مچھیانہ اور ناروے
مچھیانہ (پاکستان کے ضلع میں ایک گاؤں) میں حالیہ برسوں میں بہت کچھ اچھا اور برا ہوا ہے لیکن سب سے تکلیف دہ پیش رفت یہ ہے کہ اب وہاں کا پانی پینے کے قابل نہیں رہا بلکہ یوں کہیے کہ جراثیم زدہ ہو چکا ہے۔
گاؤں میں بتایا جاتا ہے کہ بہت سے لوگوں کو اس پانی کی وجہ سے جان لیوا بیماریاں لگ چکی
ہیں۔
اس بار مچھیانہ میں تین دن قیام کے دوران میں نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ وہاں کا پانی نہ پیوں۔ ناشتے میں چائے اور رات کے کھانے کے ساتھ دودھ استعمال کیا۔ دن کے وقت پانی پینے کے لیے میں اپنی پھوپھی کے گھر جاتا تھا جو باقاعدگی سے ہر روز صبح پانی ابال کر فریج میں رکھتی ہیں۔ یہ وہی مچھیانہ ہے جہاں گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے بعد لاہور واپس آ کر ہم کئی روز تک سب کو وہاں کے پانی کی خصوصیات بتاتے تھے۔
مہمانوں کو بوتل نہیں پیش کی جاتی تھی بلکہ با آوازِ بلند حکم دیا جاتاکہ ’اچھی طرح نلکا چلا کرپانی کا گلاس لے کر آو‘۔ نہر کے قریب ہونے کی وجہ سے ایک تو پانی ٹھنڈا بہت تھا اور ذائقے میں بھی اچھا تھا جس وجہ سے وہاں جا کر ہماری بھوک بڑھ جاتی تھی۔ کئی برس پرانی بات ہے کہ گجرات کی تحصیل کھاریاں میں گاؤں خُونن سے میری خالہ مچھیانہ آئیں اور واپسی پر پانی کا کولر بھر کر لے گئیں۔ اس بار اپنے گاؤں میں ایک سے زیادہ بار یہ قصہ سننے کو ملا۔
گاؤں میں گھر گھر فلش سسٹم لگنے کے بعد سب کچھ بدل گیا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب گاؤں میں گھروں میں نئے نئے لیٹرین بن رہے تھے تو ایک خاتون نے اعتراض کیا تھا کہ جس چار دیواری میں وہ کھانا بناتی ہیں وہاں فلش کیسے لگ سکتا ہے۔ لیکن ان کی ایک نہ سنی گئی۔ نکاس کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے فلش کا پانی زیرِ زمین پانی سے مل جاتا ہے اور اب ان نلکوں سے جن کے پانی سے مہک آتی تھی گاؤں والے بدبو کی شکایت کرتے ہیں۔ جب پہلی بار ناروے گیا تو وہاں پانی پی کر مجھے لگا کہ یہ ذائقہ بہت مانوس سا ہے۔ ذہن پر زور دیا تو کئی برس پہلے کا مچھیانہ سامنے آ گیا۔
تبصرےتبصرہ کریں
انیس سو اکیاون میں آبادی سوا تين کروڑ اب ساڑھے سولہ کروڑ۔ پانی کی مقدار تو بڑھے گی نہيں
میں امید کرتا ہوں کے ناروےآپ کےلیے محفوظ رہے گا کیونکہ مچھیانہ کے بعد اب مجھے ناروے کی فکرہے
اچھا بہت اچھا، بہت اچھی بات کہی آپ نے۔۔لیکن یہ تو سارے پاکستان کا مسئلہ ہے مائی ڈیئر۔۔کیا آپ ہمیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آپ ناروے میں رہتے ہیں۔
اسد بھائی آداب !
