مسئلے کا تیسرا رخ
انیس سو اٹھانوے کی مردم شماری کے مطابق اسلام آباد کی آبادی ساڑھے نو لاکھ ہے۔ اگر گزشتہ نو برس کی قدرتی بڑھوتری اور نقلِ مکانی کے عمل کو شامل کرلیا جائے تو اس وقت اسلام آباد اور اس کے گردونواح میں کم ازکم پندرہ لاکھ نفوس رہ رہے ہیں۔
جب یہ شہر بنایا جارھا تھا تو اوریجنل ماسٹر پلان میں کوئی ٹریفک سگنل نہیں تھا۔ یہ تصور نہیں تھا کہ شہر کے اندر اور باہر کوئی کچی آبادی ہوگی۔ کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی نئے شہر کی مجازی خدا تھی جس کی مرضی کے بغیر کوئی اضافی اینٹ نہیں رکھی جاسکتی تھی۔ کسی بلڈنگ میں کوئی اضافی منزل بلا اجازت بڑھائی نہیں جاسکتی تھی۔ کوئی درخت نہیں کاٹا جا سکتا تھا۔ ماحولیاتی توازن قائم رکھنے کے لئے بڑی بڑی گرین بیلٹس چھوڑی گئی تھیں اور انکی تقدیس ہر ایک پر لازم تھی۔
لیکن پھر وہی ہوا جو ہو ہی جاتا ہے۔ آج کا اسلام آباد کچی آبادیوں سے گھر چکا ہے۔ سڑکیں چوڑی کرنے کے لئے پچھتر ہزار درخت کاٹے جا چکے ہیں۔ مارگلہ ہل کمرشل ازم کی نذر ہوگیا ہے۔ گرین بیلٹس پر میگا پروجیکٹس بن رہے ہیں۔ پورے پورے سیکٹر فوجی ہیڈ کوارٹرز اور کالونیوں کے لئے کوڑیوں کے بھاؤ مختص ہوچکے ہیں۔ اندازہ ہے کہ اگر یہی زمین کمرشل ریٹ پر الاٹ کی جاتی تو سی ڈی اے کو تقریباً پانچ ارب روپے کی اضافی آمدنی ہوسکتی تھی۔
لیکن سب سے گمبھیر مسئلہ یہ بتایا جارہا ہے کہ اس شہر میں بیاسی غیر قانونی مساجد سرکاری زمین پر بن چکی ہیں اور لال مسجد جسے سی ڈی اے نے صرف ڈھائی سو مربع گز کا پلاٹ الاٹ کیا تھا اب ازخود ماشااللہ سات ہزار آٹھ سو پچاس مربع گز پر ایک کمپلیکس کی شکل اختیار کرچکی ہے۔
مورل آف دا سٹوری:
اگر حکمران کسی گاؤں سے نمک بھی ادھار مانگے گا تو اسکی سپاہ کو گاؤں کے سارے جانور بھون کر کھانے کا حوصلہ ہوجائے گا۔
تبصرےتبصرہ کریں
بھائی وسعت اللہ صاحب،
مجھے يقين ہے آپ چوتھی سمت ديکھنے کی قدرت بھی رکھتے ہيں، اگر رفتار يہی رہی تو باقی سفر طے کرنن ميں کتنا وقت رہ گيا ہے، اس سمت ميں جدھر ہمارے چارہ گر لے جا رہے ہيں۔
وسعت بھائی اصل مسئلہ بھی تو يہی ہے نا کہ ہر کوئی وسعت چاہتا ہے چاہے ٹوپی والا ہو يا پگڑی والا۔