بینک اور ملک
بی بی سی اسلام آباد بیورو ایک ایسی عمارت میں ہے جس کے گراؤنڈ فلور پر ایک بینک کی شاخ قائم ہے اور اس کے دروازے پر ہمہ وقت دو سے چار مسلح سیکیورٹی گارڈز کی ڈیوٹی بھی ہوتی ہے۔ میں جب بھی سگریٹ پینے گراؤنڈ فلور پر جاتا ہوں تو ان میں سے کسی نہ کسی سے آنکھیں ضرور چار ہوتی ہیں۔
سگریٹ پیتے ہوئے میرے ذہن میں یونہی خیال آیا کہ اگر یہ سیکیورٹی گارڈز بینک کی حفاظت کرنے کے بجائے بینک منیجر کو کرسی سے اٹھا کر باہر پھینک دیں، کیشیئر کی جگہ خود بیٹھ جائیں، کسٹمر سروس کاؤنٹر پر کھڑے نوجوان آفیسر کو گن پوائنٹ پر سمجھانا شروع کردیں کہ کھاتے داروں سے کیا کہنا ہے اور کیا نہیں، کھاتے داروں کو یہ احکامات جاری کرنے لگیں کہ آپ آج کیش مشین سے زیادہ سے زیادہ کتنی رقم نکلوا سکتے ہیں، مالیاتی چیکوں پر کاؤنٹر دستخط کرنے لگیں اور بینک کے باہر یہ بورڈ لگا دیں کہ کل سے بینک اتنے بجے سے اتنے بجے کھلے گا وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
اس کے بعد کیا ہوگا؟
ظاہر ہے پولیس آئے گی اور ان گارڈز کو غیر مسلح کر کے مقدمہ قائم کر کے جیل بھیج دے گی اور کھاتے دار چوبیس گھنٹے میں اپنی ساری رقم اس برانچ سے نکلوا لیں گے۔
لیکن ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب مسلح محافظ کبھی کبھی ایوانِ صدر اور وزیرِ اعظم ہاؤس پر قبضہ کر لیتے ہیں تو سب لوگ ان کے اشاروں پر چلنا شروع کر دیتے ہیں۔
لیجئے میری سگریٹ ختم ہوگئی اب میں چلتا ہوں۔۔۔۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
آپ نے بہت اچھا لکھا ہے۔ اب اس کو منطقی نتيجے تک لے جانا بھی آپ کا کام ہے يعنی اس طرف لوگوں کی رہنمائی کرنا وغيرہ۔
زبردست! وسعت صاحب شکر ہے کہ آپ کو یہ بات سمجھ آگئی۔ لیکن جس دن پاکستانی عوام کو یہ بات سمجھ
آ گئی تو پھر تخت اچھالے جائیں گے اور راج کرے گی خلق خدا۔ کاش وہ دن جلدی آئے۔
وسعت اللہ خان جی آپ نے نقشہ تھوڑا غلط کيھنچا ہے۔
وہ ايسے کہ پوري دنيا ميں ملکوں کی فوجيں ہوتی ہيں اور اپنے ہاں تو فوج کا ملک ہے۔
وسعت بھائي! پہلے تو ميں آپ سے سخت ناراض ہوں کہ آپ جيسا پڑھا لکھا بلکہ جہاں ديدہ شخص سگريٹ پيتا ہے۔ لگتا ہے کہ آپ کے سگريٹ کے دھويں نے يہ يہ ساری منظر کشی کی ہے۔ غاضبانہ اور جبراً قبضہ اسی طرح ہوتا ہے اور اس کے منفی نتائج بھی سامنے آتے ہيں۔ اميد ہے کہ آپ مضر صحت سگريٹ ترک کرديں گے تاکہ بغير دھويں کے اچھے خيالات سامنے آئيں۔