پچھلی حکومت نے اکثر علاقوں ميں ( اعلانات کی حد تک ) پانی کو صاف کرنے والے پلانٹ لگا لیے ہيں ايک شايد مچھيا نہ ميں بھی لگا ہو۔ نہيں لگا ہو تو يہ کام موجودہ حکومت ہی کر لے گي- اسد بھائی اسی پاکستان کے صوبہء سرحد کے جنوبی اضلاع ، بالخصوص کرک اور لکی مروت ميں اکيسويں صدی کے اس دور ميں آج بھی لوگ تالابوں اور جوہڑوں والے بارش کے پانی کو آب زم زم سمجھ کر استعمال کرتے ہيں - يہ وہی پانی ہوتا ہے جس ميں جا بجا گدھوں کے لدھ ، گائے کا گوبر اور بکريوں اور بھيڑوں کی مينگنياں منہ چڑھا رہی ہوتی ہيں - يہی وجہ ہے کہ آپ کو يہاں ايسی ايسی بيمارياں ديکھنے کو مليں گی جس کا شايد ميڈيکل کی لغت ميں آج تک نام بھی نہ ہو- اس لۓ مچھيانہ کے پانی کا ہی کيا رونا ؟ کم سے کم يہ بادلوں کا تو نہيں محتاج
خير انديش
وزيراسلم خٹک - ابوظہبی ، يو اے ای
اسد صاحب!يہ الميہ سارے پاکستانيوں کا سانجھا ہے کہ ہميں پينے کا صاف پانی بھی ميسر نہيںـ حالات بہت سنگين ہيں مگر منرل واٹر پينے والے کيا جانيں اور نہ ہی انکو فرصت کے لمحات ميسر ہيں کہ وہ انسانوں کے لئيے مضر صحت فراہمی و نکاسی آب پر توجہ ديں۔ ويسے يہاں کاناروے سے کيا موازنہ وہاں تو جانوروں کے پينے کے پانی پر بھی توجہ دی جاتی ہے اور پبلک ہيلتھ کا محکمہ اپنے ضمير کی آواز کے تحت کام کرتا ہے جبکہ يہاں وہ حاضرياں لگا کر محض ماہانہ تنخواہيں ليکر پرائيويٹ کام کرکے کمائی کی فکر لگی رہتی ہے۔
” ہے دل کيلۓ موت مشينوں کی حکومت
احساسِ مروت کو کچل ديتے ہيں آلات”
چوہدري صاحب، بات يہ ہے کہ ملک ميں نہ صرف صاف پانی کی بتدريج ناپيدگی بلکہ تمام برائيوں کی جڑ صرف اور صرف سرمايہ دار ہے- ايک زرعی زمين پر صنعتوں کا جال بچھانا سوٹ کرتا ہي نہيں ہے- اس سرمايہ دار نے ديہاتوں کا بيڑہ غرق کرکے رکھ ديا ہے، سارا حُسن خاک ميں ملا ديا ہے- ميں نے اپنا بچپن لائلپور ميں سرگودھا روڈ سے بيس کلوميٹر فاصلے پر واقع اپنے پِنڈ ميں گزارا تھا- پرسکون ماحول ہوتا تھا، ٹائلٹ کھيتوں ميں ہوتے تھے جسکا ڈبل فائدہ کہ اسطرح کھيتوں کو روڑی بھی مل جاتی تھي- نہانے کيلۓ نہر، کھالہ يا پھر مسجد سے ملحقہ کھوہ استعمال کيۓ جاتے تھے اور سب سے دلچسپ بات کہ نہانے والے کو کھوہ ميں سے پانی خود نکالنا ہوتا تھا- کھيتوں ميں بجائے کيميکلز سے بني کھاد کے رُوڑی ڈالی جاتی تھی جسکے نتيجہ ميں اجناس غذائيت سے بھرپور ہوتی تھيں اور لوگوں کی صحت بہت خالص ہوتی تھي- المختصر، مسائل نفسياتی ہوں، صحت کے ہوں، اخلاقی ہوں، روحانی ہوں يا معاشرتی ہوں، ان سب کا سبب سرمايہ دار ہے- صنعتی دور نے انسان کو جہاں مشين بنا کے رکھ ديا ہے وہيں پر انسانيت کو بری طرح متاثر کيا ہے، سماجی ڈھانچے بدل ديۓ ہيں- اگرچہ مشينوں کی ايجاد واستعمال نے مادی ترقی خوب کرلی ہے مگر انسان کو بے حس بھی بنا ديا ہے، اس کے دل ميں اب وہ سوز، وہ محبت، وہ دل گدازي، وہ درد نہيں رہا جو ميرے بچپن کے زمانہ ميں ہوتا تھا۔ سرمايہ دار سے چھٹکارا ہی ان سب مسائل کا حل ہے اور اسکے ليۓ صرف انقلاب درکار ہے جو کہ بہت قريب ہے-
