مواخذہ ہمارے یاں!
صدر کا مواخذہ؟ کیا بچوں جیسی باتیں ہو رہی ہیں۔ ایسی باتیں کرنے والوں کے لیے ہی یہ مکھڑا ہے کہ، 'انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند کیسی انوکھی بات رے !'
حکمران کا مواخذہ تو تنگ نظر غیر مہذب اقوام کرتی ہیں۔ جیسے انگریزوں نے شاہ چارلس اول کا بذریعہ پھانسی اور کرام ویل کا قبر سے ہڈیاں نکال کر مواخذہ کیا۔ جیسے فرانسیسیوں نے شاہ لوئی ششدہم کا بذریعہ گلوٹین ، جیسے روسیوں نے زار نکولس دوم اور رومانویوں نے چاؤ شسکو کا بذریعہ فائرنگ سکواڈ، جیسے ایرانیوں نے رضا شاہ کا بذریعہ جلاوطنی اور نیپالیوں نے شاہ گیانندر کا بذریعہ بیلٹ مواخذہ کیا۔
ہم فراخ دل اور مہذب لوگ ہیں۔ ہم آئین اور ملک توڑنے والوں کو نہ صرف محفوظ راستہ دیتے ہیں بلکہ بعد از مرگ انہیں آرٹیکل چھ سمیت اعزاز کے ساتھ دفناتے ہیں۔ بینکوں کے قرضے لوٹنے والوں کو رائٹ آف اور حکومتوں کی دولت لوٹنے والوں کو این آر او کا گلدستہ پیش کرتے ہیں۔ کوئی ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا بھی پیش کر دیتے ہیں۔
ہمارے ہاں مواخذہ اگر ہوتا بھی ہے تو بذریعہ فیض ہوتا ہے۔ کیا سماں ہوتا ہے جب پرویز مشرف سے لے کر چھیمے قصائی تک سب کے سب ایک ہی چھت تلے اقبال بانو کے ساتھ لے سے لے ملاتے ہوئے تالی بجاتے ہیں:
'جب تخت گرائےجائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے
اب راج کرے گی خلقِ خدا جو تم بھی ہو اور میں بھی ہوں۔۔'
تو اس طرح ہوتا ہے مواخذہ ہمارے یاں تو!
تبصرےتبصرہ کریں
رواں دنوں ميں بيک وقت ملائيت وآمريت کی پيداوار ن ليگ بڑے زوروشور سے ہر جگہ صدر پاکستان جناب محترم پرويزمشرف صاحب کے مواخذہ کی باتيں صرف اپنی سياست چمکانے کی خاطر کر رہی ہے۔ اصولي طور پر پرانے رولوں کا مواخذہ جب تک نہيں کيا جاتا صدر مشرف کے مواخذہ کی بات کرنا ہی غير قانوني، غيرانسانی اور غيراخلاقی فعل ہے۔ جب تک مياں برادران سپريم کورٹ پر دن دہاڑے مسلح حملہ کی بابت خود کو مواخذہ کے لیے عوام کے سامنے پيش نہيں کرتے ان کی صدر کے مواخذہ کی باتيں بےوزن، بےجان اور انتقامی سوچ کو ظاہر کرتی ہیں۔ عام سي بات ہے کہ جو شخص اپني جان ومال کي خاطر ’مشرف، نواز‘ معاہدہ کر کے فٹا فٹ ملک سے ہی بوريا بستر گول کر جاتا ہے اس کے اندر اپنا مواخذہ کروانے کا دل گردہ ہو ہی نہيں سکتا۔ کيا خيال ہے!
مواخذہ تو اربابِ اختيار نے کرنا ہے جس کا فيصلہ عوام دے چکی ہے۔ ليکن حالات پر يہ مثال صادر آتی ہے، ’اندھا بانٹے ريوڑياں بار بار اپنوں کو‘!
اور اگر اندھے بانٹ رہے ہوں تو بيچاری عوام کی حالت کسی سے چھپی نہیں ہے۔۔۔
یقیناً میں عبدالرحمان سائکو سے متفق ہوں۔ چلو جیسے ہی سہی موخذے کی ابتدا تو کریں۔ ممکن ہے کہ بعد میں یہی لوگ عوام سے کہیں گے کہ مواخذا تو صرف فوجی آمروں کے کیے تھا، عوامی نمائندوں کے لیے مواخذے کی ضرورت نہیں۔ عوام پھر انہی کی مان لے گی۔ آخر عوام عوام ہی ہے۔ نہ لیڈر نہ ہی بصیرت یافتہ عوام۔۔۔
میں بس یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ پاکستانی سیاست میں اس لفظ کا مطلب ہے کیا؟
مواخذہ تو زندہ قوميں کرتی ہے اور نواز شريف ہوں يہ آصف زرداری پہلے اپنے تو مواخذے کروا ليں اور ويسے بھی ان لٹيروں پر دوسرے لٹيرے کی مواخذے کی باتیں اچھی نہیں لگتیں۔ سائکو صاحب نواز شريف کے بارے میں آپ نے بالکل صحيح کہا ليکن اين آر او پر پی پی پی نے جتنے فائدے اٹھائے اس کا نہیں بتايا کچھ؟ ادھر آپ کی اندھی محبت پھر جاگ گئی۔۔۔
قومی مفاہمت کے جذبے سے سرشار قوم مواخذہ کيوں کرے؟ ضرورت ہے ايک ’فوجی سياسی مفاہمتی آرڈ يننس‘ کی۔ پھر گنگا اشنان کی ضرورت بھی نہیں رہے گي۔
اصل ميں جب تک ہم لوگ ابتدا اسلام (خلافت راشدہ) کے بعد اپنا تاريخی احتساب نہيں کرتے، صحيح اور غلط کی ايماندارانہ تحقيق، تب تک کسی بھی ظالم کا مواخذہ نہیں ہو سکتا۔
وست صاحب، آج کل زرداری صاحب کو گاندھی گيری کا شوق ہو گيا ہے۔ صدر صاحب ہوں يا کوئی اور ہر کسی کو مفاہمت کی جھپی پا رہے ہیں۔ باقی رہی مواخذے کی بات تو اس بات پر عرض ہے:
’سب دھواں ہو جائیں گے اور واقعہ رہ جائے گا‘
اب مطلب تو آپ سمجھ گئے ہوں گے۔
جب قدرت تبديلی چاہتی ہے تو فرعون کے گھر میں موسي کو لے آتی ہے۔ ڈونٹ وری مشرف کے دن گنے جا چکے ہیں۔ اب کس نے گنے يہ پتا نہیں، مگر يہ فائنل اوور پھر گيم ختم۔۔۔
مجرم کو جانے کيوں ديا؟ کہیں جناب پرويز بشرف خود تو مجرم نہیں؟ کيا آپ بھی جرم کر کے بائی ائير حکومت کے خرچہ پر سعودی عرب جا سکتے ہیں؟