چھ لاکھ کا جوتا
جنرل امیر عبداللہ نیازی کا اڑتیس بور کا ریوالور دیہرہ دون ملٹری اکیڈمی اور ان کی چھڑی ڈھاکہ میوزیم کی زینت ہے۔
اس واقعہ کو میرے دوست احمد نوید نے اپنی ایک طویل نظم میں پچیس برس پہلے کچھ یوں بیان کیا کہ آج بھی تازہ لگتا ہے:
’وہ سارے سورما ہاتھوں میں اپنے جبر کی کرنی لیے مصروف ہیں پیوندکاری میں
کہ جن کی وردیاں تمغے کماں بردوش دشمن کے عجائب گھر کی زینت ہیں
یہ پیوند کار، یہ بوسیدگی کو لیپنے والے
رکاوٹ ہیں نئی تعمیر کے رستے میں برسوں سے‘
اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے پر دستخط کرنے والا جسٹس مولوی مشتاق کا قلم گجرات کے چوہدریوں کے پرسنل کلیکشن کا حصہ ہے۔
وہ جوتا جو ڈاکٹر ارباب غلام رحیم کو سندھ اسمبلی کے کاریڈور میں مارا گیا اسے پیپلز پارٹی سندھ کے ایک کارکن کاظم حکیم نے چھ لاکھ روپے میں خریدنے کی پیش کش کی ہے تاکہ وہ اسے اپنے ذاتی میوزیم میں رکھ سکے۔
اس دوران ارباب رحیم نے ایک ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ پیپلز پارٹی والوں نے اصل میں یہ منصوبہ بنایا تھا کہ انہیں شلوار سر پر بندھوا کر نچوایا جائے۔ وہ تو اللہ نے خیر کی۔۔۔
پچھلے کئی روز سے پاکستان میں ایک بار پھر جس طرح کا پگڑی اچھال ماحول بن گیا ہے اگر اس کا معقول مداوا نہ ہوا تو کئی ٹوپیاں، چشمے، پتلونیں، شلوار قمیضیں کلکٹرز آئٹم کے طور پر بازار میں آ سکتی ہیں۔
پگڑی سنبھال جٹا۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
پاکستان میں انتشار پھیلانے میں بی بی سی کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
وسعت بھائی
جس جوتے کی بولی چھ لاکھ لگی ہے اسی جوتے نے کراچی کو خون اور آگ کی نذر کر دیا ہے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق دس انسانی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور دو درجن کے قریب لوگ مضروب ہیں۔۔۔ ہم اسی طرح خوش فہمیوں میں مبتلا رہ کر دوسروں کو نیچا دکھانے کی دھن میں رہے تو وہ دن دور نہیںجب ہم خود بھی گڑھوں کا مقدر بن جائیں۔۔۔ آدمی انسان تب بنتا ہے جب وہ اپنے ماضی اور حال کو سامنے رکھ کر مستقبل کی طرف پیش قدمی کا ہنر سیکھ پائے۔۔۔ ارباب اور افگن نے کل جو بویا آج کاٹ رہے ہیں اور جو لوگ آج زہر کاشت کر رہے ہیںکل کاٹیں گے بھی۔۔۔
اتنی وضاحت سے تو آپ نے تاریخ بیان کردی ہے۔۔۔ اب اگر کوئی کور چشم رہے تو اس کا کیا کیا جا سکتا ہے۔۔۔۔
خاورچودھری
آداب! کراچي ميں ارباب پر جوتوں کي بارش اور لاہور ميں شير افگن پر تشدد، کراچی ہنگامے اس بات کا ثبوت ہیں کہ باشندوں کے خون میں انتہا پسندي، عدم برداشت، سرايت کر چکی ہے۔ ان واقعات کی جتنی بھی مذمت کی جائے اتنی ہي کم ہے۔ سوال يہ ہے جب کالا کوٹ خود ہی قانون کی دھجياں اڑا دے تو اس کے منہ سے نکلنے والي آئين قانون کی پاسداري کي باتیں کيا خاک وزن رکھیں گي! بطور سائکو ميں سمجھتا ہوں کہ ہر وہ کام، ہر وہ عمل جو انسانيت کی بھلائی کے لیے ہو وہ خود بخود قانون واخلاقيات کا حصہ بن جاتا ہے۔ اگرچہ اس کو قانون میں غيرقانونی سمجھا جاتا ہو۔
