آگ لگے سورج کو
دنیا میں اس وقت دو سو سے زائد ممالک ہیں۔ ان میں سے ایک ملک ایسا بھی ہے جو روس سے کم از کم دس گنا چھوٹا ہے لیکن جس کا نہری نظام روس کے نہری نظام سے تین گنا بڑا ہے۔
یہ ملک دنیا میں مٹر کی پیداوار کے لحاظ سے دوسرے، خوبانی، کپاس اور گنے کی پیداوار کے لحاظ سے چوتھے، پیاز اور دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے پانچویں، کھجور کی پیداوار کے لحاظ سے چھٹے، آم کی پیداوار کے لحاظ سے ساتویں، چاول کی پیداوار کے لحاظ سے آٹھویں، گندم کی پیداوار کے لحاظ سے نویں اور مالٹے اور کینو کی پیداوار کے لحاظ سے دسویں نمبر پر ہے۔ یہ ملک مجموعی زرعی پیداوار کے لحاظ سے دنیا میں پچیسویں نمبر پر ہے۔ اسکی صرف گندم کی پیداوار پورے براعظم افریقہ کی پیداوار سے زائد اور برِ اعظم جنوبی امریکہ کی پیداوار کے برابر ہے۔ یہ ملک دنیا میں صنعتی پیداوار کے لحاظ سے پچپنویں نمبر پر ہے۔ کوئلے کے زخائر کے اعتبار سے چوتھے اور تانبے کے زخائر کے اعتبار سے ساتویں نمبر پر ہے۔ سی این جی کے استعمال میں اول نمبر پر ہے۔ اسکے گیس کے زخائر ایشیا میں چھٹے نمبر پر ہیں اور یہ دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت ہے۔
پھر بھی اس ملک کی تہتر فیصد آبادی کی آمدنی دو ڈالر روزانہ سے کم ہے۔ دن کا آدھا وقت یہ ملک بجلی سے محروم رہتا ہے۔ آٹے کے لیے قطاریں لگتی ہیں اور خودکشی کی وجوہات میں اب غربت اور بھوک بھی شامل ہوگئی ہے۔
آگ لگے ایسے سورج کو
جس سے میرا گھر جلے
تبصرےتبصرہ کریں
ہمارا کيا بنے گا۔
آگ لگے ایسے تبصرے کو
جس سے میرا دل جلے۔۔۔
مجھے واقعی بالکل يقين نہیں آ رہا کہ ہمارا ملک اتنا زرخيز ہے بلکہ خوشی ہی ہوئی آج خلاف معمول آپ کا بلاگ پڑھ کر، ورنہ ڈپريشن دوسرا گھريلو نام ہے آپ کے بلاگز کا ميرے گھر ميں۔۔۔ غربت تو تب تک رہےگی جب تک غريب زندہ ہے ليکن مزيد غريبی بڑھانے ميں ہر حکومت کا کردار ہوتا ہے۔ اللہ کا جتنا شکر کريں کم ہے۔ کتنا مالامال ملک نوازا ہے ليکن افسوس سب نے صرف کھايا ہے اپنے ملکی و غير ملکی اکاؤنٹس بھرنے کے لیے۔ اس غريب کا تو خيال ہی نہيں آتا حکومتوں کو سوائے ووٹ ليتے وقت جو خالی پيٹ ڈانس بھی کرتا ہے، بم اور گوليوں کا شکار بھی ہوتا ہے، پھر پوليس کے ڈنڈے بھی کھاتا ہے۔۔۔ بس اللہ تعالی ہی کا سہارا ہوتا ہے، ان دو ڈالر سے بھی کم کمانے والوں کے پاس۔۔۔
وسعت صاحب! آپ کا يہ بلاگ حقيقتاً چشم کُشا ہے۔ مگر اس کی تصوير مُنہ چِڑا کر کہہ رہی ہے کہ:
’جس کھيت سے دہقاں کو ميسر نہ ہو روزی
اُس کھيت کے ہر خوشہِ گندم کو جلا دو!‘
وسعت بھائي، آپ نے جِن نعمتوں کا ذِکر کيا ہے، اگر واقعی ايسا ہے تو اِن کے ثمرات غريب غُرباء کی پہنچ سے باہر کيوں ہيں! آخر کوئی طبقہ تو اِن سے لامحالہ فيض ياب ہو رہا ہو گا! سمجھ نہيں آتا کہ غريب غُرباء کب تک محض اِس طرح کی بےمعنی باتوں پر فخر کرنے پر اکتفا کرتے رہيں گے کہ دُنيا کا دُوسرا بلند ترين پہاڑ اور سب سے بڑی مسجد ہمارے مُلک ميں واقع ہے اور يہ کہ ماضی ميں کبھي اپنے وقت کا سب سے زيادہ طويل القامت شخص عالم چنہ بھی اِسی دھرتی کا سپُوت تھا! وغيرہ وغيرہ۔۔۔
