جہاد کے ٹیکے
بینظیر بھٹو نےگزشتہ سولہ اکتوبر کو ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کو ایک خط میں تین نام دیئے تھے جن سے بقول انکے انکی زندگی کو خطرہ لاحق تھا لیکن ظاہر ہے ان تینوں ناموں سے تفتیش کرنا اسکاٹ لینڈ یارڈ کے ’ٹرمس آف ریفرنس‘ میں شامل نہیں تھا۔
بیت اللہ محسود سے تفتیش تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا جس سے اب پاکستان کی جری و بہادر حکومت اور فوج مک مکا کر رہی ہے۔ بیت اللہ محسود اور ان جیسوں سے پاکستان کی فوج چور سپاہی کا کھیل کھیلتی آرہی ہے۔
اسکاٹ لینڈ یارڈ کی رپورٹ آنے کے بعد تو اب پاکستان کے عوام کو یہ نعرہ لگانا چاہیے ’یااللہ، یا رسول، پرویز مشرف بےقصور‘۔ اگر لوگ ان کے زیادہ خلاف ہوجائيں اور ان کی معصومیت پر انگلی اٹھانے لگيں تو پھر وہ، بقول شخصے ’پرویز مشرف بھٹو‘ کہلانا شروع کردیں۔
ویسے بھی جائے واردات کو منٹوں کے اندر دھو ڈالنا اور پوسٹ مارٹم نہ کروانے کے مجرمانہ ہونے میں کوئی زیادہ فرق نہیں۔ جائے واردات اور پوسٹ مارٹم کی غیر موجودگی میں بینظیر بھٹو دنیا میں واحد مقتولہ ہیں جو بم دھماکے کی شدت سے ہی مر گئيں۔ جیسے عالمی جنگ میں شہر پر بمباری کے دوران لائبریری میں کتاب دیکھنے والی لڑکی شیلف سے اڑنے والی کتابیں لگنے سے مارجاتی ہے۔ ان کے قتل میں ستعمال ہونے والی بندوق بھی اتنی ہی پر اسرارلگتی ہے جتنا بندوقبار جو انکی گاڑي کے ایک سے دو میٹر سے تک کے فاصلے پر تھا۔
ریٹائرڈ جنرل مشرف ایک امریکی صحافی کو بتا رہے تھے ’پاکستتان کا کوئی بھی جاسوسی ادارہ ایسا نہیں جو کسی شخص کے دماغ میں خود کو دھماکے سے اڑادینے کی بات داخل کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ لیکن ہم نے تو بچپن میں درسی کتابوں میں پڑھا تھا کہ پینسٹھ کی جنگ میں میجر عزیز بھٹی جیسے افسر چھمب جوڑیاں یا کھیم کرن کے محاذوں پر خود کو بم باندھ کر بھارتی ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تھے۔ یہ بھی تو ایک قسم کے خودکش بمبار ہی تھے نہ! نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر اور مراکش سے پشاور تک دنیا بھر کے مذہبی جنونیوں کے میٹر دماغ میں جہاد کے ٹیکے تو براستہ آبپارہ ہی لگے تھے نہ!
تبصرےتبصرہ کریں
حسن بھائی، مجھے يہ بات سمجھ ميں نہيں آرہی کہ آپ کی اس عبارت کی تعريف کيسے کروں۔ يہ کہوں کہ يہ ميرے خیالات کی ترجمانی ہے يا يہ کہوں کہ يہ عبارت انجانے ميں ميں نے ہی لکھ ڈالی ہے۔ بہرحال حقيقت کو جتنا بھی لگی لپٹی کے بغير لکھيں تحرير پہ اتنا ہی حسن آتا ہے۔ ميری طرف سے نيک دعائيں آپ کے ليے۔
ان جہاديوں کو پکڑ پکڑ کر آبپارہ فلاحی مرکز لے جائيں اور جہاد کے ٹيکوں کا اثر زائل کرنے کے ليے نس بندی کے ٹيکے لگائيں تاکہ جہاں سے يہ سلسلہ شروع ہوا تھا اسی جگہ ختم ہو جائے۔
ہرشاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستاں خدا جانے!
يہ جو کچھ ہورہا ہے وہ انہی ٹيکوں کی وجہ سے ہے بلکہ اب تو بعض لوگ پوچھ رہے ہيں کہ ’ہن آرام اے؟‘ جو بويا تھا اب کاٹ رہے ہيں ليکن بہت بھاری قيمت چکا رہے ہيں۔ افسوس کی بات تو يہ ہے کہ يہ سلسلہ رکا نہيں تھما نہيں۔ يہ ابھی کچھ دنوں کی بات ہے کہ ايک ’غازی و پراسرار بندہ‘ ايک پرائيويٹ ٹی وی چينل پر انٹرويو ديتے ہوئے اپنی فخريہ پيشکش کا ذکر کررہا تھا کہ ہاں ميں نے لاکھوں مجاہد جہادی تيار کيے۔
ہور چوپو!!
