پاکستان کتنا محفوظ؟
میری ایک برطانوی دوست آجکل ہندوستان میں ہے اور واپسی سے پہلے لاہور جانے کی خواہش بھی رکھتی ہے۔ اس کا جب بھی مجھ سے رابطہ ہوتا ہے وہ پاکستان جانے یا نہ جانے کے بارے میں
مشورہ چاہتی ہے۔
میری دوست کئی بار ہندوستان جا چکی ہے اور ہر بار لاہور جانے کی خواہش دِل میں لیے واپس آ جاتی ہے۔ اسے ویزہ ملنے میں کوئی رکاوٹ نہیں اور اس بار اس کے پاس لاہور کی ایک یونیورسٹی کے کسی پروگرام میں شرکت کا دعوت نامہ بھی ہے لیکن وہاں کے حالات کی وجہ سے فیصلہ نہیں کر پا رہی۔
میں بھی اسے زیادہ پر اعتماد طریقے سے لاہور کے بارے میں تسلی نہیں دے سکا۔ اس کا کہنا ہے لاہور میں اس کا کوئی دوست ہو تو ہمت کر سکتی ہے ورنہ وہ اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کرے گی۔
دو سال قبل جب اس نے پہلی بار پوچھا تھا تو ابتدائی طور پر میں نے بِلا جھجک کہہ دیا تھا کہ لاہور میں اسے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ پھر مجھے لاہور میں غیر ملکی خواتین کے ساتھ پیش آنے والا ایک واقعہ یاد آیا تو تھوڑی بہت اگر مگر کی لیکن اسے بتایا کہ اتنا تو دنیا کے کسی ملک میں بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن مجھے لاہور سے نکلے ہوئے چھ سال ہو چکے ہیں اور اب حالات کو دور سے دیکھ کر میں اعتماد سے کسی مغربی نوجوان خاتون کو اکیلے لاہور جانے کا مشورہ دینے سے ہچکچا رہا ہوں۔ پاکستان کے بارے میں میرا ہمیشہ یہی موقف ہوتا ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ سے اس کا غلط تاثر ملتا ہے، وہاں کے لوگ بالکل مختلف ہیں لیکن پھر بھی اس بار کسی کو وہاں جانے کا مشورہ دیتے ہوئے میں غالباً زیادہ پر اعتماد نہیں لگا اور میری دوست اب تذبذب کا شکار ہے۔
آپ، جذباتی ہوئے بغیر، بتائیں کے آپ میری جگہ ہوتے تو کیا کرتے؟
تبصرےتبصرہ کریں
ميں ہوتا تو خاتون کو لاہور جانے کا مشورہ دے ديتا۔ کوئی مسئلہ نہيں ہے ادھر اس قسم کا۔ خاص طور پر خاتون اور وہ بھی مغربي، اس کے ساتھ تو مسئلہ پيش آ ہی نہيں سکتا۔ پھر امريکی سپر پاور کا کيا فائدہ اور برطانيہ کے تو ہم سابق غلام ہيں ہي۔
میں نے پاکستان کی میں سکیورٹی کی صورتحال پر کئی بلاگ لکھے ہیں۔ آپ وہ دیکھ سکتے ہیں اور ان پر لوگوں کی رائے بھی۔ کوئی بھی حقیقت کا سامنا کرنے کو تیار نہیں۔
لاھور زندہ دلوں کا شہر ہے۔ ميرے خيال ميں ان کو لاھور دکھانا چاہيے تاکہ انکا ذہن ھمارے متعلق صاف ہوجائے بقول منوں بھائی
کیہ ہویا اے
کجھ نہیں ہویا
کیہ ہوئے گا
کجھ نہیں ہونا
کیہ ہوسکدا اے
کجھ نہ کجھ تے ہوندا ای رہنداے
جو توں چاہنائیں او نیں ہونا
ہو نیں جاندا
کرنا پینداے
عشق سمندر ترنا پینداے