اسد صاحب!يہ الميہ سارے پاکستانيوں کا سانجھا ہے کہ ہميں پينے کا صاف پانی بھی ميسر نہيںـ حالات بہت سنگين ہيں مگر منرل واٹر پينے والے کيا جانيں اور نہ ہی انکو فرصت کے لمحات ميسر ہيں کہ وہ انسانوں کے لئيے مضر صحت فراہمی و نکاسی آب پر توجہ ديں۔ ويسے يہاں کاناروے سے کيا موازنہ وہاں تو جانوروں کے پينے کے پانی پر بھی توجہ دی جاتی ہے اور پبلک ہيلتھ کا محکمہ اپنے ضمير کی آواز کے تحت کام کرتا ہے جبکہ يہاں وہ حاضرياں لگا کر محض ماہانہ تنخواہيں ليکر پرائيويٹ کام کرکے کمائی کی فکر لگی رہتی ہے۔
جناب اسد چوھدری صاحب
آپ کے اس بلاگ کا عنوان ’مچھيانے کا مچھيرا ناروے ميں‘ ہونا چاھيے تھا -ناروے کے عوام پر اتنا برا وقت آگيا ہے کہ ان کے ملک ميں مچھيانے کا مچھيرا کھلے عام پھر رہا ہے -
ريحان ساجد
آپ کو ياد تو ہوگا کہ آپ کی ايک خالہ مچھيانہ سے ايک کولر پانی کا بھر کر لے گئی تھيں ، اب آپ کو اوسلو کے پانی ميں مچھيانہ کے پانی کی خوشبو آئی ہے تو آپ آتے ہوئے کولر بھر پانی لانا نہ بھولۓ گا -ہاں يہ تو آپ نے لکھا ہی نہيں کہ اوسلو ميں فلش سٹم ہے يا نہيں ؟،سيدھا سادہ سيوريج کی خرابی کا مسئلہ ہے جسے آپ سيوريج کے ذمہ داروں کے پاس لے جانے کے بجا اوسلو لے گۓ -مجھے يقين ہے کہ اوسلو کے سيوريج واٹر ميں بھی آپ مچھيانہ ميں حاليہ دستياب پانی کا مزا پائينگے------
اسد علی چودھری صاحب
خدا آپکو تندرست و صحت مند رکھے - مجھے بھی بچپن ياد کرديا جب راہٹ کا بہتا پانی کھال سے پی ليا کرتے تھے ،يرکان نام کی علامت بچوں کو پيدائش کے وقت دنيا ميں آنے پر ہوتی تھی جو چند روز سورج کی روشنی ماؤں يا نانيؤں داديؤں کے دوپٹے سے فلٹر کرکے دينے سے ہی ٹھيک ہو جاتی تھي- پبلک ہيلتھ انجينيئرنگ کا محکمہ پانی کی ٹينکی سے فلٹر شدہ پانی سپلائی کرتا تھا جو گھروں سکولوں اور بازاروں ميں بلا خطر پيا جاتا تھا- بد قسمتی سے جب سے منرل واٹر آيا يا تو ٹينکياں توڑ دی گيئں يا ڈائيريکٹ پمپنگ کرکے غير فلٹر شدہ پانی سپلائی کيا جانے لگا- دوسری طرف فلش سسٹم نے دوسرے سارے سسٹم پسِ پشت ڈال دئيے۔ کنووں ميں فلش کا سيور ملا ديا گيا ۔ حکومتوں نے توجہ دی اور ذمہ داری لي- ايجينسيوں نے سياست ميں بھی پانی والا حال کيا- گھر گھر ہيپاٹائٹس ، ٹی بی اور متعدی امراض پھيل گۓ ہيں جہاں ہماری نسليں غير محفوظ ہو گئيں ہيں-
بحر حال ايک اہم مسلہ اٹھانے پر شکريہ
ڈیئر اسد، آپ کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں، اپنے خاندان کاتعارف کروا رہے ہیں یا یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آپ ناروے میں رہتے ہیں۔ جوب آپ پاکستان آئیں تو یہاں کے کلچر کے مطابق سوچ اپنائیں ناروے کے کلچر کے مطابق نہیں جہاں حالات مختلف ہیں۔سمجھے۔
اسلام علیکم
بھائی پو رے پا کستان کا مسئلہ ہے
حضرت جب ملک کے اعلی ايوان ترقياتی کاموں کو بھول کر مچھلی منڈی ميں تبديل رہيں تو پاکستان کے ہر مچھيانے کے پانی تو بد بو ماريں گے ہی۔ شاید کہ يہ بدبو واپس اعلیٰ ايونوں تک بھی پہنچے
