اُس گھر کی کہانی
وہ گھر جب بنا توگھر کے مالک نے اُسکی دیواریں مظبوط بنانے میں کوئی کسر نہیں چُھوڈی۔
مگر وہ ابھی گھر کی دہلیز پر تھا کہ وہ انتقال کرگیا ۔ایک طرف اُن کے جانے کا غم تو دوسری طرف گھر کو بچانے کی فکر چند روز تک افرادخانہ کو ستاتی رہی۔
اُس گھر پر قدرت بھی مہربان نہیں رہی۔ حالات کے تپھیڑوں میں ہمیشہ گھرا۔ دشمنوں نے کبھی اسے راحت کی سانس لینے نہیں دی گھر پھر بھی کھڑا رہا لیکن جب خودگھر کے افراد نے اسے چوروں کی طرح لوُٹاتو اسکا وجود خطرے میں پڑگیا اور اس کی ایک ایک انیٹ غایب ہونے لگی۔
آس پاس کے پڑوسی ٹکٹکی لگا کر دیکھ رہے تھے اورآخری اینٹ گرنے کا انتظار بھی کرتے رہے۔ گھر میں رہنے والوں کو اسکا کوئی احساس نہیں رہا بلکہ اپنی مستی میں ہوش وحواس کھو بیٹھے تھے
جب خدا نے دیکھا کہ ان لوگوں کو گھر کی تباہی کا کوئی خیال نہیں اور نہ اسے بچانے کا کوئی غم ہے یہ لوگ ہمیشہ لڑتے جھگڑتے ہیں ایک دوسرے کو مانتے نہیں نفسا نفسی کی مارا ماری میں پڑے ہیں تو کیوں نے اس گھر کوہی ختم کردیا جائے۔
پھر اچانک ایک بڑا زبردست دھماکہ ہوا ۔نہ گھر رہا اور نہ گھر میں رہنے والے لوگ رہے بالکل بگ بینگ والا دھماکہ جس میں کاینات ختم ہوگئ تھی۔
سکول میں جب ہم آپس میں لڑتے تھے تو ہماری ٹیچر یہ کہانی ہمیں سنایا کرتی تھیں۔ اتنا عرصہ گذرنے کے بعد نہ جانے آجکل یہ کہانی مجھے بار بار کیوں یاد آرہی ہے۔
آپ بتاسکتے ہیں؟
تبصرےتبصرہ کریں
محترمہ نعيمہ صاحبہ، اسلام عليکم!
بمطابق راقم، آپ کی بيان کردہ کہانی تو ملک کے ہر بچہ کو پہلي کلاس سے ہي پڑھانا شروع کرديا جاتا ہے تاکہ بچہ کہاني لکھنے والوں کي 'لائن' پر آ جاۓ اور انکو ملک پر جان نچھاور کرنے والوں کي کھيپ مل سکے نتيتجتآ وہ اس کھيپ پر اپنی سياست چمکا سکيں اور اگر سياست نہ چمک سکے تو خود تو جدہ، لندن، افغانستان بھاگ جائيں ليکن عوام کو حالات کے رحم وکرم پر تنہا چھوڑ جائيں- محترمہ يہ کہاني صرف کہانی ہی ہے اس ميں حقيقت کا کوئی پہلو نہيں ہے- بي بي جي، اس گھر کا مالک حق ملکيت نہيں چاہتا تھا بلکہ وہ صرف اپنے آباؤاجداد ہی کے گھر ميں رہتے ہوۓ ايک عليحدہ پورشن لينا چاہتا تھا تاکہ وہ اپنے کنبہ کو 'محلہ داروں' کی سياسی و معاشی آمريت سے محفوظ رکھ سکے- پھر 'خاندان' والوں نے مختلف قسم کی لائياں بجھائياں کرکے، ڈرامے، افسانے بنا کر، جلتی پر تيل پھينک کر، مذہبی حساس کارڈ کھيل کر اس مالک کو عليحدہ پورشن نہ بنانے پر اکسايا اور ايک بالکل نواں نکور گھر بنانے پر غير محسوس طريقہ سے دباؤ ڈالا- سنتے ہيں کہ يہ نيا گھر اسلام کے نام پر بنايا گيا تھا- جبکہ تاريخ سے عياں ہے کہ مسلمانانِ ہند کو کبھی بھی اپنے دين وايمان و کلچر وثقافت و معاشرت کے کسی دوسری ہندو، عيسائی معاشرت سے اغوا ہونے کا خدشہ نہيں رہا تھا- شہنشاہ جلال الدين محمد اکبر کے تاريخ ساز دورِ رواداری ميں ہندو مسلم سکھ عيسائی ايک گھاٹ پر پانی پيتے رہے تھے- نيا گھر بنوانے ميں وہی اذہان کار فرما تھے جو اذہان اکبر کے 'دين الہي' سے خدا واسطے کا بير رکھتے تھے اور جو خرد دشمن واقع ہوۓ تھے- اس قسم