’کور کمانڈر چور کمانڈر‘
آج کل پاکستان سے باہر احمد فراز کی ’مبینہ‘ تازہ نظم ’کور کمانڈر چور کمانڈر‘ کا بڑا شہرہ ہے۔ لیکن پاکستان کے اندر تانہ شاہی کا تازہ کلام یہ ہے کہ پاکستانی فوج کے کور کمانڈروں کے اجلاس میں فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف سے وفاداری کا اعلان کیا گیا ہے۔ گویا کہ کور کمانڈروں کی اپنے ’چیف صاحب‘ سے وفاداری پر کسی کو شک تھا!
پاکستان میں حکومتوں کے آخری دن اس غزل کے مصرع کی طرح ہوتے ہیں
’اب نزع کا عالم ہے تم اپنی محبت واپس لو‘
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف حزب مخالف پی این اے یا پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کے دنوں میں بھی کمانڈر تو کجا تینوں فوجوں کے سربراہوں نے اپنے ’سپریم کمانڈر‘ بھٹو سے وفاداری کا اعلان قرآن پر حلفیہ کیا تھا۔ لیکن کچھ دنوں بعد آپ نے دیکھا کہ وطن کے ساتھ ’عزیز ہم وطنو! اسلام علیکم‘ ہوگیا۔ پاکستان پر عذاب جنرل ضیاء الحق کی شکل میں نازل ہوا۔ تب سے پاکستان کے خدا کور کمانڈر بنے ہوئے ہیں جنہیں لوگ ’کروڑ کمانڈر‘ کہتے ہیں۔ کور نو، کور پانچ، کور گیارہ اور پتہ نہیں کن کورز کے کمانڈر ہی اصل میں پاکستان کی پارلیمان بنے ہوتے ہیں۔ یہ کور کمانڈر نہ آئين سے، نہ پارلیمان سے، نہ قانون سے اور نہ ہی ملک سے پر ایک مطلق العنان حکمران فرد واحد سے خود کو وفادار کہتے ہیں۔
ضیاءا لحق کے دنوں میں انہوں نے کہا تھا کہ ’اسلامائيزیشن‘ ابھی نامکمل تھی اور اب کور کمانڈروں نے کہا ہے کہ ’اعتدال پسندی اور روشنخیالی‘ ابھی ملک میں نامکمل ہے۔ کور کمانڈروں کی ایک اپنی مسلح اور منظم سیاسی پارٹی ہے۔ ایک بھان متی کا کنبہ ہیں۔ مستقل مفادات ہیں۔ لیکن اس سے بلوچ کور کمانڈر باہر تھا!
لیکن جنگل کے قانون والے ملک کے بڑے شہر کراچی میں کور فائیو کے کمانڈر کو بھی اپنا پاور لندن والی دسویں کور سے شیئر کرنا پڑ رہا ہے!
پاکستان کے لوگو مبارک ہو کہ طالبان، جہادیوں، اور لسانی گروہوں کو گود میں بٹھا کر کھلانے والے سب کے سب کور کمانڈر اب راتوں رات روشنخیال او ر اعتدال پسند ہوگئے ہیں۔
تبصرےتبصرہ کریں
يا را سنبھل کے
سر يہ کتنی عجيب بات ہے کے ايک پر ساری فوج اعتمادکر رہی ہے مگر وہ کسی ايک پر اعتماد کرنے کو تيار نہيں ہے کيا اتنے بہت سارےآرمی افسران ميں ايک بھی نيا آرمی چيف بننے کا اہل نہيں ہے اس پر آپ نے کچھ نہيں لکھا
آپ بھی دور کی کوڑی لا تے ھیں مگر مزا تو تب ھے کہ کوئی عملی حل لائے۔۔۔۔؟
قائداعظم نے فوجی دربار سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ رياست کے ملازم ہيں، آپ کا کام حکمرانی کرنا نہيں بلکہ ملکی سرحدوں کا دفاع کرنا ہے اور عوامي نمايندوں کا حکم ماننا ہے۔