ايک محبِ وطن مگر مايوس پاکستانی۔
ن ـ مصور
جي ہاں محترم وسعت اللہ صاحب کرپشن ميں بھی ہم ٹاپ ٹين ميں ہيں، جبکہ سياسی عدم استحکام ميں بھی ہمارا سکور اوپر جا رہا ہے۔ چند فيصد اشرافيہ نہ صرف اقتدار اور سرمائے پر قابض ہے بلکہ غريب کا خون بھي چوسنے ميں مسلسل مصروف ہیں۔ اگر اوپر والے چند افراد کو الگ کر ديں جو اربوں کھربوں کے برابر وسائل پر سانپ کی طرح لپٹے بيٹھے ہيں تو باقی ماندہ ملک کی فی کس يوميہ آمدن دو ڈالر کيا چند سينٹ بھی نہيں بنتی۔ ہاں يہ بےچارے ہاريوں کي طرح مسلسل آلو، مٹر، پياز، خوبانی، دودھ، گندم، آم، مالٹے اور کينو پيدا کئے جا رہے ہيں جو ارب پتی کوڑيوں کے بھاؤ ان سے خريد کر بلکہ چھين کر لے جاتے ہيں اور خود ان بے چاروں کے بچے يہ چيزيں کھانے کو ترستے رہتے ہيں۔ ايسے ميں تو انہوں نے يہ ہی کہنا ہے کہ ’آگ لگے سورج کو‘،
يا بقول اقبال
’جس کھيت سے دہقاں کو ميسر نہ ہو روزی
اس کھيت کے ہر خوشہ گندم کو جلا دو۔۔‘
بس اللہ سے دعا کريں کہ کہيں سے کوئی صاحب بصيرت اور صاحب کردار قيادت مل جائے جو بےبس عوام کو ان جونکوں سے نجات دلا دے۔ اقبال لاہوری مزيد فرماتے ہيں
’دنيا کو ہے اس مہدی برحق کی ضرورت
ہو جس کی نظر عالم زلزلہ افلاک۔۔۔‘
اللہ کی شان، اتنی خصوصيات پڑھ کر دل چاہا کاش يہ ہمارے وطن عزيز کی ہوتیں اور جب اپنے پيارے وطن کا نام پڑھا تو مارے خوشی کے آنسو گرنے لگے۔ پھر آخری حصہ پڑھ کر تو دل کيا دہاڑيں مار مار کر روؤں۔۔۔
آبادی کا بھی ذکر کر دیتے، تو بہتر ہوتا۔۔۔
جب تک قوانين سب کے ليے ايک جيسے نہیں ہوتے يہ ملک ترقی نہیں کر سکتا۔ ہم لوگوں کو آج تک کوئی ايسا سياستدان يا فوجی نہیں ملا جس نے پاکستان کی عوام کا سوچا ہو۔ سب نے اپنی جيبیں بھری ہیں اور ان لوگوں نے عوام کو ہميشہ بےوقوف بنايا ہے۔ پاکستان کے يہ حکمران، ان میں جو چھوٹے سے چھوٹا بھی ہے تو اس کا لائف سٹائل باہر کے ملکوں کے منسٹر سے اچھا ہے۔ اتنا کچھ ہونے کے ساتھ اگر اچھے سياستدان يا جرنيل مل جائیں تو پاکستان کہاں سے کہاں پہنچ سکتا ہے۔ سوال صرف اچھے، تعليم يافتہ، ديانتدار حکمران کا ہے جس کی پاکستان کو اس وقت ضروت ہے۔
اس ملک کا يہی حال ہوگا۔ جہاں لوگ يہ کہتے ہوں،
’قافلہ کس کی رہمنائی میں چلے
کون سب سے بڑا چور ہے۔۔۔‘
اور بم دھماکوں کے لحاظ سے۔۔۔؟
بہت اچھا تبصرہ ہے مظلوموں اور اس ملک کے حالات پر۔ اقبال نے کيا خوب اور شايد انہی حالات کے ليے کہا ہے،
’جس کھيت سے دہقاں کو ميسر نہ ہو روزی
اس کھيت کے ہر خوشہء گندم کو جلا دو‘
اللہ ہم سب کو اپنے ملک سے محبت کرنا سکھائے۔۔۔ آمین۔
خدا محفوظ رکھے ہر بلا سے۔۔۔ میرے پیارے وطن سے نصف صدی سے زائد فوج، بیو کریسی اور حکمرانوں کے پیٹ اور بینک اکاؤنٹس بھرے ہیں مگر کسی غریب کو بھوکا بھی نہیں مرنے دیا۔ اللہ میرے پیارے وطن کو مزید نعمتوں سے نوازے اور عوام دوست فوج، حکمران اور بیورو کریسی عطا کرے تاکہ پاک سر زمین دنیا کا خوشحال ترین خطہ بن سکے۔ دعا کیجیے۔۔۔ شاید یہی قبولیت کا وقت ہو۔۔۔
وسعت صاحب ايک نہايت اہم بات آپ بھول گئے۔ يہ ملک ايک ہی وقت میں سب سے زيادہ فور سٹار جنرل پيدا کرنے کا اعزاز بھی رکھتا ہے۔۔۔!
