قیوم چریا اور ضیاءالحق
نام تو اس کا شيخ عبدالقیوم ہے لیکن وہ ان دنوں ’قیوم چریا‘ کے نام سے مشہور تھا۔
قیوم چریا کو وہاں ہونا چاہیے تھا جہاں اسے ہونا چاہیے تھا لیکن وہ سندھ اسمبلی میں رکن منتخب ہوکر آیا تھا۔ قیوم چریا ’سدا حیات‘ فوجی آمر جنرل ضیاءالحق کا زبردست حمایتی اور شیدا تھا۔ اس قدر حامی کہ اس نے کہا تھا کہ اگر ضیاء الحق نے ملک سے مارشل لاء اٹھایا تو وہ احتجاجاً اپنی اسمبلی نشست سے استعفی دے دے گا اور شاید اس نے ایسا ہی کیا۔
ویسے تو جنرل ضیاء نے تحریر و تقریر کی آزادیوں کا بھی گلا دبا رکھا تھا لیکن اس ڈراونی اور لڑائي مار کٹائي سے بھرپور ضیائي فلم میں قیوم چریا اچھی خاصی تفریح تھا۔ لوگ جوق در جوق اسکے جلسے سننے جاتے۔
انیس سو پچاسی کے غیر جماعتی انتخابات کی ختم ہوتی مہم کے آخری گھنٹوں میں حیدرآباد سندھ کے تلسی داس روڈ پر میں بھی قیوم چریے کی تقریر سننے گیا تھا۔ تقریر کرتے کرتے وہ بیچ میں چند سیکنڈ رکا اور پھر کہا ’حضرات! پولیس پہنچ گئی‘ اور پھر اس نے اپنے پاؤں سے چپلیں اتار کر ہاتھ میں پکڑیں اور اسٹیج پر سے کود کر جلسے سے بھاگتا بنا۔
آج سترہ اگست ہے۔ کیکر پر کوا بھی نہیں بول رہا۔ ضیا ءالحق کی برسی کا دن خاموشی سے گزر گيا لیکن قیوم چریے اور بینظیر بھٹو نے جنرل ضیاء الحق کو امر کردار بنایا ہوا ہے۔
ضیا ء الحق سے لڑتے لڑتے لوگ بھی خود ضیاء الحق ہوگئے۔ ’رانجھا رانجھا کردی نی میں آپے رانجھا ہوئي‘۔
جی ایم سید کی مزاج پرسی کو جب ضیاء آئے تھے تو سید ’جمہوریت دشمن ٹھہرے تھے‘ لیکن بینظیر مشرف سے ملتی ہیں تو یاروں کی باچھیں کھتلی بنی ہوئي ہیں۔
اگست انیس سو چرانوے تھا، میں اسلام آباد میں قومی اسمبلی کے کیفے ٹیریا میں اپنے صحافی دوست عامر متین کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا۔ عامر کو دیکھ کر چوہدری شجاعت ہماری میز پر آگئے۔ ان کے ہاتھ میں ضیاء الحق کی برسی کا دعوت نامہ تھا اور کہنے لگے ’پیپلزپارٹی اور اسکی حکومت میں ایسا کونسا بندہ اور بندی ہے جو جنرل ضیاء کی برسی کے دعوت نامے دیئے جانے کو کوالیفائی نہیں کرتے سوائے بینظیر بھٹو اور ناہید خان کے؟‘
آج چوہدری شجاعت بڑے شوق سے ضیاء کی برسی کا دعوت نامہ پیپلز پارٹی کی جملہ قیادت کو دے سکتے ہیں۔
’تیری سرکار میں پہنچنے تو سبھی ایک ہوئے‘
تبصرےتبصرہ کریں
کيا کہا جا سکتا ہے۔ بينظير نے بھی عوام کے ساتھ وہی کرنا ہے جو امريکہ کی خواہش پر فوجی حکمران کرتے ہيں۔ شايد پيپلز پارٹی ميں گھس بيٹھے لوگ وہ دن بھی دکھائيں کہ شجاعت حسين کی جگہ وہ خود کارڈ مانگتے نظر آئيں۔
کيا بات ہے حسن صاحب بہت مزے کے بلاگ لکھنے لگے ہیں۔ يا ماضی ميں جينا سبھی کو اچھا لگتا ہے خواہ کيسا بھی ہو۔ آپ نے جن سالوں کا ذکر کيا سارے منظر آنکھوں کے سامنے اُس وقت کے مع اپنی پُوری جُزئيات کے ايسے آ کھڑے ہُوئے جيسے کبھي کہيں گئے ہی نہيں تھے۔ ساری باتوں کو چھوڑ کر صرف سترہ اگست کی بات کرُوں گی کہ کل ہي ایک نجی چينل کے خصُوصی نغمے ميں يہ لفظ سُن کر کہ اب کوئی يہ نہيں کہہ سکتا ارباب اقتدار سے کہ ’ سب اچھا ہے‘ ميں اپنی بيٹی کو ضياء دور کا ايک واقعہ سُناتے ہُوئے کہہ رہی تھی کہ سامنے برستی گوليوں ميں ہم ديکھ رہے تھے کہ اب کسی بھی وقت ہمارے گھروں کو آگ لگ سکتی ہے۔ ہم لوگ کرفيو کی دُعا کر رہے تھے پُوری شاہ فيصل کالونی جل چُکی تھی اور دُھوئيں کے اُٹھتے بادلوں کو ناتھہ خان گوٹھ کے پُل پر سے ديکھتے ہُوئِے جب صاحب نے اپنے مصاحبين سے استفسار کيا کہ يہ کيا ہُوا ہے تو جواب آيا کچرے کو آگ لگی ہُوئی ہے۔ سترہ اگست کو جب ٹی وی پر وفات کی خبر نشر ہُوئی تو ميں باآواز رونے لگی، ميرا بھائی کہنے لگا کيا بات ہے باجی آپ کو لگتا ہے بہت دُکھ ہُواہے؟ ميں نے کہا بات وہ نہيں بلکہ مُجھے آج يہ يقين پُختہ ہُوا ہے کہ اللہ تعاليٰ انصاف کرتا ہے۔ ورنہ ان صاحب کی باتيں تو ايسي تھيں کہ لگتا تھا کبھی کوئی ان کو ہرا نہيں سکتا۔ بے نياز ہے وہ ذات جو ہر ايک کو اُس کی اوقات دکھا ديتی ہے۔ کُچھ ايسا ہی آج کل پھر ہو رہا ہے۔ سو ايسے ميں واقعی آپ کی بات درُست ہے کہ
’ايک ہی صف ميں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز‘۔ صرف ايک سياست کے بے ہُودہ کھيل کی وجہ سے۔ جہاں سبھی خُون معاف ہو جاتے ہيں بس ايک کُرسی کی خاطر۔ اللہ ان کو ہدايت دے اور ہميں برداشت کرنے کی توفيق دے۔ آمين
دُعا گو
شاہدہ اکرم
يہ بھی ہماری بد قسمتی سمجھيں کہ نہ تو جرنيل اپنی حرکتوں سے باز آئیں گے نہ سياستدان اپنے اعمال سے سبق سيکھيں گے۔
ویسے شہر حیدرآباد میں آج قیوم چریے کا کوئی نام لیوا نہیں ملتا۔ کاش جنرل ضیاء اور جنرل مشرف کے حامی چریے اس بات کو سمجھ سکیں کہ آمریت خود ایک چریہ پن ہے جس کا علاج خاصا طویل اور مہنگا ہے۔ طویل ان معنوں میں کہ عقل تو آتے آتے آتی ہے اور مہنگا اس معاملے میں کہ نامعلوم کتنی قیمتی جانیں اور عوام کے کتنے حق اسکی بلی چڑھ جاتے ہیں۔
لگے رہو حسن بھائی۔
احمدرضا
سندھ ميں قيوم چرچا اور پاکستانی کشمير ميں قيوم چاچا (جو اب قيوم بابا ہيں) ضيائی خدمتگار مشہور تھے اور اب بھی ان کے ’ہونہار‘ فرزند موروثی کردار ادا کر رہے ہيں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بابا قيوم ضيا کی برسی ميں شموليت کو مذہبی فريضہ کی حد تک مانتے تھے، جبکہ انکے فرزند مشرف کی سالگرہ کو۔ يہ حسين مذہبی سے لبرل موروثی روايت ہی شايد بےنظير کو کسی اور انداز ميں ملی ہے۔ مگر سب کچھ صرف اقتدار کے لیے نہ کہ وقار کے ليے۔
حسن بھائي! مشرف بے نظير ڈيل پر جن احساسات و خيالات کا اظہار آپ نے کيا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو قلبی دکھ ہوا ہے اور ذہنی دھچکا لگا ہے۔ مگر مقام صد افسوس ہے کہ ماسوائے شير پنجاب مصطفی کھر کے پيپلز پارٹی کے کسی سورما يا نظرياتی کھڑپينچ نے منہ نہ کھولا اور نہ ہی کسی طرم خان کو اختلاف کرنے کی جرات ہوئي۔ اس لحاظ سے آپ جری و بہادر ثابت ہوئے ہيں!
بس یہ سب جو فنکاریاں چل رہی ہیں سینتالیس سے، یہ بس سندھ کا حق مارنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔۔
پیارے حسن،
آج بھی سیاں قیوم جیسے لوگ ہم میں موجود ہیں۔ یقین نہ آئے تو پنجاب کے چودھری اور سندھ کے ارباب کو دیکھ لیں۔ یہی لوگ مشرف کی تباہی کا سبب بنیں گے۔