چلے بھی جاؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
جنرل ہیڈ کوارٹرز یا جی ایچ کیو جو پاکستان کے عوام کے محصولات اور ملکی بجٹ کا بھی بڑا حصہ کھا جاتا ہے، اسے اب کرنے کو صرف ایسے کام رہ گئے ہیں کہ ملک میں آزاد نظر آنے کی محض سر توڑ کوشش کرنے والے غیر سرکاری میڈیا پر اپنے گھوڑے چڑھا دے۔
بیگم نوازش علی کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ہے۔ پاکستان ایک سنسر شدہ ریاست بنا دی گئی ہے۔ ٹی وی کی چھوٹی سکرین پر عوام کو حکمران وہی کچھ دکھانا اور سنانا چاہتے ہیں جو وہ خود دیکھنا و سننا پسند کرتے ہیں۔ یعنی عوام کو بھی وہ سنواؤ جو تم خود دیکھنے اور سننے کے لیے منتخب کرو۔ یہی خادمان خوشامد کی پاکستانی اقتدار کے راج سنگھاسن پر بیٹھے ہوئے وردی پوش فرد واحد جنرل پرویز مشرف کی خوشنودی کے لیے نئی حدیث ٹھہری۔
پاکستان میں فوج اور فوجی حکمران بڑے طاقتور اور پھنے خان ہیں لیکن ’آج‘ ٹی وی پر بیگم نوازش علی کی تیز تند اور خوبصورت باتیں انہیں گرم آلو لگتی ہونگی۔ مجھے نہیں معلوم کہ لوگ پاکستان میں جس انقلاب کے خواب دیکھا کرتے تھے اس کا کوئی تعلق انقلاب ماتری سے تھا یا نہیں لیکن بیگم نوازش علی جیسے کردار شاید آنے والا وہ پاکستان ہے جو اب تک اپنے پیدا ہونے سے انکاری ہے۔ وہ ایک حساس و ذہین فنکار ہیں جو بینظیر بھٹو کی نقل بھی اصل سے اچھی طرح کرسکتے/ یا سکتی ہیں۔
پاکستان کی ملٹری اور ملا جو عورت کو حکومت اور امامت پر نہیں برداشت کر سکتے وہ علی سلیم جیسے ایک خوبصورت مرد کو عورت کے لباس میں کہاں برداشت کر سکتے تھے! کچھ کر بھی لیتے، لیکن بیگم کی باتیں اور کرنل کی باتیں، یادیں تھیں کہ ان پر گرم آلو!
’آج‘ ٹی وی واقعی حکمرانوں اور کراچی میں ان کے پیادے اور پرائيویٹ سپاہیوں کو بڑی تیزی سے ’کل‘ میں بدل رہا ہے۔ سارے کا سارا کریڈٹ بیلچوں سے ہر منٹ نوٹ سمیٹتے ہوئے پاکستان میں خانگي ٹی وی چینلوں کے سیٹھوں کو نہیں پر سر پھرے سچے صحافیوں اور علی سلیم جیسے فنکاروں کو جاتا ہے۔
جنرل صاحب! چلے بھی جاؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے۔۔۔
تبصرےتبصرہ کریں
حسن صاحب فکر نہ کريں گلشن کا کاروبار آگے بڑھنے کو ہے۔ آپ ديکھ نہيں رہے کيا کہ آپ کے ديس کی پيادے نئی ڈولی لے کر نيا دُولہا يا نئی دُولہن تيار کرنے کو پُوری طرح کمر کس کر ميدان ميں اُتر چُکے ہيں۔ اب نئے لوگ نئی قيادت اور نئے چہرے سامنے آيا ہی چاہتے ہيں، يعنی ميرے عزيز ہم وطنوں ڈرامے کی اگلی قسط بس تيار ہي ہے۔ ايسے ميں بيگم نوازش علی کی رُخصتی عمل ميں آئی تو اسے آپ ايک اتفاق بھی کہہ سکتے ہيں يا طاقتور کا وہ زور جو جس پر چل سکے وہ کارروائی بھی کہہ سکتے ہيں کہ ظاہر ہے آرمی بر سر اقتدار ہے تو کرنل ميجر کی بات کون کيسے کر سکتا ہے۔ سمجھا کريں آپ بھی۔ اب وہ علی سليم کے پردے ميں کوئی نازنين ہو يا نازنين کے پردے ميں علی سليم، بات ايک ہی ہے۔ ہوتا يہی سب کُچھ پہلے بھی تھا اب ذرا دکھتا زيادہ ہے يا جب صرف پي ٹی وی ہی ہُوا کرتا تھا اور ايک کی آواز دبانا آسان تھا اب ايک کو بند کرو تو دُوسرا سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ کبھی جيو تو کبھی آج، ان بڑوں کے آج کو کل ميں بدلنے کے لئے ، کل جو بس اب آيا ہی چاہتا ہے جانے والے ہيں يہ صاحب بہادر بھی۔
حسن صاحب آپ کو کون سے صحافيوں کی لسٹ ميں شامل کريں؟
آتے ہيں غيب سے يہ مضامين خيال ميں۔ کل حيات اللہ کو ظالموں کا شکار ہوئے اور لقمہ اجل بنے ايک سال ہو چکا ہے۔ آج ،آج کی بيگم کرنل نوازش علی (پروگرام کے حوالے سے) ان کا شکار ہوئے۔
جن کا دعویٰ ہے سنوارے ہيں بيابان کتنے
ان سے پوچھيں کہ اجاڑے ہيں گلستان کتنے
اب يقيناً علی سليم کو محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ اللہ ان کی حفاظت کرے اور ذوق سليمی والوں سے محفوظ رکھے۔
ميڈيا بھی تو رائی کا پہاڑ بنا رہا ہے۔ براہ کرم ہمارے ملک ميں خانہ جنگی نہ کرائيں۔ ميڈيا والے تصوير کے دونوں رخ دکھائيں۔ يک رخی تصوير نہ دکھائيں۔
’جنرل صاحب! چلے بھی جاؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے۔۔۔‘ ليکن کيسے؟ جنرل صاحب بھی اسی گلشن ميں جمے، پلے، بڑھے، کھيلے، کودے، پڑھے، جنرل بنے، لہذا ان کا بھی حق ہے اس گلشن پر، اس گلشن پر حکومت کرنے کا، اس گلشن سے اپنا کاروبار چلانے کا اور اپنی بات منوانے کا۔ يہ الگ بات ہے کہ ان کا طريقہ کار غير جمہوري ہے۔ فرض کرليا جنرل صاحب چلے گئے ہيں، تو ان کے جانے کے بعد جو خالص يا ناخالص ’جنرل صاحب‘ لوگوں پر وارد ہوں گے کيا انکے آنے سے گلشن کا کاروبار چل پڑے گا؟ ميرا خيال ہے نہيں۔ بات يہ ہے کہ فوجی حکومت کی موجودگی ميں ميڈيا کی آزادی کی بات کرنا بھينس کےآگے بين بجانا ہوتا ہے، جس سے صرف دل کی بھڑاس ہي نکلتی ہے نہ کہ جنرل نکلتا ہے۔ اور ويسے بھي دل کي بھڑاس نکالنا صحت کے ليئے اچھا ہوتا ہے۔
جناب! مشرف کو تو ابھی بھی یہی خبر ملتی ہے کہ نوے فیصد خاموش عوام اُن کی محبت میں قربان ہوئے جا رہی ہے۔ پہلے خوشامدی ٹولا جائے گا تو جنرل صاحب بھی اپنی وردی اُتار کر گھر جائیں گے۔
آج ٹي وی اس وقت پاکستان کا سب سے بہترين چينل ہے اور پاکستان ميں قانون و انصاف کی بالادستی کی جدوجہد ميں آج ٹی وی کا نام سنہری حروف ميں لکھا جائے گا۔
کبھی تو چھٹے گا فضا سے اندھيرا
