غریبوں کا لائف سٹائل
حال میں ایک اردو ٹیلی وژن چینل پر ایک پروگرام دیکھا جس میں میزبان حسینہ نے بہت خوشی سے ناظرین کو بتایا کہ ’آج ہم آپ کو مزدوروں کی لائف سٹائل کے بارے میں بتائیں گے‘۔
پھر وہ ایک گلی میں جا کر ایک معمولی سے ہوٹل کے سامنے کھڑی ہو گئیں جہاں انہوں نے بےحد خوشی سے کہا: ’دیکھیے ! یہ ڈھابہ ہے، اصلی ڈھابہ‘۔
اس کے بعد وہ ہوٹل میں گھس گئیں اور انہوں نے وہاں کھانے میں مصروف لوگوں کو پریشان کیا۔ ’آپ کیا کھا رہے ہیں؟ آپ دال کیوں کھا رہے ہیں؟ آپ یہاں آکر کیوں کھاتے ہیں؟‘ وغیرہ وغیرہ۔
لوگ ان کے ساتھ کافی تمیز سے پیش آئے۔ کسی نے پلٹ کر یہ نہیں کہا کہ ہم دال اس لیے کھا رہے ہیں کہ ہم گوشت نہیں کھا سکتے، یا ہم یہاں اس لیے آتے ہیں کہ ہم شیرٹن ہوٹل نہیں جا سکتے۔ ان لوگوں کے صبر و تحمل کو داد دینا ضروری ہے۔
اس کے بعد انہوں نے لنڈا بازار میں لوگوں کے انٹرویو کرنے شروع کر دیئے اور ایک خریدار سے پوچھا ’کسی اور کے پرانے پہنے ہوئے کپڑے تو نہیں پہننے چاہییں، آپ کا اس بارے میں کیا خیال ہے؟‘
میزبان حسینہ نے فُل سکرین میک اپ کر رکھا تھا اور مغربی نمونے کی قمیض میں ملبوس تھیں۔ ان کا لباس اور ان کے سوالات دونوں ان کی بے حسی کا اظہار کر رہے تھے۔
آخر غربت ایک ’لائف سٹائل‘ کب سے بن گیا؟
اور کیا ہمارا عام لوگوں کو ہمدردی سے نہیں دکھا سکتا بجائے اس کے کہ ان کو ایک کے طور پر پیش کریں؟
تبصرےتبصرہ کریں
عنبر خيری صاحبہ! اس بيان کردہ تضاد کو دل و دماغ سے محسوس کرتے ہوئے يہاں بيان کرنے کا شکريہ! بات دراصل يہ ہے کہ جب سے نت نئے ٹی وی چينلز کی بھر مار ہوئي ہے تو اس طرح کے کئی ايک پيش کار اورميزبانوں نے منہ بنا سنوار کر بلکہ منہ بگاڑ بگاڑ کر ’منگلش‘ يعنی مکس گلابی اردو انگلش بولتے ہوئے قطعی غير پروفيشنل انداز ميں پروگرام پيش کرنا شروع کيے ہيں کہ آپ جيسے باريک بين اور حساس لوگوں کو پل پل اس صحافتی بدديانتی پر افسوس ہوتا ہے۔ويسے پتے کی بات بتاؤں اس برگر نسل کی تربيت ہی کچھ ايسی ہوئی ہے کہ اس کا کوئي کچھ نہيں بگاڑ سکتا۔
کسي کي غربت کا مذاق ارانا کيا اچھی بات ہے؟
ميڈيا پر جن چند ديسی انگريزون کا قبضہ ہے جو صرف منہ ٹيڑھا کر کے انگلش بولنے کے سوا کچھ نہين کر سکتے وہ ايک عام غريب آدمی کے رہن سہن کو کس طرح جانچ سکتے ہيں ان کے ليے تو مقصد تو پروگرام کرنا اور پيسہ جيب ميں ڈالنا ہے ـ ميڈيا کا تو يہ فرض ہے کہ وہ اس غربت کی چکی ميں پسے ہوے پاکستان کے اس حقيقی منظر کو کردارون کو حقيقت کے قريب تر لا کر دنيا اور حکومت کے سامنے پيش کرے۔نہ کہ بديسی روپ دھار کر ان کا تمسخر اڑايا جاے اور خاص طور پر اس بات کو مد نظر رکھا جاے کہ جو ان لوگون کے احساسات جاننے کيليے پروگرام کرے وہ کم سے کم ان کا حقيقی ترجمان ہو جو واقعی ڈھابہ ہوٹل کے کھانون کا مزہ چکھ چکا ہو
زندگی کس قدر تکليف دہ ہو گئ ہے ميں نے گرچہ يہ دکھتا پروگرام نہيں ديکھا مگر آفريں ہے اس حسينہ کو جو بغير کچھ سوچے اس پروگرام کو پيش کر کے غريبوں کا مذاق اڑا گئ جو اس وقت اس ملک کا حال ھے ھم متوسط لوگ بھی اگر دوپہر کا کھانا دفتر ميں کھاتے ھيں تو رات کا پکا ھوا اور رات کے کھانے مين اگر 3 دن گوشت ھے تو 4 دن سبزی اور دال کھا کر گزارہ کرتے ھيں
قيا مت کی نشا ني