دراصل بات پيشہ ورانہ اصول کي، احساس ذمداري، احساس کمتری يا احساس برتری کي ہے۔ بھلا آپ ہی بتائیے کہ اے سی ميں بيٹھے ہوئے مدير کو کيا ضرورت کے نوٹ کيشيئر سے گنوانے کے بجائے گارڈ سے يہ کام بھی لينا شروع کر دے۔
شکر ہے کہ آپ کی سگريٹ ختم ہوگئی ورنہ وسعت اللہ خان اس وقت اڈيالہ ميں ہوتے۔ کيا خيال ہے آپ کا؟
وسعت صاحب سيدھی سی بات ہے کہ گارڈز کے اوپر پوليس کا ڈنڈا ہے جبکہ فوج کے اوپر تو صرف رب کا ڈنڈا ہے جو ذرا دير سے تو استعمال ہوتا ہے ليکن اسکی ضرب بڑی شديد ہوتی ہے۔ کاش يہ سمجھيں کہ ابھی انہيں ڈھيل ملی ہوئی ہے۔
جی يہی فرق ہے بینک کے گارڈز اور ايوان صدر اور وزير اعظم ہاوس کے گارڈز ميں۔
اوراگر بینک کے اندر والے ہی ان سے ہتھيار چھين کر انہيں جوتياں لگائیں تو؟
اگر کوئی شخص ايک ہزار روپے ماہوار کماتا ہے اور اپنی حفاظت کے ليے سات سو روپے ماہوار پر چوکيدار رکھ ليتا ہے تو انجام کيا ہو سکتا ہے؟ اس شخص کو عقلمند کون کہے گا؟
آپ سگريٹ بھي پيتے ہيں؟ بہت افسوس ہوا۔ ميں آپ کو ايسا نہيں سمجھتا تھا۔
ہماری فوج ہمیشہ سے یہ کرتی آئی ہے اور شاید ہم اس بات کے عادی ہوگئے ہیں۔ ملک اور فوج دونوں کی بقاء اسی میں ہے کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کریں۔ اداروں پر قبضہ کرنا چھوڑ دیں اور آپ ایک اور سگریٹ سلگائیں۔ چیف جسٹس کی بحالی کے بعد امید ہے کہ ہم سب کو اپنے حقوق و فرائض کا احساس ہو جائے گا۔
وسعت صاحب
آداب۔ آپ نے بالکل ٹھيک کہا۔ پاکستان کی مثال ايسے گھر کی ہے جہاں چوکيدار گھر کےمالک بنے بيٹھے ہيں اور اہل خانہ در بدر۔ پاکستان کی مثال ايسے (اسلام کا) قلعہ کی ہے جس کے اندر اس کے اپنے ہی شہری محصور ہو کر رہ گئے ہيں۔
وسعت بھائی کيا ہوگيا ہے آپ کے بلاگز کو۔ کيا ہم نے نظر لگا دی يا پاکستان ميں ہوتے ہُوئے انتہائی محتاط ہوگئے ہيں کہ اتنا تول مول کر لکھتے ہيں، جو آپ کی تحرير محسوس ہی نہيں ہوتی۔ ايک دفعہ ميں نے لکھا تھا کہ آپ کی تحرير اب ان تحريروں ميں شامل ہوگئی ہے جس کی چند لائنیں پڑھ کر ہی علم ہو جاتا ہے کہ لکھنے والا کون ہے۔ صاحب تحرير کا نام پڑھنے کی ضرُورت نہيں ہوتی ليکن اب شايد کُچھ صحافتی بندشوں کی وجہ سے آپ کا نام ديکھ کر بھی تحرير آپ کی نہيں محسُوس ہوتی۔ وجہ وہی ہے جو ہم نے محسُوس کی ہے يا کوئی اور بات ہے کہ موضُوع اتنا پُرانا اور خاتمہ سگريٹ کے اختتام پر۔ کچھ مزہ نہيں آيا اور تکليف يہ سوچ کر بھي ہُوئی کہ ہمارے ملک کے لوگ کتنے مجبُور ہيں۔