| بلاگز | اگلا بلاگ >>

’اک بہادر آدمی‘

حسن مجتییٰ | 2007-08-04 ،15:30

بچپن میں بڑے اسکول (ہائي اسکول) اور کالج کے لڑکوں کے منہ سے ایک نعرہ سنا کرتے ’اک بہادر آدمی ہاشمی ہاشمی ہاشمی‘۔ یہ نعرہ وہ لڑکے اپنے اس وقت کے مشہور طالب علم رہنما جاوید ہاشمی کے حق میں لگایا کرتے۔ شاید یہ نعرہ آج تک پرانا نہیں ہوسکا۔
20031110152707javed_hashmi_2.jpg

جاوید ہاشمی کا پاکستانی سیاست میں جیل جانے کا اتنا ہی چالیس سالہ تجربہ ہے جتنا پاکستانی فوج اور جنرلوں کا فوجی بغاوتوں ارر آمرانہ حکومتیں کرنے کا۔
پچھلی بار جاوید ہاشمی پر الزام فوج کیخلاف بغاوت کا تھا جسکے صلے میں انہیں انیس سال کی سزا ہوئی اور وہ گذشتہ تقریباً چار سال کے عرصے سے جیل میں تھے۔

جیل میں انہوں نے پھولوں کے پودے اگائے، دو کتابیں لکھیں اور سپریم کورٹ کے حکم پر آزاد ہو کر باہر آئے ہیں۔

حیرت ہے ملک و آئین توڑنے اور منتخب حکومتوں کیخلاف بغاوت کرنے والے فوجی جنرل باہر ہیں اور جاوید ہاشمی اندر تھے۔

یہ ملتانی مٹی سے پیدا ہونے والے سرائیکی سیاستدان ہیں۔ سوا نیزے پر سورج کی گرمی رکھنے والے شمس تبریز، مصدق سانول اور کارٹونسٹ فیقا کا ملتان۔

ابھی کل پرسوں کی بات ہے کہ میں نے ان کی ایک تازہ کتاب ’تختۂ دار کے سائے تلے‘ نیویارک میں ایک پاکستانی بک اسٹور سے بیس ڈالر میں خریدی۔ ابھی ان کی یہ کتاب میرے زیر مطالعہ ہے جو انہوں نے کوٹ لکھپت جیل سے اپنی بیٹیوں میمونہ، بشری اور دیگر اہل خانہ کو خطوط کی صورت میں لکھی۔ بلکل ایسے جیسے جواہر لال نہرو نے جیل میں اپنی بیٹی اندار گاندھی کو خطوط لکھے تھے۔ لیکن ان میں ایک خوبصوت شاعر نما کی آنکھ، دل اور خوبصورت اظہار اور سچائی ہونے کے باوجود سیاسی طور ہندو اور ہندوستان کے ذکر پر انکی سوچ وہی ہے جو ’نوائے وقت‘ یا ’جنگ‘ کے پرانے قاری کی ہوا کرتی تھی۔ لیکن ان کی کتاب پاکستان کے سیاسی ادب میں شمار ضرور ہوگی۔

نہ کبھی پاکستان میں جیل جانے والے رہنماؤں اور کارکنوں کی کمی رہی ہے اور نہ ہی جیل میں سےلکھی جانیوالی کتابوں کی۔

کمی کہنے اور کر دکھانے کے فرق کی رہی ہے۔ ورنہ بہاولپور جیل سے کتاب شیخ رشید نے بھی اچھی لکھی تھی’فرزند پاکستان‘ جو صرف ’فرزند راولپنڈی‘ ثابت ہوا۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 16:08 2007-08-04 ,ظہيرچغتائی :

    اگر بھارت کے متعلق ان کی وہی سوچ ہے جو نوائے وقت يا جنگ کے پرانے قاری کی ہوا کرتی تھی تو يہ خوشی کی بات ہے۔ بھارت بھی تو کچھ اپنی اداؤں پر غور کرے۔ خود بھی امن سے رہے اور دوسروں کو امن سے رہنے دے۔ کشمير سے اپنی فوجيں نکالے اور اپنے دفاعی بجٹ ميں کمی کرے۔

  • 2. 16:31 2007-08-04 ,Dr Alfred Charles :

    حسن صاحب! يہ کيا کيا؟ آخر ميں شيخ رشيد احمد کا تذکرہ کرديا۔ کہاں جاويد ہاشمی کہاں شيخ صاحب۔ بہرحال ايک بہادر آدمی بازی لے گيا اور اپنےذاتی ووٹ بينک اور مسلم ليگ (ن) کے ووٹ بينک ميں اضافہ کرگيا جبکہ اپنے کردار اعمال و گفتار سے لال حويلی والے شيخ جی نے اپنا ذاتی اور مسلم ليگ (ن) کا ووٹ بينک کھو ديا۔ آئندہ اليکشن ميں ان کو لگ پتہ جائےگا۔

  • 3. 20:10 2007-08-04 ,Mian Asif Mahmood,MD-U.S.A :

    شيخ رشيد اور جاويد ہاشمی ميں وہی فرق ہے جو اقبال کے ملا اور مجاہد ميں ہے۔ ايک جيل کاٹنے کے بعد بھی باوقار چال چلتا ہے دوسرا حکومتی عہدے پر ہوتے ہوئے بھی شرمندہ شرمندہ ہے۔
    اچھا اپنا خيال رکھيئے گا۔

  • 4. 11:09 2007-08-05 ,اعجاز :

