انسانیت کا سمندر
قوموں کا انسانیت میں گھل مِل جانا شاید ایسا ہی ہے جیسا دریاؤں کا سمندر میں گِر جانا۔
ایک مؤرخ نےہندوستان کی تاریخ پر اپنی کتاب دی فیلٹ کمیونٹی
(The Felt Community) کا اختتام اس امید پر کیا ہے کہ ’جوں جوں معاشرے کی جذبات سے بھری کمیونٹی میں شعور اور مساوی حقوق کا احساس بڑھے گا، فاصلے ختم ہوں گے اور ایک کمیونٹی پیدا ہو گی جو انسانیت میں گھل مِل جائے گی‘۔
یہ جملہ پڑھ کر بہت مزہ آیا بلکہ انتہائی تازگی کا احساس ہوا۔ کتاب رکھی تو میری نظر کھڑکی سے باہر کے منظر پر جا ٹِکی۔ جھومتی ٹہنیاں، پس منظر میں نیلے آسمان کی جھلکیاں اور تیرتے ہوئے بادلوں نے لطف دوبالا کر دیا۔ دنیا کے کسی بھی خطے سے تعلق رکھنے والے، کسی بھی رنگ اور نسل کے انسان کے لیے اس منظر میں وہی رنگ تھے جو مجھے نظر آئے۔
قوموں کا انسانیت میں گھل مِل جانا شاید ایسا ہی ہے جیسا دریاؤں کا سمندر میں گِر جانا۔ اس بات میں مجھے چولستان کے اس گڈریئے کے لیے خوشی کی نوید نظر آتی ہے جسے انڈیا پاکستان کی سرحد پر باڑ لگنے سے جانوروں کے لیے پیدا ہونے والی مشکلات کا احساس کھائے جا رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ خشک سالی کے موسم میں جانور ایسی آبگاہوں کی طرف جانا چاہتے ہیں جو باڑ کے اس پار ہیں لیکن اب ان کی پہنچ میں نہیں۔ اس کے الفاظ تھے کہ ’سائیں انہیں جب سرحد پار سے پانی کی خوشبو آتی ہے تو باڑ سے سر ٹکرا ٹکرا کر جان دے دیتے ہیں‘۔
تبصرےتبصرہ کریں
اسد صاحب زندگی کی تلخ حقيقتوں کے بيچ ايک خُوشگوارٹھنڈی ہوا کے تازہ جھونکے کی طرح کا سيدھا سچا بلاگ جو دل کو چُھو گيا ہے۔ خاص طور پر آخری لائن نے تو پلکوں پر نمی ٹھہرا دی ہے کہ
„سائيں انہيں جب سرحد پار سے پانی کی خوشبو آتی ہے تو باڑ سے سر ٹکرا ٹکرا کر جان دے ديتے ہيں „
يہ لائن تو حاصل بلاگ ہے جيسے اچھا شعر حاصل غزل ہُوا کرتا ہے ،انسانوں کو بھی تو ايسے ہی اپنے پياروں کی دُور ديس سے آتی خوشبو پاگل کرتی ہوگی نا،کون جانے کس نے بنائيں يہ سرحديں اور باڑيں اور ان پر مُقرر کۓ يہ نگہبان ، وزير اور بادشاہ،کون جانے
خوش رہيں
شاہدہ اکرم
اسد چودھری صاحب بڑی دير بعد ايک خوشگوار بلاگ کے ساتھ آپ کی آمد اچھی لگی- اچھا موضوع اٹھايا ہے آپ نے مگر ہمارے يہ حکمران ہمارے جذبات کو کہاں سمجھتے ہيں اگر سمجھتے ہوتے تو آج يہ جانور اس طرح نہ مرتے - ويسے جو لوگ انسانوں کی بھی قدر کرنا نہ جانتے ہوں انہيں جانوروں سے کيا لينا دينا !!