کبھي تو مدھر چاندنی رات ہوگی
حسن مجتبٰی صاحب، اسلام و عليکم۔ عوام کے انتقام سے خوف زدہ وردی پوشوں نے اپنے خصوصی مفادات کے تحفظ کے لیے ميڈيا پر پابندی لگائی ہے۔ بيگم کرنل نوازش علی کا پروگرام بند کرايا جانا اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ ميڈيا کی تنقيد ان کو گرم آلو لگتے ہوں گے ورنہ يہ امريکی آلو اور شکر کندی کے بھی شوقين ہيں۔ کوتاہ نظر حکمرانوں کو کون سمجھائے کہ
حقير جان کر جن کو بجھا ديا تم نے
وہی چراغ جليں گے تو روشنی ہو گی
دعا گو
آصف محمود
امريکہ
چلے ہی جائیں گے بھائی کہ ساری عمر کو رہتا ہے کون، يہاں کون رہا ہے؟
ا س چمن کا کاروبار اس ہی طرح چلتا رہے گا۔ مشرف چلے بھی گئے تو ان جیسا کوئی اور آجائے گا۔ فرق صرف يہ ہوگا کہ کراچی ايک بار پھر سے فتح کرنے کا بيڑ ا اٹھائے گا تا کہ جن لوگوں کو کراچی کا امن کہٹکتا رہتا ہے ان کے د لوں کو ٹھنڈ ک پڑ جائے اور چور ڈا کو پھر سے لوٹ آ ئيں۔ ان کا کاروبار پھر سے شروع ہو جائے گا۔ يہ چمن اسی طرح لٹتا رہے گا۔
بلا شبہ قوم جنرل صاحب کی رخصتی پر متفق ہے۔ مگر سب سے اہم سوال يہ ہے کہ کنگ ميکر اب کے تاج کس کے سر پر رکھيں گے؟ اس موضوع پر گھر ميں گرما گرم بحث جاری تھي، شرکائے بحث کی اکثريت کا خيال تھا کہ فيصلہ پی پی پی کے حق ميں ہوگا۔ پاس بيٹھی دادی اماں ٹھنڈی آہ بھر کر بوليں ’ہائے پھر اوہی بے نجير‘
حکومت اب بيگم نوازش (علی سليم) سے خوفزدہ ہے۔ لگتا ہے اب ان کا اللہ ہی حافظ ہے۔
حسن بھائی اچھی تاويل پيش کی آپ نے۔ يقيناً خوشنودی کے لیے فوجی حکمرانوں نے جو حديث ٹھہرائی ہے وہ قابل تعريف نہيں ہو سکتی۔ ويسے باؤچر اور نيگرو پونٹے کا دورہ پاکستان کيا اس بات کی علامت نہيں ہے کہ يہ وردی پوش فرد واحد نہيں ہے بلکہ امريکہ جيسی طاقت اس کے پيچھے ہے؟ مگر ساتھ ہی فيصل آباد کی ريلی اميد بھی بندھاتی ہے کہ يقيناً وہ دن آئے گا جب لوگ زير لب نہيں بلکہ سر عام کہتے نظر آئیں گے کہ
’ْبڑے بے آبرو ہوکر مرے کوچے سے تم نکلے‘
حسن صاحب کيا بات کر رہے ہيں آپ بھي۔گُلشن اگر ہے تو گُل کے ساتھ بُلبُل مع نالہ، فاختہ کے ساتھ کائيں کائيں، شگُوفوں کی چٹک کے ساتھ گُل چيں، طاؤس کے ساتھ کرگس معاف۔۔۔ کيجیے گا شاہين کا ذِکر نہ کر پاؤں گا کہ اُس کا جہاں اور ہے اور وہ شِکروں کی طرح بےرحم نہيں۔
جرنيلوں کو طاقت اور روپے کا چسکا لگ چکا ہے۔ باقی کسر نااہل سياستدان ان کی گود ميں بيٹھ کر پوری کر ديتے ہيں۔ 71ء اور کارگل انکي ’قابليت‘ کا پول کھولنے کو کافی ہيں۔ مگر اسلام آباد فتح کرنے ميں کافی تاک ہو چکے ہیں۔ مجھے مستقبل ميں بھی قوم ان کی دستبرد سے بچتی نہيں دکھتی۔ کاش ايسا نہ ہو۔