معذرت کے ساتھ اتنا اچھا بلاگ لکھنے کی آپ سے اميد يا توقع نہيں تھی
عنبر جی! اپ کو خوشی ہو نی چاہئے کہ حسینہ نے مزدوروں کے لائف کی پات کہ ہے۔ انھوں نے یہ نہی کہ دیا اج اپ کو نان ہیومین لوگوں کا لائف سٹائل دیکھاتے ہیں۔
آپکا يہ بلاگ دل کو چھُو گيا ۔ پاکستان کی *اشرافيہ (ايليٹ کلاس) کا ہميشہ سے يہ الميہ رہا ہے کہ اعلٰی ظرفی سے محروم يہ طبقہ اپنے مفادات کی خاطر کوئی بھی گھٹيا سے گھٹيا حرکت کرنے سے بھی باز نہيں آئيں گے ۔ مثال کے طور پہ پاکستان ميں قبضہ گروپ کے اپنے تئيں عوامی ليڈر محض اپنے دستر خوان کی رونقيں آباد رکھنے کے ليئے جو کہ صرف جنرل کے باوردی اقتدار سے وابستہ ہيں اور جنرل موصوف کو ايک يا دو بار نہيں بلکہ دس بار باوردی صدر قائم رکھنے کی باتيں اور اعلانات اتنے تواتر سے کرتے دکھائی ديتے ہيں کہ ان سے گھن آتی ہے اور ستم ظريفی يہ کہ انکو بھی پتہ کہ انکی کمينگی کی وجہ سے عام عوام ان سے کراھت محسوس کرتے ہيں مگر مجال ہے کہ انکی ڈھٹائی ميں فرق آيا ہو۔ جس سوسائٹی ميں *اشرافيہ محض اپنے دسترخوان کی رونقيں آباد رکھنے کے لئيے معصوم اور مجبور لوگوں کی لاشيں گرانے سے بھی نا چُوکے جہاں اپنے مفادات کی خاطر ہر اخلاقی قانونی مذھبی حد پھلانگ جانے والی بے حس اور بے ضمير ** اشرافيہ موجود ہو وہاں ٹیلی وژن پروگرام کے اس طرع کی میزبان کے وجود ميں آنے پہ حيرت نہيں ہوتي کہ جب کسی ِ معاش بلکہ فلسفہِ حيات ہی ُشارٹ کٹ، کے گرد گھومتا ہو تواہليت، قابليت اور حکمت کو بيوقوفی سمجھا جائے تو شہروں آباديوں اور ملکوں پہ محترمہ موصوفہ جيسی عجیب و غریب مخلوق قابض ہو جاتی ہے جو کسی بھی قوم کے زوال کا آعاز سمجھا جاتا ہے
جاويد گوندل، بآرسيلونا۔ اسپين
جی آپ نے درست کہا کہ ہمارے ملک میں غریب آدمی کی کوئی ذاتی زندگی نہیں ہوتی اُس بیچارے کو تو جہاں ہے جیسے ہے کی بنیاد پر جو کچھ ملتا ہے وہ لینے اور کھانے کے لئے مجبور ہے۔
جہاں یک بات ٹی وی کے پروگرام کی ہے آپ صحیح کہتی ہیں کہ یہ ایک غریب آدمی کا مذاق اُڑانے کی بات ہے نہیں تو کون ہے جو دِن میں تین بار دال کھانے کو پسند کرتا ہے یا کسی کے اُترے ہوئے کپڑے پہننا پسند کرتا ہے۔
ہمارے ملک میں تو اگر کوئی غریب آدمی مٹی کی ہانڈی میں کھانا کھائے تو اس لئے کہ وہ غریب ہے اور اگر کوئی امیر آدمی مٹی کی ہانڈی میں کھا نا کھائے تو وہ سٹائل بن جا تا ہے فیشن بن جاتا ہے
جیسا کہ آج کل پر اچھے بڑے ہوٹل میں ہوتا ہے ٰ ہانڈی گوشتٰ
اسی طرح جب غرحب آدمی پھٹے ہوئے کپڑے پہنتا ہے تو وہ غریب اور جب امیر عورتیں جگہ جگہ سے پھٹے کپڑے پہنے تو وہ فیشن۔
اسی کا نام ہے بے حسی جو ہم سب میں ہے مجھ میں بھی
محترمہ بہن عنبر خيری صاحبہ
سرمايہ دارانہ نظام ميں ميڈيا سميت سبھی شعبے جس رنگ ميں رنگے گۓ ہيں اس کی جھلک دکھانے پر شکريہ-
ٹی وی رکھنے اور کيبل چينل افورڈ کرنے والوں ميں سے بہت سوں کو غريبوں اور فاقہ کش طبقے کی حالت کا احساس ہی نہيں- کمرشلائزڈ پرائيويٹ چينلز بھی غريبوں کی اوقات کا مزاق اڑاتے ہيں-
اقبال اللہ سے مخاطب ہو کر فرماتے ہيں-
تو قادر و مقدور ہے پر تيرے جہاں ميں
ہيں تلخ بہت بندہ ِ مزدور کے اوقات
اپنا خيال رکھيے گا
مياں آصف محمود
ميريلينڈ
امريکہ
آيندھ کسی پرگرام ميں يہ ”حسينہ” کسی بزرگ دانشور کے ساتہ بيٹھی غريبوں کے ”مسائل” حل کر رہی ہو نگی -