یااللہ یارسول، حسن مجتبیٰ بےقصور۔ جناب آپ ہی کے الفاظ سے تانا بانا بنتا ہوں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں یہ غازی یہ تیرے پراسرار بندے اور ان کی بندوق سے چلنے والی گولیاں بھی سلیمانی ٹوپی پہنے ہوتی ہیں۔
حسن بھائی، معاملہ کچھ يوں ہی ہے۔ 65 کی جنگ ميں بات ہر ایک کی زبان پر تھی کہ ہمارے جوان پيٹوں پر بم باندھ کر بھارتی ٹينکوں کے آگے ليٹ گئے۔ ليٹے تو شايد ڈھاکہ ميں بھی تھے مگر جنرل مانک شاہ کے سامنے مگر ھتيار ڈال کر۔ شايد انہی افغان جہاد کے تربیت یافتہ کمبل پيچھا نہيں چھوڑ رہے۔
حسن بھائی، قتل کرنے والے عوامی قيادت اور سياسی ماحول کو قتل کر رہے ہيں۔ سکاٹ لينڈ يارڈ تو ہماری پوليس سے بھی آگے نکل گيا۔ حکمران سمجھ دار ہوں تو ڈھاکہ اور کارگل کی تفتيش کرا کے بےگناہی کی اسناد حاصل کر ليں کيا پتہ خدا بھی دھوکہ کھا جائے:-
جو چپ رہے گی زبان خنجر
لہو پکارے گا آستيں گا
شايد کسی شريک مجرم کا ضمير جاگ جائے
جنرل مشرف تجھ سے بيزار بيشمار بيشمار
تيرے جھانسے سب بيکار و بيشمار
مرض کا علاج کرنے کی بجائے ٹيکے ہی لگائے جائيں تو يہی ہوگا:
وہ معزز تھے زمانے ميں مسلمان ہوکر
تم مگر خوار ہو تارک قرآں ہو کر
ہم نے اسلام ٹھيکے پہ دے رکھا ہے۔ نظام تعليم طبقاتی بنا رکھا ہے۔ پھر اب جو کچھ ہو رہا ہے وہی بويا تھا تو آسمان سر پر کيوں اٹھا رکھاہے؟
حسن، ان لوگوں کو اب آبِ زم زم سے غسل دلانے سے بھی یہ پاک نہیں ہوں گے۔
اصل میں ہم لوگوں کو نہ ماننے کی بیماری ہوگئی ہے۔ اب ہم سکاٹ لینڈ یارڈ کی رپورٹ بھی نہیں مان رہے۔ ابھی جو پاکستانی کہہ رہے ہیں کہ رپورٹ جھوٹ ہے انہیں اگر کہو کہ انگلستان کا ویزا فری ہے تو یہی سب سے پہلے لائن میں لگے ہوں گے۔
پاکستان دنیا کا اکلوتا ملک ہے جہاں بڑے بڑے مجرم اپنے جرائم کا فخریہ اعتراف کرتے ہیں اور انہیں کوئی نہیں پکڑتا۔ امریکہ آج دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف واویلہ مچا رہا ہے مگر کون نہیں جانتا کہ گزرے ہوئے کل میں روس کے خلاف دنیا بھر کے معصوم نوجوان مسلمانوں کو جہاد کے ٹیکے کس نے لگائے تھے؟
حسن صاحب، ديکھيۓ جو کُُچھ دکھائے يہ زمانہ کہ نا جانے ابھی اور کيا کُچھ ديکھنا باقی ہے۔ کتنی مضحکہ خيز بات ہے کہ سکاٹ لينڈ يارڈ کی ٹيم کو بھی ہم بيوقُوف بنانے يا سمجھنے کا يارا رکھتے ہيں حالانکہ نا ہی اب عوام اتنی بھولی رہی ہے اور نا ہی دُنيا والے۔ خیر يہ بات تو بہت پہلے ہی اظہر من الشمس تھی کہ سکاٹ لينڈ يارڈ کی ٹيم بھی وہی رپورٹ دے گی جو ہماری حکُومت چاہے گی۔ کيا ہُوا اگر سرکار کا تھوڑا خرچہ ہو گيا۔ اپنے وطن ميں مال بہت ہے، سو گل ہی کوئی نئيں۔ خير انديش
مجھے افسوس اس بات پر ہے کہ مسلمانوں کو جہاد کا اصل مطلب ہی معلوم نہيں کيوں کہ یہ رسول اکرم کے اسوہ پر عمل پيرا نہيں۔ جہاد لوگوں کو محکوم بنانے کا نام نہيں اور نہ ہی اسلام ڈنڈے کے زور سے پھيلتا ہے۔ اسلام تو امن و محبت کا نام ہے۔ ہمارے نبی نے جب بھی کافروں سے جہاد کيا، پہل ہميشہ کافروں کی جانب سے ہوئی۔ آپ نے دفاع ميں جہاد کيا۔ کاش مسلمان سيرت نبی پر عمل پيرا ہوتا اور دنيا و آخرت دونوں ميں سرخرو ہوتا۔
بينظير کے قتل کے وقت ان کے ساتھ موجودہ افراد نے کيوں خاموشی اختيار کی ہوئی ہے؟ کيا وجہ ہے کہ پی پی تحقيقات ميں رکاؤٹ کھڑی کررہی ہے؟ اقوام متحدہ جيسا ادارہ جس سے کوئی کام ٹھيک سے نہيں ہوتا، اسی سے تحقيقات کا مطالبہ کيوں؟ ان اصل سوالات کا جواب آپ کے کالم کيوں نہيں ملتا ہے؟ يا يہ باتيں اس کالم کے ’ٹرمس آف ریفرنس‘ ميں شامل نہيں۔
اب سب مل کر لکير پيٹ رہے ہيں۔ پہلے ان جيالوں کو کسی نے يہ شنيد نہ دی کہ اس عمل کو پلٹنا بھی ہوگا کيوں کہ ملکی معاملات اور بھوکے پيٹ محض اس عمل سے بھرے نہيں جاسکتے تھے۔
ھميں تو خوش ہونا چاہيے کہ ہماری نوکر شاہی نے شرلاک ھومز کے ورثاء کو بھی الو بنا ديا۔