہ بھی ہے کہ بيس برس قبل خودکش حملے اسليۓ حرام قرار ديۓ گۓ تھے کہ اس وقت اسلام ايک عقيدہ تھا- جبکہ آج خودکش حملے اسليۓ 'حلال' قرار ديۓ گۓ ہيں کہ اسلام 'سياسي اسلام' ہے يعنی 'ملائيت'!
دعاگو،
نجيب الرحمان سائکو، لہور، پاکستان
سلام مسنون! حنيف صاحب ہر کسی کے سوچنے کا اپنا اپنا انداز ہے - ايک پيشہ ور صحافی ہونے کے ناطے آپ کا تجربہ اور معلومات يقينا ناچيزسے بڑھ کر ہونگی - مگر دہشت گردی سےسب سے زيادہ متاثرہ صوبہء سرحد سے تعلق ہونے کی بنا پر اور حال ہی ميں وہاں تعطيلات کے دوران ميرے تجربہ ميں جو بات آئی اس کے مطابق دھشتگردی اور خودکش حملوں کے پيچھے چار طرح کے عوامل کار فرما ہيں - ايک حقيقی طالبان جو تعداد ميں انتہائی قليل مگر انتہائی سخت گير ہيں اور سمجھتے ہيں کہ اپنی کارروائيوں سے وہ اسلام کی خدمت کر رہے ہيں- دوسری قسم روايتی غنڈوں اور ڈکيتوں کی ہے جو طالبان کے لبادے ميں اپنے مذموم مقاصد کی تکميل کو يقينی بناتے ہيں اور طالبان سے براہ راست ٹکر سے بچنے کی خاطر ان کی مالی اعانت بھي کرتے ہيں- تيسری قسم جو سب سے خطرناک لوگ ہيں اورجنھوں نے ملک کی بنيادوں کو کھوکھلا کرکے اسکی سلامتی کوسب سے زيادہ خطرے سےدوچار کر ديا ہے- جن ميں کچھ بيرونی اور کچھ اپنے لوگ شامل ہيں ، لوگوں کو جنت کے سہانےخواب دکھا کران کی برين واشنگ کرتے ہيں اور بيرونی ايجنسيوں سے باقاعدہ مال کے بدلے ان ہي کے اسلحہ و ديگرسپورٹ سے ان کے بتائے ہوئے ٹارگٹس کو ہٹ کرتے ہيں - ايک اور قسم ان لوگوں کی ہے جن کے پيارے اس شطرنج کے کھيل ميں بے موت مارے گئے وہ بھی انتقام کی آگ بجھانے کي خاطر اس گيم ميں شامل ہوکر گويا اسلام کی خدمت کا بيڑہ اٹھاتے ہيں - ان ميں کوئی بھی يہ جاننے کی ضرورت ہی محسوس نہيں کرتا کہ جو کچھ وہ کر رہے ہيں وہ حلال ہے يا کہ حرام -
جو کچھ کھيل اسي کی دہائی ميں امريکہ، سعوديہ اور ضياء الحق گٹھ جوڑ سے ہوتا رہا ، اس کےبعد بےنظير کے دوسرے دور ميں طالبان نے امريکی آشيرباد سے کابل پر ناجائز قبضہ کيا، بعد ازاں مياں صاحب نے اميرالمومنين بننے کے چکر ميں ان کی حمايت اور سرپرستی جاری رکھی۔ ان تمام عوامل کی وجہ سے آج پاکستان اپنے بدترين دور سے گزر رہا ہےِ ـ بدقسمتی سے اب جو شکل ملک کی اعليٰ ترين قيادت کی ہے اللہ ہی چاہے تو اور بات ہے ورنہ
حکمراں بن گۓ ۔۔۔ لوگ
خاک ميں مل گۓ نگينے لوگ۔۔۔۔۔۔۔۔ اب راج کے گا زرداری
حنيف بھائی -بعد از سلام مسنون، اوائل اسی نوے کی دہائيوں ميں جبکہ ہمارے گھروں ميں نماز ، روزہ اور قرآن سب ہی کچھ ہوتا تھا- جس کو ’فرض‘ سمجھ کر ماں باپ پابندی کرواتے تھے- اس وقت بچپن کے کھيل کھلواڑ يا سستی کي بناء پر نماز چھوٹنے يا ديرسے پڑھنے پر ماں کی جھڑکياں اور باپ کے تھپڑ بھی کھائے ليکن خدا گواہ ھے ’ آج کےاسلامی نظام کے نفاذ کے داعيوں‘ اور ان کی بارود بھري جيکٹوں کے بل پر اسلام پھيلا کر جبري نماز پڑھوانےکےمتمنيوں اور انکے ہمنواؤں سے جو وحشت اور خوف آج محسوس ہوتا ہے پہلے کبھی نہيں ہوا۔
