وہ شورِ نغمہ ہے اُس کی گلی میں۔۔۔
میں اب سوچ رہا ہوں کہ لال مسجد اگر پنجگور، خضدار یا کوئٹہ میں ہوتی تو مولانا عبدالعزیز اور ان کے چھوٹے بھائی غازی عبدالرشید کا کیا ہوتا۔
ویسے اندر ہی اندر دونوں بھائی چودھری شجاعت حسین کا سامنا کرنے سے ڈر تو رہے ہوں گے کیونکہ چودھری صاحب جہاں بھی مداخلت کرتے ہیں مسئلہ حل ضرور ہوتا ہے۔ جیسے انہوں نے اکبر بگٹی سے ملاقات کی اور کچھ عرصہ بعد اکبر بگٹی کی باقیات اس ڈبے میں بند ہو گئیں جس پر دو تالے لگے ہوئے تھے۔ یا جیسے اُن کی وزارتِ داخلہ کے زمانے میں ہوا، جب گجرات سے آئے ہوئے لوگوں نے سپریم کورٹ کی عمارت پر دھاوا بولا اور جسٹس سجاد علی شاہ کا مسئلہ صدر فاروق لغاری سمیت سلجھا کے رکھ دیا۔
سرائیکی کی ایک مثال ہے کہ جہاں سائیں کا پاؤں پڑتا ہے گھاس بھی مارے ڈر کے نہیں اُگتی۔
بھلا ہو لال مسجد میں لگائے جانے والے تھیٹر کا جس کے نتیجے میں جسٹس افتخار چودھری کا معاملہ فی الوقت اخبارات کے اندرونی صفحات اور بیک پیج پر منتقل ہو گیا ہے۔ جسٹس افتخار چودھری یقیناً ٹھوری پر ہاتھ رکھ کر سوچ رہے ہوں گے کہ:
وہ شورِ نغمہ ہے اُس کی گلی میں
میری فریاد ماری جا رہی ہے
تبصرےتبصرہ کریں
آپ کے بلاگ پر تبصرہ کيا کرنا بس بے اختيار پيار آتا ہے
پتہ نہيں ميری يہ تعريف شائع ہو گی بھی کہ نہيں کيونکہ مجھے شک سا ہے کہ بی بی سی کی سوچی سمجھی پا ليسی ہے کہ کچھ بھی ہو جائے
کتنا ہی اچھا کام دنيا ميں کيو ں نہ ہو جا ئے کسی کی تعريف نہيں کرنی اور اس عادت مں بی بی سی کو ا ب اتنا کمال حا صل ہو چکا ہے کہ اب اپنی تعريف بھی پسند نہيں کہنا ميں يہ چا ہتا ہوں کہ ميں آپ کا بڑا فين ہوں
وسعت صاحب - آپ تو جانتے ہيں کہ ”نقلی پرندے” کی بلند پروازی کی حد کہاں تک ہوتي ہے
بالکل سچ، سب جانتے ہیں کہ اس ڈرامے کی ہدایت کاری کہاں سے ہو رہی ہے۔
وُسعت بھائی کيا يہ سب کُچھ ايک ہي سلسلے کی کڑ ياں نہيں ہيں؟ ايک کام شروع کيا جاتا ہے اور پھر ابھی وہ کام ادُھورا ہی ہوتا ہے کہ ايک نيا شوشہ چھوڑ ديا جاتا ہے۔ لائبريری پر قبضہ ،پھر جسٹس افتخار کا کيس، جيو پر حملہ اُس کے بعد وُکلاء کی ہڑتاليں، شميم اختر کا کيس اور اب يہ لال مسجد کی گھاتيں۔ اب پارہ چنار، کيا کسی بہت بڑے آتش فشاں کے پھٹ پڑنے سے پہلے کي کوئی انہونی تو نہيں جو ہميں ايک راہ سے دُوسری راہ تک بھٹکائے جا رہی ہے؟ تا کہ ہم اندر کے ان جھگڑوں کی بُھول بھليّوں ميں ايسے گُم ہو جائيں کہ اصل بات ہی بُھول جائيں۔ آپ خُود بتائيں کہ پہلی بات کيا تھی بُھول گئے ناں آپ بھی اور پتہ ہے ناں ايسے حالات ميں کون فائدے ميں رہتا ہے اور کون فائدہ اُٹھاتا ہے اللہ نہ کرے کہ ايسا کُچھ ہو ليکن حالات کيا کہہ رہے ہيں؟
مع السلام
شاہدہ اکرم
وسعت بھائی آپ سے اچھا کون ہے؟! میں بی بی سی صرف آپ کے بلاگ اور کالمز کے لیے پڑھتا ہوں۔ بالکل صحیح لکھا ہے آپ نے۔ حکومت کی گیم بالکل یہی ہے۔
محترم وسعت صاحب ، سلام عرضِ خدمت ہے
جناب ہو سکتا ہے کہ افتخار صاحب اپنی فرياد کے مارے جانے پر افسردہ ہوں، مگر ہميں نوحہ گری کے بجاۓ صورت گری پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے گو کہ يقيناً ہوا ميں درد کس قدر ہے يہ آپ سے بہتر کون جان سکتا ہے ۔
سفر ميں ہے جو ازل سے يہ وہ بلا ہی نہ ہو
کواڑ کھول کے ديکھو ، کہيں ہوا ہی نہ ہو
وسعت صاحب مجھے اميد ہے آپ نے چغتائ صاحب کی بات نوٹ فرما لی ہوگي ۔ ويسے ہم سب ہی آپ کے فين ہيں ۔ ويسے بھی آج کل دنيا تو صرف ٰ ٰ خان فين ٰ ٰ ہے ۔ وہ چھوٹے خان ہو يا کنگ خان ہوں ۔۔يا پھر اپنے وسعت خان ہوں ۔
اسی اپنے پن کے ساتھ اپنے فينز کے لۓ لکھتے رہيۓ گا ۔
نيازمند
سيد رضا