فراز کی وہ نظم۔۔۔
کچھ شاعر جیتے جی عظیم ہوتے ہیں۔ انکی شاعری لوک شاعری بن جاتی ہے۔ احمد فراز بھی عہد حاضر کے ایک ایسے شاعر ہیں۔ میں جب ٹین ایج میں تھا تو انکی ایک نظم "اسمگل" ہوکر پاکستان کے کونے کھدرے میں خوشبو کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ پاکستان پر ضیاءالحق سوار تھے اور فراز کی اس نظم کو کوئی 'پیشہ ور قاتلوں سے خطاب' کا عنوان دیتا تھا تو کوئی کچھ اور۔
میں سندھ کے صحرا میں تھا اور میرا اب نیوجرسی کا ایک دوست اکرم محمود اس وقت پنجاب میں ہوگا۔ ہم دونوں نے اپنےاپنے 'ذرائع' سے یہ نظم بچپن سے سن رکھی تھی۔ احمد فراز کی یہ نظم مجھے کبھی بھولی نہیں، کہیں کہیں دھندلی ضرور ہوگئي۔ پچھلے دن میں شاعر اکرم محمود کیساتھ بیٹھا اور ہم نے یہ نظم پھر یاد کی۔ احمد فراز کی اس نظم کے کچھ بند اسطرح ہیں:
'میں نے اکثر تمہارے قصیدے لکھے
اور آج اپنے نغموں سے شرمندہ ہوں
پابہ زنجیر یاروں سے نادم ہوں میں
اپنے گیتوں کی عظمت سے شرمندہ ہوں
سرحدوں نے کبھی جب پکارا تمہیں
آنسووں سے تمہیں الوداعیں کہیں
تم ظفرمند تو خير کیا لوٹتے
ہار کر بھی نہ جی سے اتارا تمہیں
جس جلال و رعونت سے وارد ہوئے
کس خجالت سے تم سوئے زنداں گئے
تیغ در دست وکف در دہاں آئے تھے
طوق در گردنوں پابہ جولاں گئے
سینہ چاکان مشرق بھی اپنے ہی تھے
جنکا خوں منہ کو ملنے کو تم آئے تھے
مامتائوں کی تقدیس کو لوٹنے
یا بغاوت کچلنے کو تم آئے تھے
انکی تقدیر تم کیا بدلتے مگر
انکی نسلیں بدلنے کو تم آئے تھے
جیسے برطانوی راج میں ڈوگرے
جیسے سفاک گورے تھے ویتنام میں
تم بھی ان سے ذرا مختلف تو نہیں
حق پرستوں پہ الزام انکے بھی تھے
وحشیوں سے چلن عام انکے بھی تھے
رائفلیں وردیاں نام انکے بھی تھے
آج سرحد سے پنجاب و مہران تک
تم نے مقتل سجائے ہیں کیوں غازیو
اتنی غارتگری کس کے ایما پر ہے
کس کی خاطر ہے یہ کشت و خوں غازیو
کس شہنشاہ عالی کا فرمان ہے
کس کے آگے ہو تم سرنگوں غازیو
آج شاعر پہ ہی قرض مٹی کا ہے
اب قلم ميں لہو ہے سیاہی نہیں۔
آج تم آئینہ ہو میرے سامنے
پیشہ ور قاتلو تم سپاہی نہیں- '
(نامکمل)