وسعت صاحب کچھ نمبر آپ گول کر گئے جن ميں ہماری کارکردگی پہلے نمبروں ميں ہے، مثلاً کرپشن، قتل و غارتگری، بم دھماکے، غیرت کے نام پر قتل، مذہبی دہشت گردی، سٹریٹ کرائم، خود کشیاں۔۔۔ غرض ایک لمبی لسٹ ہے۔ اب تو یوں لگتا ہے کہ قیامت یہ نہ ہوئی تو اور کیا ہو گی؟
وسعت صاحب، امیرالسلام ہاشمی کی ایک نظم آپ کی پیش کی گئی صورتحال سے خاصی ملتی جلتی ہے،
’اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
دہقاں تو مرگیا اب کس کو جگاؤں
ملتا ہے کہاں خوشہ گندم کہ جلاؤں
شاہیں کا ہے گنبد شاہی پر بسیرا
کنجشک فرد مایہ کو اب کس سے لڑاؤں
ااقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں
ہر داڑھی میں تنکا ہے، ہراک آنکھ میں شہتیر مومن کی نگاہوں سے بدلتی نہیں تقدیر
توحید کی تلوار سے خالی ہیں نیامیں
شاہیں میں مگر طاقت پرواز کہاں ہے
اقبال تیرے دیس کا کیا حال سناؤں‘
ہم سب کچھ ہوتے ہوئے بھی دوسری قوم کی طرف کشکول اٹھائے سوال کر رہے ہیں۔ حکمران عیاشی میں مشغول ہیں۔ ہم تو ایسے بےحس ہو چکے ہیں کہ ہم اس ظلم پر فریاد بھی نہیں کرتے۔ ہمارا حال اس بادشاہ کے غلاموں کا سا ہے جو مار پڑنے پر صرف مارنے والے افراد کی کمی کا شکوہ کرتے ہیں، اس ظلم کا نہیں۔ آپ لکھتے رہیں ہم پڑھتے رہیں گے۔ عملی طور پر حکومت خاموش، آپ خاموش، میں بھی خاموش۔۔۔ ’ہیپی اینڈ‘
ثابت ہوا کہ جس گھر میں اللہ کی دی ہوئی اتنی نعمتیں ميسر ہوں مگر اتفاق ندارد تو اس گھر کو ديمک اندر ہی اندر سے کھا جاتی ہے۔
وسعت بھائی آپ نے ھمارے قومی رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔آپ پر پاکستان حکومت کومقدمہ چلانا چاہیے۔آپ نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ھمارے پاس وسائل تو ہے مگر ھماری حکومت اور انتظامیہ ان وسائل سے خاص طبقہ کو فائدہ پہنچا رہی ہے۔ جناب ھماری حکومت پر آپ کی یہ تہمت بے کار ہے ہمارا میڈیا ہمیں لمحہ لمحہ ھمارے عظیم قائدین کی شب روز بتا رہا ہے کہ کس طرح ھمارے رہنماؤں کی راتوں کی نیند اجاڑ گئی ہے جب ان سے قوم کی یہ حالت دیکھی نہیں جاتی تو دبئی اور لندن جا کر قوم کی فلاح کےلیے نوافل ادا کرتے ہیں۔جناب ھمارے وسائل وغیرہ نہیں ہے یہ سب آپ مغربی طاقتوں کی سازش ہے جو آپ ھمیں ھماری قیادت سے بد ظن کر رہے ہیں۔
يہ کيا غضب کيا ہے ، وسعت اللہ صاحب - زخم ہڑے کرکے غم و اندوہ کی اتھاہ گہرائيوں ميں ڈبو ديا ہے -
آگ لگے ايسے سچ کو
جو بہت کڑوا ہے
یہ بتانا بھول گئے کہ یہ جادوئی ملک کیونکہ انیس سو اٹھاسی کا ایک چھوٹا سا زمیندار 2007 میں پاکستان کا امیر ترین ادمی بن گیا۔ یہ بتانا بھول گئے کہ اس چھوٹے سے ملک کے سیاستدان اتنے بڑے جھوٹے ہیں کہ چھوٹ پر ووٹ لے کر بعد میں منہ پھیر لیتے ہیں، یہ بھی بتانا بھول گئے کہ اس ملک کا فوجی بجٹ سب سے بڑا ہے اور اسلحہ اپنے ہی ملک کے عوام کے حلاف استعمال ہوتا ہے۔