اسد چوھدری صاحب -
بعد از سلام عرض يہ ہے کہ اوپر والے نے بندے کی آنکھ کراچی ميں کھلوائی لہذٰا سارا بچپن لڑکپن ان جھيلوں کا پاني گھرکی ٹونٹيوں کے ذريعہ پيتے جھيلا جن کے بارے ميں لوگوں سے سنتےيا اخبار ميں پڑھتے تھےکہ ان ميں گدھے يا خارش زدہ کتے پڑے رہتے ھيں- ہاں البتہ کبھي اس بچپن کے دورميں ملک کےدوسرے حصوں ميں جاناھوا تو وھاں’نلکاگيڑنے‘ کی اصطلاح سنی اور خود بھی ’گيڑ‘ کرپينےکا لطف اٹھايا- اسکے بعد کرنا کچھ ايسا ھوا کہ اوپر والے نے آپکي طرح بيرون ملک پہنچا ديا- اور اب تو نہ جانےاس پاني ميں کياکياپاياجاتاہے کہ منرل واٹرکا نام جو کہ بيرون ملک ہی پہلی بار سناتھا اب جوجاناھوتاھےتوگلی گلی محلے محلے نہ صرف سنا بلکہ حسب استعطاعت لوگوں کو استعمال کرتے بھی ديکھا - گھر والوں کی اس تاکيد کے باوجود کے تم اگراپنے پاکستان قيام کےدوران صحت وسلامتي چاھتے ھو توگھر سےباہرجاتے وقت ہر دم ہاتھ ميں منرل واٹر کی بوتل رکھنا ميں اس ’شو‘ مارنے سے شرماتا رہا ليکن اب جو دوستوں ياروں ، عزيزوں کے پاس جانا ھوا ہر کسي کويہي استعمال کرتے پاکرجہاں اطمينان ھوا کہ اب شرمانےکي ضرورت نہيں وہيں دکھ بھی ھوا کےاس ديس کے بہت سے باسيوں کو ابتک صاف بغير جراثيم تو ايک طرف پانی بھی بمشکل دستياب ھے- ہاں البتہ يہاں کچھ تبصرے پڑھ کر يہ احساس ھوا کہ اس ناں صاف پانی نے بہت سے لہجوں ميں زہرضرورگھول ديا ھے - آپ کا بلاگ پڑھ کر نجانے کيوں بچپن کا پڑھاعبدالحليم شرر کی ’صحبت برہم‘ اور بي بی سی اردو کی حبیب کا ’آگرہ بازار‘ کی رپورٹنگ آنکھوں کے سامنے پھر گئی -
فقط خيرانديش ---
وحيد
اسد صاحب کا بلاگ اور اوپر تبصرہ نگاروں کی رائے پڑھ کر پتہ چلا کہ ادھر تبصرہ کرنے والے تو سارے بڈھے بيٹھے ہوئے ہيں ہر ايک کو صدی نصف صدی پرانا اپنا بچپن ياد آ گيا۔ ہمارے بچپن سے ليکر تو ابتک اتنی ہی ترقی ہوئی ہے کہ فلٹر سے منرل پر آ گئے ، ہاں آپ سب کی طرح بڈھی عمر ميں پہنچ کر شايد ہم بھی منرل کا مقابلہ نجانے کس ايڈوانس واٹر سے کر کے دونوں ميں سے کسی ايک کو کوس رہے ہو گے
اسد بھائی
السلام عليکم
بہت دنوں بعد آپ کا بلاگ ديکھا کافی مسرت ہوئی۔
عجيب اتفاق کہ گذ شتہ چند دنوں سے آندھرا پرديش کی گذشتہ حکومت کی جانب سے چلائی جانے والی اسکيم ّّّ نيرو ميرو ” کے سلسلے ميں مختلف دیہات کی خاک چھان رہا تھا ” نيرو ميرو ” ايک تلگو ورڈ ہے اور اسکے معنی ”آب اور آپ ”نکلتے ہيں -يہ ايک نعرہ ہے جو پچھلی حکومت نے عوام تک صاف پانی پہنچانے کے مقصد کے تحت لگايا تھا اور اس سلسلے ميں باضابطہ ايک اسکيم شروع کی گئی تھی جس کے تحت جوہڑوں کی صفائی بور ويلوں کی کھدائی اور نہروں کے کنارے پمپنگ اسٹیشنوں کی تعمير شامل ہے حيرت ناک پہلو تو يہ ہے کہ حکومت نے نہايت سنجيدگی کے ساتھ اس پر عمل درآمد کيا ہے مگر اس کے باوجود ايسے گاؤں جو خشکی کے زمرے ميں آتے ہيں وہاں کی صورتحال انيس سو سينتاليس والی ہی نظر آتی ہے اور حالات بالکل ويسے ہی ہيس جيسا کہ مياں جی وحيد صاحب اور نجيب صاحب نے