’آدمی کے ہاتھ یا خدا کے؟‘
یہ نیویارک میں سال کی میں پہلی برفباری تھی اور اندر ہال میں استاد تاری خان طبلے پر تھے۔
میں کئي لوگوں کے ساتھ اس کے ہاتھوں کو دم بخود دیکھتا ہی رہ گيا۔ میں نے سوچا ’کیا یہ آدمی کے ہاتھ ہیں کہ خدا کے جو اتنی شکتی اور نغمگی سے طبلے کی جوڑی پر چل رہے تھے‘۔
میں نے کئي لکھاریوں اور مصوروں کے ہاتھ اور ان کے ہاتھوں کے کرشمے تو دیکھے تھے لیکن اس طبلے نواز کے ہاتھ میں کوئي اور قسم کا جادو تھا جس میں دیکھا کہ اس کو سننے اور دیکھنے والے لوگ ہال میں اپنی سیٹوں پر ہوتے ہوئے بھی وہاں موجود نہیں تھے۔ غائب ہو گئے تھے۔ دور دور نکل گئے تھے۔
میں خود کہاں سے کہاں نکل گیا۔ حیدرآباد کی ایک ایسی گلی میں جہاں مجھے طبلہ نواز دو بھائي طالب حسن اور منور حسین یاد آئے، جنہوں نے عابدہ پروین کی سنگت میں طبلے بجائے تھے۔
’ہمی ہے عشق مستانہ ہمی کو ہوشیاری کیا!‘
دونوں بھائی کیا ہوئے۔۔ کمال کے طبلہ نواز تھے۔ طالب حسین اور منور دونوں جوانی میں مر گئے۔ ’ہم نے چاہا تھا بہت دل نہ ٹھہرنا چاہا‘۔۔۔
طبلہ نواز تاری خان طبلہ بجا رہے تھے اور ٹائي سوٹوں اور رنگین پگڑيوں میں ملبوس ان کے میزبان ہر عمر کے سکھ مرد اور اور عورتیں۔۔۔’ہاں جی۔‘
میرے جیسے ہمیشہ راہ بھولے نے ایک سردار جی سے مینہیٹن میں تھیٹر کا راستہ پوچھا اور جب وہ مجھے راستہ بتا رہے تھے تو سڑک پر سے گزرتی کار سے ایک گورے نے ان پر آواز کسی ’اسامہ!‘
بر صغیر کی تاریخ میں سکھ سب سے پہلی ’کیزولٹی‘ ہیں۔
تاری خان کا طبلہ بج رہا ہے اور ستنام سنگھ سنتور پر ان کے ساتھ سنگت میں ہیں۔ اب ان کے بیچ سنتور اور طبلے کی زبان میں مکالمہ اور مقابلہ شروع ہوچکا تھا۔