انسان جو کرتا ہے وہ بھرتا ہے
وسعت اللہ خان صاحب
بات چل نکلی تو بہت دور تلک جائے گی۔ آج کل کے جنرل ايوب اور جنرل مشّرف تک۔۔۔ شلواريں اور عينکيں اتريں تو صاف دامنوں کے وہ داغ نظر آئیں گے جو طالع آزما حکمران اور ان کے ايجنٹ چھپاتے رہے ہیں۔ مخدوم، چوہدری، نيازی اس حمام کے سب ننگے بےلباس ہوں گے تو شايد مظلومین اور متاثرين کو کچھ اطمنان حاصل ہو جائے۔ کل کے ہنگاموں ميں زندہ جلانے والوں کے چہروں سميت بہت سے چہرے ہیں جو ٹوپيوں، پگڑيوں نے چھپا رکھے ہیں۔ کاش خلق خدا ديکھ سکے جو میں بھی ہوں اور تو بھی ہے۔۔۔
دوا گو
آصف محمود
بڑے بھائی آپ ہمیشہ کام کی خبر سناتے ہیں اور ہماری جانکاری میں اضافہ کرتے ہیں۔ آج مجھے پتہ لگا کہ بھٹو کو سزا دینے والا قلم چوھدریوں کے پاس ہے۔
جہاں تک جوتوں کی بات ہے یہ اچھی روایت تو نہیں مگر لوگوں کو کون سمجھائے۔ بقول اعتزاز احسن ہر جگہ آگ لگی ہوئی ہے، بس چنگاری کی ضرورت ہے۔ ارباب صاحب کو اپنی شلوار تو یاد آگئی مگر اس جناب نے بی بی کے لیے جو کہا تھا تو اس وقت کتنے لوگوں کے جذبات مجروح ہوئے ہونگے۔ کاش اس وقت بھی ارباب صاحب اپنی غلطیوں کی معافی مانگ لیں۔ کل یو ٹیوب پر دیکھ رہا تھا کہ ارباب صاحب ایک صحافی کو تھپڑ مار رہے ہیں۔ کیا وہ انسان نہیں تھا؟ کیا اس کی عزت نفس نہیں تھی؟
وسعت بھائي! اس پيچيدہ صورتحال کی جانب قارئين اکرام کی توجہ مرکوز کروانے کا شکریہ۔ ساتھ ہی عرض ہے کہ اس کھيل میں عوام پس رہی ہے جبکہ ديگر لوگ مزے لوٹ رہے ہیں۔ يہ جو مار کٹائی ہو رہی ہے اس کے پيچھے کيا عوامل کارفرما ہیں يا ان سے کيا مقاصد حاصل کيے جا سکتے ہیں اتنی آسانی سے سمجھ آنے والی بات نہیں۔ انسان کی زبان بہت کچھ کرواتی ہے۔ اسی بات کا تلخ تجربہ آج کل کچھ لوگ کر رہے ہیں۔ عوام خاموش احتجاج تو کرتے ہی ہیں۔ اب برسرعام اپنے غيض وغصب، غم وغصے کا برملا اظہار کر رہے ہیں۔ عوام ايسے افراد سے ان کے کہے ہوئے الفاظ کی بنا پر ہتک آميز سلوک کر رہے ہیں۔
اپنے دور میں جنہوں نے اندھا راج بنائے رکھا، آج ان کے ساتھ یہ ہونا عجیب نہیں ہے۔
اپ پاکستان میں بھی مجرموں کو عوام سزا دے گی۔۔۔
انقلاب فرانس کی بات ہو تو آپ سب ’واہ واہ‘ کرتے ہیں، پاکستان میں کسی بڑے کو دو جوتے لگ گئے تو کيا مصيبت آگئی؟
بہت اچھے!
وسعت بھائی آداب عرض۔ ایک بار پھر آپ نے چائے کی مثال دے کر بہت گہری بات کی ہے۔ آپ کا مضمون بہت سے عقدے کھول رہا ہے۔ اللہ کرے کوئی اچھا فیصلہ کرنے میں یہ حکومت کامیاب ہو جائے، ورنہ گمان یہ ہے کہ انہیں سابقین سے زیادہ دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
خاورچودھری