شاباش مولوی حضرات
شاباس مولوی حضرات۔ آپ کی کوششوں سے سلمان رشدی کی بدنام کتاب ’دی سیٹینِک ورسز‘ میں پھر دلچسپی پیدا ہو گئی ہے۔ بیس سال قبل چھپنے والی اس کتاب کو شاید کم ہی لوگوں نے پڑھا تھا لیکن اب بہت سارے لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ اس کتاب میں آخر ہے کیا۔
یعنی ان بے وقوفی کے مظاہرے اور اشتعال انگیز بیانات سے مولوی حضرات نے کتاب کے لیے ایک اشتہاری مہم چلا دی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس کتاب کو خریدنے اور پڑھنے والوں میں اضافہ ہوگا۔
سلمان رشدی مسلمان ہے، مصنف ہے۔ کیا اس کی مذمت کرنے کے علاوہ ہمارے قدامت پسند سیاستدانوں کے پاس کچھ نہیں ہے کرنے کو؟ پچاس افراد جمع کر لیے، مغرب مخالف نعرے لگا لیے، انگریزی میں لکھے ہوئے پلیکارڈ اٹھا لیے اور فلم سٹارز کی طرح فوٹوگراروں کے سامنے کھڑے ہو کر تصویریں کھنچوا لیں۔ اور امریکہ یا برطانیہ کا پرچم یا پھر رشدی کا پُتلا جلا دیا۔
شاباش۔ ملک میں قابل توجہ اور کوئی مسائل ہے ہی نہیں۔ بس رشدی کی مذمت اور برطانیہ کی مذمت کرنا ہی ہماری ضرورت ہے۔ سارا مسئلہ اسلام یا توہین رسالت کا ہے ہی نہیں، مسئلہ یہ ہے کہ مذہبی عناصر اور قدامت پسند حکومتی حلقے مذہب کو ایک تلوار کے طور پر استعمال کرنے کا اختیار رکھنا چاہتے ہیں۔ ان کو پتہ ہے کہ مذہب یا توہین رسالت کا نعرہ لگا کر وہ لوگوں کو ہر طرح استعمال کر سکتے ہیں۔ ’جذبات مجروح‘ کرنے کے باعث ہر چیز معاف۔۔۔
کیا ہمارا مذہب ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ جس شخص سے آپ کو اختلاف ہو آپ اس کو قتل کریں؟ یا ڈرائیں دھمکائیں؟ یا اس کا پتلا جلائیں؟ مجھے اگر آپ کی بات سے اختلاف ہے تو مجھے آپ سے گفتگو کرنی چاہیے، آپ کے موقف کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اپنا موقف سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیا انسانوں میں افہام و تفہیم کا یہ طریقہ صحیح نہیں ہے؟
شاباش مولوی حضرات۔ نہ صرف آپ پھر حکومت پاکستان کے کام آئے، آپ نے پھر اپنے ملک اور مذہب کو بدنام کیا، اور ایک بھولی ہوئی کتاب کی شہرت میں اضافہ کر لیا۔
تبصرےتبصرہ کریں
بہن آپ کے بلاگ ميں تصوير ديکھی رشدی کی آنکھيں توضياالحق کی آپس ميں نہ ملتيں تھيں جانے کيوں سلمان کي آنکھيں اور بھوئيں ايک جيسی ہيں- مولويوں کی ضياالحقوں نےدنيا ميں رسوا کيا ہے-
شاباش محترمہ عنبر خیری صاحبہ، معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آپکے بلاگ ميں وہ روح نہيں کہ جو پڑھنے والوں کو کھينچ لے- کيوں؟ کيونکہ محترم وسعت اللہ خان صاحب اور محترم حسن مجتبییٰ صاحب اپنے اپنے بلاگ ميں عنوان کے ساتھ اپنی فوٹو بھی لگاتے ہيں جبکہ آپ محترمہ ايک طرف مولويوں کے خلاف بات کرتی ہيں تو دوسری طرف ايک عدد مولوی آپکے اندر بھی ڈيرہ جماۓ ہوۓ ہے کہ اپنی تصوير کو بلاگ کے عنوان کے ساتھ لگانے سے کتراتی ہيں- محترمہ جب بندہ خود ہی’شور‘ نہ ہو وہ پڑھنے والوں ميں کس طرح يقين پيدا کرسکتا ہے؟ پتہ نہيں کيوں مجھے بار بار مقولہ ”چراغ تلے اندھيرا” ياد آرہا ہے-
