'دل دہل گیا۔۔۔'
کنڑ میں وادی نڑے میں قائم امریکی فوجی اڈے پر دو دن سے ہوں۔
ہیلی کاپٹر دن رات آ جا رہے ہیں۔ کل رات گئے امریکی فوجیوں نے غالباً اپنی بھاری توپیں اور مارٹر ہھتیاروں کا جائزہ پریکٹس سے کیا۔ پہلے لاؤڈ سپیکر پر اعلان کیا جس کی سمجھ نہیں آئی لیکن اس کے بعد ایک کے بعد دوسری توپیں نہ جانے کس جانب داغیں کہ دل دہل گیا۔ رات کے سناٹے میں چند سیکنڈ بعد گولوں کے گرنے کی آوازیں بھی دور سے صاف سنائی دیں۔ صبح بیس میں قائم ریڈیو سٹیشن میں لگی سیٹلائٹ ڈش بھی اس گولہ باری سے اپنے مقام سے کھسک گئی اور درست کرنی پڑی۔
اس کے علاوہ کیمپ میں کوئی زیادہ سرگرمیاں نہیں ہیں۔ امریکی فوجیوں سے کیمپ سے باہر کا چکر دینے یا کسی قافلے کے ساتھ گشت پر جانے کی درخواستوں کا جواب نہیں مل رہا۔ کہتے ہیں اس بیس سے تو ایسی کوئی گشت کی ہی نہیں جاتی ہے۔ اگلے مورچوں پر جہاں ایسا ہوتا ہے وہاں جانا اس لیے رسکی ہے کہ واپسی پھر وقت مقررہ پر ممکن نہیں ہوتی۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ خود اس بیس کا کمانڈر کسی اگے مورچے پر پچھلے کئی دن سے پھنسا ہوا ہے۔ واپس نہیں آ پا رہا ہے۔
کیمپ میں کام کرنے والے مقامی افغانوں نے پشتونوں کی روایت کے مطابق مجھے اپنے قریبی گھروں پر کھانے اور سیر کرانے کی غرض سے مدعو کیا لیکن امریکی فوجی ان کے ساتھ بھی باہر جانے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر میں باہر جاؤں گا تو پھر انہیں پچاس امریکی فوجی بھی ساتھ بھیجنا ہوں گے۔ اس پر میرے میزبانوں نے اتنے لوگوں کے کھانے کے انتظام سے معزوری ظاہر کر دی۔ امریکی سے کہا کہ چلو باہر نہ سہی اندر بیٹھے ہی کچھ علاقے کی مجموعی صورتحال کا احوال ہمیں بتا دو تو اس درخواست کے جواب کا بھی ابھی تک انتظار ہے۔ امریکی فوجیوں کو یا تو کسی ناشناس شخص سے بات کی اجازت نہیں یا وہ اس میں دلچسپی نہیں رکھتے، بس اپنی دنیا میں مگن ہیں۔ امبیڈڈ صحافت کا شاید یہ بھی ایک منفی پہلو ہے۔ آپ کا سارا انحصار ان پر ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
خیال کوہ آشنا، (خیال کرو دوست) یہ کس مصبیت میں اپنے اپ کو پھنسا دیا ہے۔ آحد اپ کو اپنے امان میں رکھے۔
حد ہوگئی، يہ صحافت ہے يا قيد! ويسے مشورہ ہے کہ پچاس فوجيوں کا لنچ بکس بنائیں اور آپ خود دعوت ميں جائیں کيونکہ پٹھانوں کی دعوتيں بڑی اچھی ہوتی ہیں۔ ان کا خلوص تو بس بہت ہی اعلی ہوتا ہے۔ اللہ آپ کو حوصلہ دے اور آپ کے کان اور سماعت سلامت رہیں، ورنہ پتہ چلے کہ سادے چائنا بم پٹاخے سے ہی آپ کا دل دہلنے لگ پڑے ادھر واپسی پر۔۔۔
ہاہاہا! رشيد بھائی آپ تو ہمارے مہمان ہیں ليکن کہاوت ہے کہ ’صنم ہم تو ڈوبے ہیں تم کو بھی لے ڈوبیں گے۔۔‘ لہذا آپ ہماری دعوتوں پر اکيلے جايا کريں کيونکہ باقی بن بلائے مہمان ہیں۔۔۔
حسن مجتبي صاحب امريکہ براجمان رہتے ہيں وسعت اللہ خان بی بی سی اردو کا دماغ ہيں ساتھ ساتھ اسلام آباد سے لوگوں کے آٹے پانی کی مشکلات کی خبر ديتے رہتے ہيں عارف شميم صاحب کے نرم نرم بلاگ پڑھ کر ان کي نازک مزاجي کا پتہ چلتا ہے نعيمہ لوگ چونکہ مشرقي صنف نازک صحافي ہيں اسليے ميدان جنگ ميں نہيں جا سکتيں باقي سارے برطانيہ ميں آرام سے دفتر ميں بيٹھے ہوتے ہيں بی بی سی نے ساری خطرناک رپورٹنگ کے ليے آپ کو رکھا ہوا ہے کبھی امريکيوں کے گولے تو کبھی گلا کاٹ طالبان کے پاس ، پشتو آپ کے ليے بالائے جان بن گئی ہے پٹھان بيچارا جہاں کہيں بھی ہے آرام ميں نہيں ہے اگر وہ خود آرام ميں ہے تو اسکے اردگرد والے نہيں ہيں
اس معاملے ميں شايد امريکيوں کا کوئی قصور نہيں- کون بندہ اپنے مہمان کو خطرے کيطرف جاتا ديکھ سکتا ہے- ايسی پريشانيوں سے بچنے کا اک ہی حل ہے کہ آپ طا لبان کے کسی ليڈر سے ”ڈيل” کرليں-
ہارون صاحب آداب!
ہربات کی تہہ میں ایک بات ہوتی ہے اوروہی ساری بات ہوتی ہے،آپ کی باتوں کی تہہ میں بھی بہت سی باتیں ہیں بشرطیکہ کوئی امریکی فوج اور برطانوی صحافت کے بارے میں تھوڑی بہت سوجھ بوجھ رکھتا ہو۔