دیارِ عشق
گورنر پنجاب جنرل ( ریٹائرڈ) خالد مقبول قبلہ نے سرکاری ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام دیارِ عشق میں حصہ لیتے ہوئے فرمایا ہے کہ حالی اور اقبال کی طرح پرویز مشرف بھی ایک صوفی اور درویش منش انسان ہیں۔ کیونکہ صوفی وہ ہوتا ہے جو انسانوں کو ذات پات اور عقیدے کے خانوں میں تقسیم نہیں کرتا بلکہ آفاقیت کی بات کرتا ہے۔
اس مذکورہ ارشاد کے بعد تو ہمیں گورنر خالد مقبول کے بارے میں بھی گمان ہے کہ ولی را ولی می شناس۔ ان کے اس گراں قدر مشاہدے سے ہماری اچھی خاصی تعلیم ہوئی ہے۔ کیونکہ اب تک پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی درسی کتب پڑھنے کے نتیجے میں میری نسل بس اتنا ہی جانتی تھی کہ حالی، غالبِ بادہ نوش کے ایسے چہیتے شاگرد تھے جنہوں نے یادگارِ غالب لکھ کر نہ صرف اپنے استاد کو امر کر دیا بلکہ مقدمہ شعروشاعری لکھ کر جدید اردو تنقید کی بنیاد ڈالی اور سر سید جیسے نیچری کے اصرار پر مسدسِ مدوجزرِ اسلام تخلیق کر کے مسلمانوں کو جھنجوڑنے کی کوشش کی۔ اب خالد مقبول کے طفیل یہ بھی معلوم ہوگیا کہ حالی اصل میں ایک صوفی تھے۔
اسی طرح اقبال کو میری نسل ایک درد مند قومی شاعر، فلسفی اور سیاستداں کے طور پر تو جانتی تھی جو دو قومی نظریے اور نطشے کے شاہین صفت پلٹنے جھپٹنے والے کردار پر یقین رکھتا تھا۔ لیکن جس طرح خالد مقبول نے اقبال کو دریافت کیا ہے اس کے بعد خود اقبال کا یہ شعر بھی کالعدم ہوگیا ہے کہ
’اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے‘
حالی اور اقبال صوفی اور درویش تھے یا نہیں اب وہ اس کی وضاحت کے لیے موجود نہیں ہیں۔ البتہ جنرل پرویز مشرف یقیناً دور حاضر کی بہت بڑی وسیع المشرب ہستی ہیں۔ اسلام آباد میں ان کے پانچ ایکڑ کے آستانے کے علاوہ (جسے بعض نادان فارم ہاؤس سمجھتے ہیں) کئی جگہوں پر ایسے آستانے موجود ہیں جو صاحبِ کشف و کمال لوگوں کے لیے وقف ہیں۔ وہ ایک سچے صوفی کی طرح رواداری اور آفاقیت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔ اس کا تازہ مظہر قومی مصالحتی آرڈیننس ہے جس کے تحت ہر گناہ گار آفاقیت کی چھتری تلے آگیا ہے۔ صوفی کو بھلا اس سے کیا لینا دینا کہ کون گناہ گار ہے کون نہیں۔ اس کا فیصلہ تو صرف خدا ہی کر سکتا ہے جس نے خلق کو خلق کیا۔
کہتے ہیں کہ صوفی نہ صرف اپنے دور کے لوگوں بلکہ آنے والے ادوار کے اولیا کے لیے بھی اپنی تعلیمات و مشاہدات چھوڑ کر جاتا ہے۔ چنانچہ ہوسکتا ہے کہ حضرت خواجہ الطاف حسین حالی کا یہ پیغام قبلہ پرویز مشرف رحمتہ اللہ علیہہ کے لیے ہی ہو کہ
’بناوٹ سے نہیں خالی کوئی بات
مگر ہر بات میں اک سادہ پن ہے‘
اسی طرح حضرت علامہ اقبال کا یہ اشارہ کہ
’نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں‘
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس شعر میں پہاڑوں کی چٹانوں سے مراد کرگل ہے۔۔۔ واللہ علم بالصواب۔۔۔