پچھلے دنوں چيف جسٹس کے حق ميں احتجاج ہواجس ميں ايک بينر پر لکھا ہوا تھا ’اے وطن کے سجيلے جرنيلو! سارے رقبے تمہارے ليے ہيں‘۔ يہ نظم اسی کا نچوڑ ہے۔ کور کمانڈروں نے لگتا ہے، اجلاس ميں صرف ’يس سر‘ کہا ہے۔ ہر حکومت کو لانے اور رخصت کرنے ميں کمانڈروں کا کافی ہاتھ رہا ہے، خاص کر نواز اور نظير ادوار ميں۔ ہمارے سياست دان ايک دوسرے کو برادشت نہيں کرتے اور اپوزيشن انہی سے رابطہ کرتی ہےاور يہ ہميشہ اپوزيشن سے۔ جبکہ دونوں ہی مجرم ہوتے ہيں مگرقانون ان دونوں کے بارے ميں چپ رہتا ہے۔ ہر حکومت پر لوٹ مار اور کرپشن کے الزامات عائد ہوئے مگراس فوجی نما جمہوريت نے کسی کو سزا نہيں دی جو اسکےايجنڈے ميں شامل تھا۔
پاکستان ميں فوجی حکومت کا برسر اقتدار ہونا اس بات کا واضح دليل ہے کہ فوجيوں کی آپس ميں باہمی مفاہمت ہے۔ ويسے بھی جو کورکمانڈنٹ کے منصب پر فائز ہيں، ان کے اپنے ذاتی مفادات بھی اس ميں شامل ہيں۔ سروس ميں ہوں يا ريٹائرمنٹ کے بعد ان کو جو سہوليات ميسر ہوتی ہيں جيسے کہ پلاٹ اور عکسری سکيم ميں بنگلے اور زرعی اراضی، آرمی ميں بزنس انویسٹمنٹ اور تو اور سول ميں اعلی عہدوں پر تقرر ان کی ذاتی اپروچ کا مرہون منت ہوتا ہے۔ بالخصوص دوران ٹرينگ افسران فوج کو سکھايا اور ان کے مزاج ميں ڈالا جاتا ہے کہ وہ سول اور ان کی انتظاميہ سے بالا تر ہيں۔
سلام مجبتبیٰ! اتنا’ہاٹ‘ بلاگ لکھنے پر تمہارا تو اہہ ہی حافظ، بچ کے رہنا رے بابا بچ کے رہنا رے۔۔۔۔
کيا با ت ہے آپ کي، اب کور کمانڈرز کو بھی ديوار پے لکھا پڑھ لينا چاہيے!!!!!!
یہ مجتبی ہائے اللہ کیسا ہے دیوانا!
حسن بھا ئی! اتنا گرماگرم بلاگ کھولنے کے باوجود آپ ’غائب‘ نہيں ہوئے۔ لگ جاتا پتہ جو ہوتے آپ پاکستان ميں۔۔۔ کورکمانڈرز کی آپ نے بات کی اس ميں حيرانی کی کيا بات ہے وہ کيوں بوليں۔ سب ايک ہی ’دسترخوان‘ پر بيٹھے پلاٹ اور رقبے ٹھونس رہے ہيں۔۔۔ اب تو کور کمانڈرز کانفرنس ميں بھی عہدے، رقبے، پلازے، بنک، شوگر و سيمنٹ ملز اور ہاؤسنگ سکيمز پر بحث ھوتی ہے۔ جلد ھی ان ’مسائل‘ کی تکميل کے ليے ’پلازہ بريگيڈ، بنک بريگيڈ، سيمنٹ بريگيڈ‘ اور ديگر کئی بريگيڈز کا قيام عمل ميں آئيگا۔ اتنا تو ’کام‘ کر رہی ہے ھماری ’بےباک آرمي‘ پھر بھی آپ جيسے لوگ نجانے کيوں ناخوش ہيں۔
ايک دور تھا کہ پاک فوج قوم کے اتحاد کی علامت تھی۔ آج اس ملک کے عوام پاک فوج پر تنقيد کر رھے ھيں۔ يہ پاک فوج کے ليے اک لمحہِ فکريہ ہے۔
پاکستا ن ميں جب بھی کو ئی مسئلہ اگر آتا ہے تو کور کمان کی صو رت ميں آ تا ہے۔ 12 مئی کا مسئلہ کرا چی کی کورکمان اور لندن کی کورکمان کی مشترکہ منصوبہ بندی تھی، جو آج تک کراچی کے عوا م بھگت رھے ھیں۔ اگر 12 مئی کے واقعا ت کی آزادانہ تحقيقا ت کيجائے جو ناممکن ہے تو بہت سے حقائق سامنے آئینگے۔
بھائی يہ نظم کہيں پڑھنے کو ميسر ہو تو برائے مہربانی ہميں بھی بھيج ديں۔
جو فوج پلازے ، کالونیاں بنائے اس نے ملک کا دفاع خاک کرنا ھے۔