کے اذہان کو جديد دور ميں 'ملائيت' کہا جاتا ہے- حالانکہ اکبر کا مقصد کسی نۓ مذہب کی ايجاد نہيں تھی بلکہ وہ ملک گير پيمانے پر مختلف مذاہب کے مابين کم ازکم ايک نکتے پر تعاون واشتراک کی فضا ہموار کرنا تھا اور وہ نکتہ تھا خداۓ واحد پر ايمان لانے کا مشترکہ عقيدہ- رسول پر ايمان لانا صرف مسلمانوں کا عقيدہ تھا جس سے اکبر مستشنی نہيں تھا ليکن اس عقيدہ کو تمام رعايا پر جبرآ ٹھونسنا اکبر کا کام نہيں تھا کيونکہ وہ بلاتميز مذہب تمام لوگوں کا بادشاہ تھا- 'دين الہي' اکبر کی ايک قومی حکمت عملی تھي، يہ فرقہ واريت کے خاتمہ کا آسان اور سيدھا راستہ تھا- مگر ملاؤں، پنڈتوں اور پروہتوں نے اکبر کی اس سادہ سی اور امن وامان پيدا کرنے والی بات کو خوب اچھالا اور بتنگڑ بنا ڈالا- نيا گھر بھی بات کا بتنگڑ بنا کر ہی اسی ملائيت نے بنايا تھا- آپکے خيال ميں نيا گھر بنانے کے فوری بعد گھر کا مالک انتقال کر گيا جبکہ خاکسار کے خيال ميں اس انتقال کی انکوائری ہو تو بلاواسطہ يا بلواسطہ گھر کے مالک کو قتل کيا گيا ہے- اس کہانی پر تحقيق کرنے، جھوٹے مورخوں کے پول کھولنے اور پاکستان کی سر کے بل لٹکائی ہوئی تاريخ کو پاؤں کے بل کھڑا کرنے کا وقت آ گيا ہے- آئيں خاکسار کا اس کام ميں ہاتھ بٹائيں تاکہ تاريخ ميں ہم شرمندگی سے بچ سکيں-
'ساتھي ہاتھ بڑھانا
ايک اکيلا تھک جاۓ گا
مل کر بوجھ اٹھانا'
مخلص،
نجيب الرحمان سائکو، لہور، پاکستان
جی ہاں اپ کو بچپن کی يہ کہانی اج اس وجوہ ستا رہی ہے کہ اب وہ گھر تين ديواروں سے ہاتھ دھو بھی چکا ہے بس سامنے کی ديوار کے دروازے پر سنتری کھڑے گھر کی حفاظت کر رہے ہيں-ايسے ميں ہندوستان کے تاريخی سماج کا ورثہ اپ سے متقاضی ہے کہ اس گھر کے بچاؤ کے لۓ کچھ کيجيۓ اپ اور برصغير کا ہر فرد اگر اس اواز پر لبيک کہے گا تو بہت حفاظت ممکن ہو سکتی ہے کم از کم اسلام عليکم سن کر ملنے والے کو اپنا سمجھ کر اپ اچانک اسکے چاقو سے گلہ بچانے کی کرسکتی ہيں شائد „بغل ميں چھری منہ پہ رام رام„ کی ری انرکارنيشن طالبان کی صورت پاکستان ميں ہوئی ہے جو کبھی ہندوستان ميں ٹھگی تحريک کا طريقہ کار ہوا کرتا تھا!
نعيمہ مہجور صاحبہ ، اس قوم کی صلاحيتوں کا اندازہ کرنا ہے تو بيرون ملک کسی کثيرالقومی معاشرے ميں جا ديکھيۓ جہاں يہ کما کر کھا رہے ہوں - مزدور سے چيف ايگزيکٹيو آفيسرتک يہ لوگ محنت ، فرض شناسی اور اعلٰي ترين کارکردگي کا نمونہ ہيں - ان خصوصيات کے باوجود خود اپنے ملک ميں کيوں کامياب نہيں ہو پاتے - وجہ يہ ہے کہ وہاں ترجيحات بدل گئي ہيں - اقدار سميت آوے کا آوا ہي بگڑ چکا ہے - انہي لوگوں کي ترسيل کردہ رقومات سے زرمبادلہ کے ذخائر بن پاتے ہيں جنہيں اللے تللوں ميں اڑا کر دوبارہ کشکول پکڑا ديا جاتا ہے - لاء اينڈ آرڈر اور انصاف کي فراہمي يقيني بنائی جاۓ تو يہي لوگ اپنےتجربےاور سرماۓ سےاس ملک کو آسمان کي بلنديوں پر لے جا سکتے ہيں - جہاں پاکستان بھکاريوں کی قطار سے نکل کر انشاللہ امداد دينے والے ممالک کي صف ميں شمار ہونے لگے گا - چين کو معاشي پاور ہاؤس بنا دينے والے يرون ملک مقيم چينيوں کي طرح -