آپ کی طرح بندے کو بھی ملک سے باہر نکلے لگ بھگ ڈيڑھ دہائی کا عرصہ بيت چکا ہے اور جيسا آپ نے اپنے پچھلے مضمون ميں فرمايا ’شاید میں بھی ان پردیسیوں کی طرح ہوں جو چاہتے ہیں کہ وہ خود چاہے بوڑھے ہوجائیں ان کے لڑکپن کی گلی میں کچھ نہ بدلے‘ جيسی خواہش کے باوجود مجھے اس بات کا مکمل ادراک ہے کے زمانے کو ثبات نہيں- آپ نےاپنے پچھلے مضمون ’ظاہری مولوی اور بغیر داڑھی کے طالبان‘ ميں اپنے پاکستان کے دوست ذوالفقار کا ذکر کيا جس نے ’بازار میں رہنے والے تیز طرار نوجوان کی طرح سارے کام جلدی جلدی کیے۔ دھندہ، عشق، نشے، شادی، بچے‘ اور ان سب کے بعد تبليغيوں والی لمبی سی داڑھی رکھ کر شيعوں کے خلاف جہاد ميں نہ صرف خود شامل ھوا بلکہ آپ سے اس جہاد ميں شموليت سے معذرت کا سن کر ايمان کی کمزوری کا طعنہ بھي ديا اور جس نے بارہ سال بعد ملنے پر جہاد کو بھی سنائيں۔
ميں آپ کو بتاؤں جس وقت کا آپ نے ذکر کيا ھے تب ميں بھی يہاں امريکہ کہ ايک ’پنڈ‘ نما علاقے کی يونيورسٹی ميں زيرتعليم تھا- تب ميں اور ميرے جيسے کچھ اور ديسی دوست يہاں کے ہر لحاظ سے ’صبر آزما‘ ماحول ميں ايک دوسرے کو ’ترغيبات‘ سے بچنے کے لیے کبھی حوصلہ اور کبھی بچنے پر طعنے ديا کرتے تھے تب ہمارےکچھ ’جواں مرد‘ ہموطنوں نے بقول مشتاق يوسفی، گوروں سے اپنے آباؤ اجداد کا بدلہ لينے کی ٹھانی - يعنی ’ولايتی لسی اور کڑی‘ جی بھر کر اڑائی اور ہم جيسوں کا مزاق اڑايا - پڑھائی ختم ہونے کے بعد سب نے اپنی اپنی راہ لی اور غم روزگار ميں اکثريت مختلف شہروں ميں جابسے۔ اب حال ہی ميں کسی جگہ بہت سوں کو اکھٹا پايا تو ديکھا ميری ’ٹولي‘ کے کم ہمت جوان آج بھی کم و بيش ويسے ہی مسلمان ہيں ليکن اجداد کے بدلے کی خاطر ’ميدان عمل‘ ميں اترنے والوں کی اکثريت کو پہچاننے ميں بے انتہا دقت ھوئی کہ اب انھيں ہاتھ دو ہاتھ لمبي داڑھيوں اور ان سے کہيں زيادہ لمبے ’اسلامی عقائد‘ کی وجہ سے بہت تلاش کر نکالنا پڑا- مختصرا ’جس جس نےطالب علمی کے دور ميں جتنی شدت سے اجداد کا بدلہ‘ لينے کا جہاد کيا آج اتنی ہی شدت سے ’طالبانی جہاد‘ کا نہ صرف اشتہار نظرآيا بلکہ ملاقات کے دوران اسی شدت سے ھم جيسے ’ہر دو ادوار کے بدنصيبوں کو تلقين و وعظ‘ سے بھی سرفراز فرمايا۔ اور ’ميری ٹولی‘والے کبھی ان کا اور کبھی ايک دوسرے کا منہ ديکھا کیے۔ ہاں يہ ضرور ہے کہ بعد ميں ايک دوسرے کو خوب گالياں سنائيں کہ ہم جيسوں کو تو کسی دور کا ’جہاد‘ بھی نصيب نہ ھوا- مجھے اميد ہے کہ اب آپ کو اور ديگر قارئين کو اس وقت کے خود کش حملے کے حرام اور پھر حلال ہونے کی وجوہ اور ’سازش کيا ھے؟‘ بخوبی سمجھ آگئي ہوں گی۔
فقط خير انديش
وحيد
بہت اچھا تجزیہ ہے!