فرمايا ہے _ اب رہی بات حيدرآباد کی تو اللہ کا شکر ہے کہ آج بھی يہاں ہاتھ ميں منرل واٹر کی بوتل پکڑنا فيشن ہی متصور ہوتا ہے اس کی بڑی وجہ نظام حيدرآباد کا آبی ذخيروں پر خاص توجہ دينا ہے آج حيدرآباد کی ايک کڑور والی آبادی کو اگر صاف پانی ميسر ہے تو مير عثمان علی خان کی دور انديشی اور خير انديشی ہی کا نتيجہ ہے ورنہ تو ملک کی راجدھانی ميں بھي بارہ ملين لوگ پانی خريد ہی کر پيتے ہيں اور پھر يوپی کے گاؤں کی بد حالی اگر آپ نے ”سوديس ”ديکھی ہو تو بالکل عکاسی نظر آئے گی
ايک عرصے بعد آپ کا اور نعيمہ جی کا بلاگ ديکھا تو خوشگوار احساس ہوا ہے اميد کہ آپ اسی طرح گاہے گاہے رونق افروز ہوتےرہينگے_
خير انديش سجادالحسنين حيدرآباد دکن
پانی گندہ کرنےميں کسی خلائی مخلوق کانہيں بلکہ خودگاؤں والوں کاقصورہے۔باتھرومزبنانےکی خوشی ميں صاف پانی تباہ کردياگيا۔ان نيک چارديواری والی آنٹی کےعلاوہ کوئی عقلمندنہيں تھاپورےگاؤں ميں؟ ميری صحت کا راز ہی نلکےکاپانی ہےجبکہ ميں خودپانی ابال کررکھتی ہوں گھرکيلۓمجھےتوآج تک کچھ نہيں ہوابلکہ ايک دفعہ تونلکےکاپانی پی کرميں نےفورابتادياتھاکہ پانی ميں بليچ ،فنائل مکس ہے۔فضول خرچی ميں کوئی`ہم ساہوتوسامنےآۓ`ليکن منرل واٹرخريدناميں پيسےضائع کرنا سمجھتی ہوںـ اگرگندہ پانی آتاہےنلکوں سےتوابال کرپيئں مچياں والےآخر ليٹرينزبنانےکی سزاتوملے ناکوئی اورناروےکےپانی کوصاف رکھنےکی ذمہ داری آپکی ہوئی اور پاکستان ميں پانی کی کمی نہيں بلکہ پانی چور بھی اورگندہ کرنےوالےبھی ہم لوگ خود ہيں
اسد صاحب مزاج بخير ،بہت عرصے بعد آنا ہُوا ليکن ہميشہ کی طرح وہی وطن کی باتوں ميں ناروے کا تڑکا جو اچھا لگتا ہے ليکن ديکھ ليں اب مچھيانہ ہو يا ناروے بات ايک ہی ہو گئی۔ ہاں پانی اُبالنے پر بھی بے چارے کُچھ جراثيم سخت جان ہونے کے وجہ سے جان نہيں چھوڑتے ليکن اس وقت تو مُجھے يہ خيال ہے کہ بھيجنے پر يہ آرا جائے گی بھی يا نہيں۔ کُچھ روشنی ڈاليں کہ يہ مسئلہ کيا ميری طرف ہی ہے يا سب کے ساتھ ايسا ہے
خيرانديش
شاہدہ اکرم
بلاگ میں پہلی مرتبہ شرکت کر رہا ہوں۔ سب کی خدمت ميں سلام عرض کرتا ہوں۔
اسد چوہدری نے ايک سنگين مسئلہ کی طرف توجہ دلائی ہے۔ پورے وطن عزيز میں جہاں سيوريج کا نظام نہیں ہے۔ جانتے ہوئے يا
انجان بن کر فلش سِسٹم کو زير زمين پانی سے جوڑ کر آلودہ کر ديا ہے۔ اسی وجہ سے بےشمار جان ليوا بيماريوں نے جنم ليا ہے۔ خدا کے واسطے اس مسئلے کی سنگينی کو سمجھیں اور زير زمين بيت الخلا بنانے بند کر ديں۔ چوہدری اسد کو ايک انتہائی اہم مسئلے کي طرف توجہ دلانے پر ان کو سلا م عرض کرتا ہوں۔
احسن
اسد صاحب: يہ پاکستاں کا ہي مسئلہ نہیں بلکہ يہ ہر ملک کےديہات کا مسئلہ ہے۔ آپ دنيا کے کسی ديہات ميں چلے جائیں جہاں غريبی نے ڈيرے بسائے ہيں وہاں لوگ ايسے ہی زندگی گزار رہے ہيں۔ اللہ ہمارے ملک کے ليڈروں کو نيک ہدايت دے۔ آمين۔۔۔ اور اللہ ہمارے ملک کو ہميشہ سلامت رکھے۔ آمين۔ اللہ آپ سب کو خوش رکھے۔ آمين۔
خير انديش
ملک امتياز اعوان جاپان