عنبر جی حيران ہوں يے چھپ کيسے گيا- آپ نے صحیح لکھا ليکن ھمارا مولوی نہییں سنے گا يہ ہی اسلام کے خلاف ايجنٹ ہيں- کيونکھ انہوں نے اسلام کو بدنام کرنے کی کوئی کثر نہیں چھوڑي- دل جلتا ھے دعا ھی ہے خدا کی بے آواز لاٹھی ضرور چلے گي-
آپ نے کچھ زيادہ ہی غصہ کا اظہار کر دیا ہے۔ويسےاگر کوئی آپ کی ماں يا آپکے بارے ميں گندےالفاظ استعمال کرے تو کيا آپ احتجاج بھی نہيں کريں گي؟۔۔۔۔يا بی بی سی کی نوکري کيلئےيہ لکھنا ضروری ہے؟
ويسے تو آپ کے پورے اس بلاگ سے مجھے اختلاف ھے مگر آپکے يہ الفاظ ۔ ۔ ۔ ’ ان کو پتہ ہے کہ مذہب یا توہین رسالت کا نعرہ لگا کر وہ لوگوں کو جنگلی کتوں کی طرح استعمال کر سکتے ہیں۔‘۔۔۔۔ ۔ ہر قسم کے اخلاقی دائرے سے باہر ہيں ۔ کيا آپ کو نہيں لگا کہ آپکا لب و لہجہ بھی ويسا ہے جس لب و لہجے کی آپ مولوی صاحبان سے شاکی ہيں؟
شاتمِ رسول کی مذمت کرنا اور حُرمتِ نبوي(ص) کی خاطر آواز بلند کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے اس ميں مولوی يا غير مولوی سے بحث نہيں ۔ آپ عوامی احتجاج کے طريقہ کار سے اختلاف کرسکتی ہيں مگر عوام کی نيت پہ شک نہيں کرسکتيں کہ عوام کے نزديک محض اور محض حرمتِ نبوی مقصود ہے ۔
آپکو شايد يہ اندازہ نہيں ہوا کہ آپ نے اپنے بلاگ ميں ظالموں کی بجائے ظلم پہ احتجاج کرنے والے مظلوموں کو موردِ الزام ٹھرايا ہے
دعا گو
جاوید گوندل ، بارسیلونآ ۔ اسپین
مجھے لگ ر ہا ہے جيسےبی بی سي اردو کو اچھا نہيں لگ ر ہا پا کستا ن کی عوا م کا برطانیہ سے احتجا ج کر نا
دیکھیے محترمہ اختلاف اور توہین میں فرق ہوتا ہے۔ ان عامیانہ مظاہروں سے سب بیزار ہیں لیکن رشدی ملعون کو کیوں کلین چٹ دے دی آپ نے؟ خاطر جمع رکھیے اس کتاب کو آپ جیسے روشن خیالوں کے علاوہ کسی نے نہیں پڑھنا۔ کسی کو زیادہ شوق ہو تو وکی پیڈیا پر صرف اس کا پلاٹ ہی پڑھ لے۔۔۔امید ہے پہلی تین لائنیں پڑھ کر رشدی ملعون کی ذہنیت کا پتہ چل جائیگا۔
عنبر بي بی يہ ذاتی اختلاف نہيں توہين رسالت کا معاملہ ہے۔ تمام نبی قابل احترام ہيں۔ آپ سے درخواست ہے کہ اس معاملہ ميں احتياط سے بات کريں۔ ايمان کی دولت آپ کی اس معمولی نوکری سے کہيں بڑھ کر قيمتی ہے۔
عنبر خیری صاحبہ مجھے آپ کے ہم نام ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کے ہم خيال ہونے پر بھی خوشی ہے۔ مغرب ہمارے مذہبی اشتعال سے لطف اندوز ہوتا ہے اور ہمارے مولوي حضرات اسے یہ لطف اٹھانے کا پورا پورا موقع ديتے ہيں۔ مجھے سمجھ نہيں آتی کہ وہ يہ کيوں بھول جاتے ھيں کہ ہمارا يہ رويہ اسلام کی بدنامی کا باعث بنتا ہے۔ وہ لوگ جو ہماری مقدس شخصيات کے نام کے ساتہ غير اخلاقی باتيں منسوب کرتے ہيں، ہميں انہيں رسول خدا کہ یہ الفاظ ياد رکھتے ہوئے نظر انداز کر دينا چاہيے کہ ’ميں تو محمد ہوں یعنی تعريف کیا گيا يہ تو کسی برے کو برا کہتے ہيں‘۔