خيرانديش سجادالحسنين حيدرآباد دکن
اسد بھائی، سلام عرض اور التماسِ دعا
خوش آمديد ۔۔ کافی عرصے بعد آپ کا بلاگ زينتِ بزم ہوا ، اچھا لگا۔ آپ کا ہميشہ سے ايک ہی خواب ہے کہ لوگوں کو ايک کرديں، سرحدوں کو نرم کرديں صرف نرم ہی نہيں ختم ہی کردیں۔ ، ميري دعا ہے خدا آپ کو خوابوں کو حقيقت ميں بدل دے ۔ يہ دنيا تو سبدِ گل ہے اور اس ميں رنگ برنگے پھول ہی خوبصورت لگتے ہيں اور سجتے ہيں ۔
وہ زندگی جو اصل ميں ہے اصلِ زندگی
قائم ہے جس کے دم سے ہے محبت کی روشنی۔
بس اسی طرح دنيا کو ايک کرنے کا وظيفہ ادا کرتے رہيں ، خدا آپ کو اپنے مقصد ميں کامياب کرے ۔
خير انديش
سيد رضا
اسد بھائی کيوں بور کرتے رہتے ہو يار ـ ـ ـ ـ ـ
آداب عرض! جناب!انسان اس دنياميں صرف اچھائی لے کر آتا ہے.جب گھر کے آنگن سے باہر کھيلنے کو جاتا ہے تو ظالم دنياں اسے احساس محرومی ديتی ہے ،مثال ،پرے ہو ساڈے بھانڈے پليت،کاش کہ انسان نفرت کی اس باڑ کو ختم کرے تو سب کے بچے کھلی فضا ميں سانس ليں.
اس باڈر نے سب کے دل کو بہت گہرا دکھ ديا ہے.
شکريہ.
لانگ ٹائم ، نو سی !
اميد ہے آپ بخريت رہے ہوں گے - سرحدوں کي نرمي سے بڑھ کر مستقل امن کي اور کيا علامت ہوسکتي ہے۔ سچ پوچھيۓ تو ايک دن ہر جگہ يہی ہو کر رہنا ہے - صدي بھر کے تناؤ اور خون خرابے کے بعد اہل يورپ تو قائل ہو چکے ہيں اس بات کے - ليکن باقي ، کسي صورت مائل نظر نہيں آ تے - آيۓ اميد رکھيں وہ بھی جلد سمجھ جائيں گے ... کسي اگلي صدي کا انتظار کۓ بغير -
دعاگو
رضا
اسد چودھری صاحب
آپ سے گلہ ہے کہ بہت دير کر ديتے ہيں پياسے آپ کی شبنم کی انتظار ميں ٹکريں مارتے پھرتے ہيں - باڑيں لگانے اور باؤنڈرياں قائم رکھنے والے اپنی اپنی نوکرياں پکی کرتے ہيں کوئی جيۓ مرے ان کی بلا سے-
مخلص
آصف محمود
آج جب ہر قوم اپنے مفادات کے حصول کی خاطر کسی سمجھوتے کو تيار نہيں تو آپ کے بلاگ لکھنے کے پيچھے جو سوچ کارفرما ہے بے معنی سی لگتی ہے پر وہ کيا نہ پيوستہ رہ شجر سے اميد بہار رکھ
جناب اسد علی چودھری صاحب
آپ نے بڑے حساس موضوع کا انتخاب کيا ہے-ہم نے ديکھا ہے کہ ان باڑوں کو جانور تو کيا، انسان نےبھی کبھی پسند نہيں کيا-ہمارے زہن ميں وہ منظر ابھی تک نقش ہيں جب دو جرمنيوں کی ديوار توڑی گئی تھي-انسانوں کے ايک جم غفير نے اس ديوار کو پاش پاش کر کے ھميشہ کے ليے ايسی ديواروں اور باڑوں کے خلاف اپنی نفرت رقم کی تھي-
انسانيت تو اک جزبہ ہے اک خوشبو ہے اسے ديواريں يا باڑيں پابند نہيں کر سکتيں-
مگر پھر انسانيت کو ايک تاريک اور گھناؤنا منظر ديکھنا پڑتا ہے - جب انسان ، انسانيت کا خون کرتے ہيں- نہ ان کو کسي معصوم بچے کا چہرہ ، نہ کسي ماں کي محبت ، نہ کسي ناري کا پيار ان کے گھناؤنے ارادوں سے باز رکھتا ہے -اور انسانيت سسکتی ہے کراہتی ہے-
پھر انسان انہيں انسانوں کو ان کے مضموم ارادوں کے سامنے پل باندھنے کے جتن کرتا ہے- پھر انسان کو باڑيں لگانا پڑتی ہيں-