سکھ لئی دکھ وی جھلنا پینداے
حق دی خاطر لڑنا پینداے
جیون دے لئی مرنا پینداے
ادھر سب ٹھیک ہے، اگر کسی کو خطرہ ہے تو وہ صرف اور صرف ہماری حکومت کو ہے۔ آپ کوئی بھی خبر اٹھا کر پڑھ لو، کہیں پر آپ کو کسی غیر ملکی کے نقصان کی خبر نہیں ملے گی۔ میرے خیال میں وہ لاہور آ کر خوش ہوں گی۔
یہ سب میڈیا کا غلط پراپوگینڈا ہے۔مانا کہ یہاں تھوڑی دیر زیادہ پرابلم ہے لیکن کیا لندن میں بم نہیں پھٹتے ، کیا فرانس میں لوگ جارحانہ ہنگامہ نہیں کرتے۔ کیا آپ ہسپانیہ کا بم دھماکہ بھول گئے، اور ابھی تھوڑی دیر پہلے انڈیا میں تن بم پھٹے، اللہ کا شکر ہے کہ لاہور میں ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔ اسد صاحب میرا خیال ہے کہ آپ کو بھی لاہور کا چکر لگا کر اپنی پاکستانیت تازہ کروانے کی ضرورت ہے۔ شکریہ
ميں ٹورنٹو سے لاہور اور پاکستان کے دوسرے حصوں ميں ہر سال يا دو سال بعد جاتا رہتا ہوں- اور کبھی کسی مشکل کا سامنا نہيں ہوا- بس ايک دھڑکا لگا رہتا ہے، کہ کہيں مستقل نہ رہناپڑ جائے- جبتک واپسی کے راستے کھلے ہيں، ڈرنا نہيں چاہيے- ويسے آجکل اليکشن اور دھند کی وجہ سے سير و سياحت کے ليۓ ٹھيک نہيں ہے- ايک واضح فرق جو نظر آتا ہے وہ لوگوں کی بے حسی ہے- باہر بيٹھے لوگ خوامخواہ پريشان رہتے ہيں- جسکا اظہار کرکے اکثر شرمندگی کاسامنا کرنا پڑتا ہے-
ادھر ُآپ کی آواز` فورم پر لاہور کے چند لوگ بڑی بڑی بڑھکيں مار رہے ہوتے ہيں آپ اسد صاحب ان لوگوں سے ميزبانی کے ليے کيوں نہيں کہتے بہت خوش ہوں گے کسی گورے نہيں بلکہ گوری کی ميزبانی کر کے
پنجاب کے سارے چور ڈاکو کراچی میں ڈاکے ڈال رہے ہیں۔ اس لیے آپ کا لاہور محفوظ ہے۔ اپنی دوست کو ضرور لاہور بھیجیے۔ بی بی سی: چھاپنے کے لیے منظوری کیسی؟ آزادی صحافت کا علم اٹھاتے ہیں اور کرتے ہیں سنسرشپ۔
جناب اسد صاحب
آداب - ميں آپ کو بہت عرصے سے مشورہ دينے کا سوچ رہا تھا - يہ اچھا ہوا کہ آپ نے خود ہی مشورہ مانگ ليا - جناب عالی ! ميرا ہمدردانہ اور مخلصانہ مشورہ يہ ہے کہ آپ سچے دل سے بےمقصد اور بے سروپا بلاگ لکھنے سے توبہ کرليں اور کوئی بامقصد کام جو آپ کے بس کا روگ ہو اس کی طرف دھيان ديں - شکريہ
ريحان ساجد - آسٹريليا
ميم صاحبہ سے کہہ ديں کہ ابھی نہيں، کچھ عرصے بعد!
يقين جانیے شرم آرہی ہے يہ کہتے ہوئےـ
پلیز ان کو میرا پتہ دے دیں
لاہور اور اکیلی لڑکی، نہ نہ توبہ توبہ، وہاں کے فراڈیے تو مردوں کو نہیں چھوڑتے، یہ تو معصوم سی عورت ہے۔
جناب ، آخر دوستي بھي کوئي چيز ہے - ہمراہ نہيں لا سکتے تو کسي کو ذمہ داري تو سونپ سکتے ہيں بزبان انگريزي اس يقين دہاني کے ساتھ کہ جنے لہور نئيں تکيا اوہ جميا نئيں !
