| بلاگز | اگلا بلاگ >>

دیواروں کے کان

وسعت اللہ خان | 2007-01-25 ،15:08

پچھلے پانچ روز میں نے سندھ بلوچستان کے سرحدی اضلاع جیکب آباد، شکار پور اور جعفر آباد میں گزارے۔ اس دوران سینیٹ کے چیرمین محمد میاں سومرو اپنے آبائی علاقے جیکب آباد میں تھے اور سندھ کے وزیرِ اعلی ارباب رحیم شکارپور آئے ہوئے تھے۔
blo_wusat_deewar_150.jpg

ان کے ہوتے ہوئے اس علاقے میں دو قبائیلی جھگڑوں میں دس کے لگ بھگ لوگ ہلاک ہوئے۔ تین سِول انجینیر سڑک سے اغوا ہوئے۔ موٹر سائکلیں چھیننے اور رہزنی کی متعدد وارداتیں سننے میں آئیں۔ وزیر اعلی نے ایک قبائیلی جھگڑا نمٹانے کی ناکام کوشش کی۔

اعلی عمائدین اور مقامی سرکاری اہلکاروں نے ایک دوسرے کو کئی دعوتوں اور استقبالیوں میں مدعو کیا۔ اس کے نتیجے میں مقامی پولیس کی آدھی نفری پروٹوکول کے فرائض، وی آئی پی ٹریفک کنٹرول اور حفاظتی تدابیر میں مصروف رہی۔ علاقے کی تعمیرو ترقی اور امن و امان کی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کیا گیا اور پھر اعلی اہلکار ہیلی کاپٹروں میں اور مقامی عمائدین اپنی لینڈ کروزرز میں جہاں سے آئے تھے وہیں چلے گئے۔

شکار پور اور جیکب آباد میں خوف و ہراس اور بدامنی کی جو فضا ہے وہ بظاہر مجھے بلوچستان کے دو متصل اضلاع جعفر آباد اور نصیر آباد میں نظر نہیں آئی۔ ویسے بھی ان اضلاع میں سابق وزیرِ اعظم ظفر اللہ جمالی کا حکومت نواز خاندان چھایا ہوا ہے۔

لیکن محسوس ہوا جیسے ہر شخص ڈرا ہوا ہے۔ جس سے بھی بات کرنے کی کوشش کی وہ کسی دکان یا مکان کی آڑ میں لے گیا۔ ایک مقامی نے اس کا سبب بتایا کہ ’باقی پاکستان میں تو یہ محاورہ کتابی ہے کہ دیواروں کے کان ہوتے ہیں لیکن ہمارے ہاں واقعی دیواروں کے کان ہوتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو دو دن یہاں گزار کے دیکھ لیں۔‘

مجھے یہ عجیب سا لگا کہ شکارپور اور جیکب آباد امن و امان کی ابتری کے باؤجود اس نقشے کا حصہ ہیں جہاں حکومت کی رٹ قائم و دائم بتائی جاتی ہے لیکن نصیرآباد اور جعفر آباد میں امن و امان کی نسبتاً بہتر صورتحال کے باؤجود دونوں اضلاع اس نقشے کا حصہ ہیں جہاں حکومتی رٹ خطرے میں دکھائی جا رہی ہے۔

تو کیا حکومتی رٹ کا عملی مطلب یہ ہے کہ آپس میں لڑ مرو؟ بھلے ایک دوسرے کے سر پھاڑ دو مگر اسلام آباد والوں سے براہ راست پنگا لینے سے پرہیز کرو۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 19:16 2007-01-25 ,ايم شبير :

    وسعت صاحب آپ ابھی تک اسی بات کو لئے بيٹھے ہيں۔ پاکستان ميں کس کو پتا نہيں کہ حکومت کی رٹ کيا ہے۔ عوام کا کس نے کب سوچا ہے جو اب سوچے گا۔ کوئی عوامی نمائندہ ہو تو کچھ مدد ہو عام پاکستانی کي۔

  • 2. 19:55 2007-01-25 ,Mian Asif Mahmood, MD U.S.A :

    خيال رہے باقی صوبوں کا بھی يہی عالم ہے کہ سکوت مرگ طاری ہے۔ بقول حبيب جالب
    وارے نيارے ہيں بے ضميروں کے
    دن پھرے ہيں فقط مشيروں کے
    اپنا حلقہ ہے حلقہ زنجير
    باقی حلقے ہيں سب وزيروں کے
    اپنا خيال رکھيئے گا
    مخلص و دعا گو
    مياں آصف محمود

  • 3. 20:21 2007-01-25 ,shahidaakram :