    میں اکثر حیران ہوتا ہوں کہ بہادر آدمی اکثر وبیشتر جیل ہی میں ملتے ہیں۔ حسرت ہو فیض کہ ہاشمی سبھی کا مقدر ایک جیسا ہے؟


  • 5. 13:31 2007-08-05 ,shahidaakram :

    آج کا بلاگ پڑھ کر ايک خوبصورت بات کا احساس ہوا کہ حسن صاحب اچھا ادب يا اچھا انسان صرف جيل ميں ہی کيُوں پايا جاتا ہے۔ اب وہ بڑے بڑے ليڈر ہوں يا شاعر و مصنف حضرات، حسرت ہوں، فيض ہوں يا جاويد ہاشمی کی صورت پائی ہو۔ اُنہوں نے ميرے خيال ميں قيد و بند ميں بندہ زيادہ فراغت سے سچ کو سمجھ پاتا ہے۔ حواسِ خمسہ کے تمام حواس جاگ جاتے ہيں اور محسُوسات کے اسی اضافے کے بعد بندہ ايک مُختلف انسان ہو جاتا ہے ليکن يہ ضرُوری نہيں ہے کہ سب کے ساتھ ہي ايسا ہو کيُونکہ
    محبت کے لیے کچھ اور دل مخصوص ہوتے ہيں۔
    يہ وہ نغمہ ہے جو ہر ساز پر گايا نہيں جاتا
    سو دعا ہے کہ ملتانی مٹّی کے لوگ پُورے وطن کی مٹی کی حفاظت کر سکيں۔ اللہ تعاليٰ سے صرف اچھی اور پُر خلُوص قيادت کی دُعا ہے

  • 6. 13:20 2007-08-06 ,RANA SALEEM :

    مخدوم جاويد ہاشمی کی رہائی، شريف برادران کا وطن واپسی کے ليے سپريم کورٹ سے رجوع، يوں لگ رہا ہے کہ مسلم ليگ (ن) اپنے اصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے کاميابی کی طرف بڑھتی جا رہی ہے جبکہ بی بی ايک غلط موقع پر ڈيل قبول کر کے اپنی سياسی ساکھ کو خواہ مخواہ داؤ پر لگا رہی ہيں۔ حالانکہ عدليہ کی آزادی کی جنگ ميں پيپلز پارٹی کے اعتزاز احسن کا کردار سب سے بڑھ کر تھا۔

  • 7. 18:03 2007-08-07 ,Sajjadul Hasnain :

    کتاب تو مشرف صاحب نے بھی لکھی تھی۔ ميں نے ديکھا تھا کہ کس شان کے ساتھ جاويد ہاشمی کو ايک زبردست جلوس کی شکل ميں جيل سے گھر لے جايا گيا تھا۔ جاويد ہاشمی کی سياسی زندگی کا ميں نے ابھی تک مطالعہ نہيں کيا ہے۔ ہاں جيل سے چھوٹنے کے بعد ميڈيا والوں کے سامنے ان کی شعلہ بيانی بغور سنی ضرور ہے۔ جيو پر ان کے بارے ميں پيش کی جانے والی رپورٹوں کا بھی بھر پور مشاہدہ کيا ہے اور اب آپ کا يہ بلاگ۔ اب پتہ نہيں پاکستان کے افق پر يہ ستارہ چمکتا بھی ہے يا پھر فوجی وردی کے ستاروں کی چمک اسے ماند کر ديتی ہے۔ ويسے بھی پاکستانی سياست ہميشہ غير يقينی سے دوچار نظر آتی ہے۔ اب اللہ ہی سے اميد رکھی جاسکتی ہے۔ ہاں کتاب لکھنے کا معاملہ جو ہے وہ جيل، مصائب، تجربات، پريشانيوں کی بھٹی کے بعد ہی ايک شاہکار کو وجود بخش سکتا ہے۔ سنجے دت کو بھی ميں نے يہی مشورہ ديا ہے کہ کال کوٹھری ميں بيٹھ کر آنسو بہانے يا گھٹکا چبانے کے بجائے کوئی کتاب ہی لکھ ديں تاکہ گاندھی گری کو کچھ تو عملی شکل مل سکے۔

  • 8. 16:16 2007-08-08 ,Victor Bhana :

    آداب عرض! کيا بات ہے آپ نے جاويد ہاشمی کی اک اديب ہونے کی جو تصوير بنائی اور ان کی طالب علمی کے زمانے پر بھی نظر دوڑائی جناب۔ سنا کرتے تھے کہ
    عام طور پر قابل لوگوں کے آثار شروع سے ہی نظر آتے ہيں۔ جيل کا تجربہ وہ بھی بے قصور ہونے ميں انسان کو کندن بنا ديتا ہے۔ ميں يہ سمجھتا ہوں کہ ہاشمی صاحب اس وقت اک ہيرو ہيں اور پاکستان ميں جس کو جی چاہا پکڑ کر اندر کر ديا جاتا ہے۔ پھر بھی جيل سے بچ کر نيکی کرنے کا طريقہ بھی کوئي ضرور ہوگا۔ تلاش کی ضرورت ہے۔گھڑی گھڑی جيل جانے سے بھی قومی نقصان ہوتا ہے۔ ميرے احساسات پوری طرح ہاشمی صاحب کے ساتھ ہيں کيونکہ جيل کے ماحول سے واقف بھی ہوں ليکن ضرورت ہے کہ اپنے اصولوں پر قائم رہتے ہوئے کوئی راستہ تلاش کيا جائے کہ انسانيت کو زيادہ فائدہ ہو۔

91ȱ iD

91ȱ navigation

91ȱ © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