مسٹر مشرف کی تنہائي
پاکستان کے سابق جنرل لیکن فوجی حکمران پرویز مشرف نے حال ہی میں جیو نیوز پر اپنے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ گزشتہ آٹھ، نو مہینوں میں وہ خود کو جتنا تنہا محسوس کر رہے ہیں اتنا وہ زندگي میں کبھی تنہا نہیں ہوئے۔
جنرل کے تنہا ہونے پر آپ کو ان سے ہمدردی ہونی چاہیے! بےچارے فوجی ڈکٹیٹر! ان کی تنہائی یہی ہے کہ ادھر سے ان کے جسم سے وردی الگ ہوئی اور وہ تنہا ہونے لگے۔ مسٹر مشرف تو جب جنرل مشرف تھے وہ وردی کو اپنی کھال سمجھتے تھے۔ کھال اتر چکی ہے۔ جنرل صاحب!
جنرل صاحب! آٹھ سال تک جو کھال قوم کی اتاری وہ ایدھی کو دیں گے کہ خدمت خلق کمیٹی کو!
گزشتہ آٹھ سالوں سے پاکستان اور اس کے لوگوں کو قید تنہائي میں رکھنے والا جنرل خود تنہا ہوگیا ہے۔
جنریلوں کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ جس دن سے وہ اپنی ٹرپل ون برگيڈ کے کندھوں پر بندوق رکھ کر ملکی ٹیلی ویژن سٹیشن اور وزیر اعظم ہاؤس کے آہنی پھاٹک کسی لینڈ مافیا کی طرح لانگ بوٹوں سے پھلانگتے ہوئے منتخب حکومتوں کا دھڑن تختہ کر دیتے ہیں، اس دن سے ملک کی دنیا میں تنہائي شروع ہو جاتی ہے۔ پورے سولہ کروڑ عوام کو ان کے ججوں اور لیڈروں کے بمعہ ان کےگھو والوں کو قید تنہائي میں رکھنے والا جنرل آخر کار خود بھی تنہا ہوگیا ہے۔
پاکستان دنیا کے نقشے پر ایک تاریک اور تنہا جزیرے کی طرح ہے، جہاں صرف فوجی جنریلوں نے اپنے موج میلے مچائے ہوئے ہوتے ہیں۔
پرویز مشرف جنرل سے مسٹر مشرف بن گئے ہیں۔ مسٹر مشرف کی تنہائي کا ایک ہی علاج ہے کہ وہ اب اس قوم کو تنہا چھوڑ دیں۔ یعنی کہ ’لیو اٹ الون‘! اس کے لیے انہیں ہمایوں گوہر کی بھی ضرورت نہیں۔ بس ایوب خان کی آخری تقریر کو ری سائیکل کر لیں۔
کبھی الوداع نہ کہنا!
تبصرےتبصرہ کریں
پيارے حسن صاحب، آپ کے اس بلاگ بارے خاکسار صرف يہی کہنے میں حق بجانب ہے کہ:
’تمہاری آنکھ ميں کيفيتِ خمار تو ہے
شراب کا نہ سہی نيند کا اثر ہی سہي‘
میں آپ کے بلاگ باقاعدگی سے پڑھتا ہوں۔ ’کیپ اِٹ اپ‘ اور شکریہ!
بہترين!!!!!
اجنبی شہر کے اجنبی راستے میری تنہائی پر مسکراتے رہےــــــــــــ
جب اپنی قوم، اپنے پيارے وطن کی بجائے صرف غير ملکی آقاؤں کا ہی حکم مانو گے تو ايسے ہی ہوگا۔ ابھی تو بےگناہ مسلمانوں کے خون کا حساب بھی دينا ہے جناب۔۔۔