واپسي پر احسان مند ہوتي ہيں يا ہرجانے کا دعوٰي کرتي ہيں ، وہ بعد ميں ديکھا جائے گا -
پاکستان ميں ايک غيرملکی سياح کو اتنے ہی خطرات ہو سکتے ہيں، جتنے کسی بھی ترقی پزير ملک ميں ہوسکتے ہيں- احتياط لازم ہے، کسی جاننے والے کو ساتھ رکھيں- پٹرول اور کھانے کا خرچہ خود کريں، ورنہ جاننے والا بھی دوسرے دن نظر نہيں آئے گا- شو بالکل نہ ماريں- اگر لٹ لٹا جائيں تو اللہ کی مرضی سمجھ کر بھول جائيں- پوليس کے پاس ہرگز نہ جائيں- دوکاندار پر بھی ظاہر نہ ہونے ديں-
کوئی مسئلہ نہں لاہور ميں يا پورے پاکستان ميں خطرہ صرف اور صرف عام پاکستانی شہريوں کو ہے۔ باقی سب اچھا ہے
اپنی دوست کو لاہور آنے کا مشورہ ہرگز نہ ديں ۔اگر آنا بہت ضروری ہے تو انھيں کہيں کہ ڈيفنس وغيرہ سے باہر قدم نہ رکھيں ورنہ جان، مال اور خاص طور پر عزت تو باکل ہی غير محفوظ ہے۔
لاھور ميں کوئی پرابلم نہيں ہے۔ ان کو ديکھ لو۔ مياں نوازشريف کی آمد پر کتنا ڈسپلن کا اظہار ہوا۔ پورا پاکستان ہی سيف ہے۔ يہ وقتی مفادات کی غرض سے کر رھے ہيں ميں تو کہوں گی کے ان کو راولپنڈی بھی بھجوا ديں شکريہ
جناب اسد صاحب
اپنی دوست کو کہيں کے شريف الدين پيرزادہ سے رابتہ کريں جنھوں نے ہميشہ مارشل لاء کو تحفظ ديا وہ آپکی دوست کی حفاظت کا بھی انتضام کر ديں گے۔
محترم اسد چوہدری صاحب، آداب!
مودبانہ عرض ہے کہ لاہور کے بارے میں جو آپکی رائے ہے يہ آج بھی درست ہے- گمان يہی ہے کہ موصوفہ نے کراچی ہلاکتوں اور پنڈی دھماکوں کا اثر سنجيدگی سے لے ليا ہے-اگر تو موصوفہ کے پاس پنجاب يونيورسٹی کا دعوت نامہ ہے تو پھر ان کے ذہن ميں جماعتيوں کا عمران خان کے ساتھ غيراخلاقی و غيرانسانی و غيرمہذب سلوک ہی لاہور نہ آنے کی بنيادی وجہ ہوسکتی ہے، اگر ايسا ہی ہے اور انکے پاس پنجاب يونيورسٹی کا دعوت نامہ ہے تو وہ اپنے خوف ميں حق بجانب ہيں اور انہيں لاہور نہيں آنا چاہيۓ- رہی بات لاہور ميں دوست کی عدم موجودگی کي، تو بندہ انکا ميزبان بننے کو تيار ہے- اور آخری بات يہ کہ موصوفہ کے علم ميں لانا چاہئے کچھ پانے کو کچھ کھونا تو پڑتا ہی ہے، يہاں تک کہ ديوتا بھی منت تب پوری کرتے ہيں جب ان پر کوئی چڑھاوا چڑھايا جائے-
مخلص،
نجيب الرحمان سائکو
ماڈل ٹاؤن، لاہور
دراصل ڈر توخود کی پيدا کی ہوئی ایک چيزکا نام ہے، جو لوگ اس کو اپنے دل میں جگہ دے ديتے ہيں وہ ہو سکتا ہے اپنے گھر کو بھی غیر محفوظ سمجھتے ہوں۔ ان کو يہ بھی سوچنا ہے کہ اور کتنے کروڑ لوگ وہاں پر رہتے ہیں۔ پھر ہمارے ہاں تو عورت کو جو مقام ہے وہ کسی اور مذہب میں۔