    وسعت بھائی آپ کے اس بلاگ کو پڑھ کر جو پہلی بات دماغ ميں آئی ہے وہ يہ ہے کہ اللہ رحم کرے۔ آپ خير يت سے رہيں کيونکہ آج جو صورت حال ہے اپنے ملک کی وہ کچھ اتنی ابتر ہے کہ کسی سے کہنے والا حال بھی نہيں اور اب جبکہ آپ خود بھي اُن ہی حالات سے گزر رہے ہيں اور اُن لوگوں کے درميان ہيں جو خود ان حالات کا جيتا جاگتا ثبوت ہيں۔ جيکب آباد اور شکار پور ميں جو فضا آپ ديکھ رہے ہيں وہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ ہمارے لوگ اپنے ملک ميں رہتے ہوئے بھی کس گھٹن کا شکار ہيں اور کس طرح کے عذاب سے گزر رہے ہيں۔ آپ کو تو پھر يہ بھي تسلي ہوگي کہ کچھ دن بعد آپ اس فضا سے باہر ہوں گے ليکن اُن ب بےچاروں کا کيا جو ان حالات ميں بھي جینے پر مجبور کر دئیے گئے ہيں اور کچھ بھی نا کر پانے کی پوزيشن ميں ہيں۔ جو بات آپ نے بالکل آخر ميں جا کر کہی وہ کچھ اس قدر حقيقی ہے کہ آپ کو وہ سب سے پہلے کہنا چاہيئے تھی يعنی حکومتی رٹ واقعی بہت بڑے خطرے کی زد ميں ہے اور مطلب ہم کيا سمجھيں اور سمجھائيں گے کسی کو۔ آپ خود عقل مند ہيں بالکل ٹھيک سمجھے يعني آپس ميں لڑو مرو جو دل چاہے کرو۔ بس ہماری دال روٹی ميں کوئی فرق نہيں پڑنا چاہيئے۔ ارے لگتا ہے ميں کچھ غلط کہہ گئی دال روٹی نہيں حلوے اور پلاؤ زردے يا جو پکوان آج کل اِن ہيں ان صاحبان کی دل دہی کے لئے۔ بس صاحبان اقتدار کے طبع نازک پر گراں نا گزرے کوئی بات يعنی وہی پرانے مقولے آج بھی اُسی طرح نويں نکور ہيں۔
    DIVIDE AND RULE والے کيا سمجھے آپ صاحبان؟

  • 4. 4:38 2007-01-26 ,rahman :

    کیا ملک میں ابھی بھی قائد اعظم کے چودہ نکات پڑھے جاتے ہیں؟ جس سٹیٹ کی بات وہ کرتے تھے وہ کہاں ہے؟ اگر وہ نہیں ہے تو یہ جو اب ہے یہ کیا ہے؟

  • 5. 11:17 2007-01-26 ,Sajjadul Hasnain :

    سب سے پہلے تو ميں آپ کی اجازت اور توسط سے ان صفحات کے ذريعہ ہندوستانی قارئين کو يوم جمہوريہ کی مبارکباد دينا چاہوں گا۔ اللہ کا شکر ہے کہ دنيا کی سب سے بڑی جمہوريت اپنے قيام کے اٹھاون سالوں بعد بھی پوری آب و تاب کے ساتھ اپنے ملک کے عوام کو بنيادی حقوق فراہم کر رہي ہے اور شفافيت کے ساتھ اور اسی کا کمال ہے کہ آج عظيم تر ہندوستان کے دونوں جليل القدر عہدوں پر اقليت سے تعلق رکھنے والے افراد پورے وقار و اختيار کے ساتھ براجمان ہيں۔ ساتھ ہی خدائے بزرگ و برتر سے يہ بھی دعا کرتا ہوں کہ پاکستان کے عوام کو بھی اپنی جمہوريت کے بھر پور استعمال کا موقع عطا ہو اور وہاں ہر گاؤں ہر گھر اور ہر سڑک پر امن کا بول بالا ہو اور عوام امن وچين کے ساتھ زندگی گزار سکيں۔ وسعت بھائی تعريف نہيں بلکہ اللہ کی مہربانی ہے کہ گذشتہ پانچ سال کے دوران ميں ہر دن اپنی ڈيوٹی ختم کر کے رات دو بجے اپنے گھر کے لئے نکلتا ہوں اور ميرے دفتر اور گھر کے بيچ کے چاليس کلو ميٹر کے فاصلے ميں آج تک ايک لمحے کے لئے بھی مجھے يہ فکر دامن گير نہيں ہوئی کہ کوئی لوٹ لے گا، پريشان کرے گا يا پھر پوليس ہراساں کرے گی اور جہاں تک ميری ناچيز عقل کہتی ہے يہ عوامی طاقت کا کمال ہے جو پلک جھپکتے اپنے ووٹ کی طاقت سے بڑے بڑے سورماوں کو سڑک پر لاپھينکتی ہے۔

  • 6. 9:05 2007-01-27 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    جناب وسعت اللہ خان صاحب، آداب
    سچی بات لکھی آپ نے ۔۔۔۔
    احتياط ۔۔۔۔ کيونکہ ’ ديواروں کے بھی کان ہوتے ہيں‘
    اپنا بہت خيال رکھيئے گا۔
    نياز مند
    سيد رضا

  • 7. 14:01 2007-01-27 ,جاويد اقبال ملک :

    محترمی ومکرمی وسعت اللہ خان صاحب اسلام عليکم کے بعد عرض يہ ہے کہ آپ ايسے علاقوں ميں چلے گئے جوکہ انسان کو انسان نہيں سمجھتے اور ان خفيہ والوں کی کيا بات کريں۔ انہوں نے کسی شعبہ زندگی کو نہيں بخشا بلکہ جس کو چاہا اٹھا ليا اور پھر اسکی کوئی خبر بھی نہيں۔ ابھی ديکھيں کہ گزشتہ دنوں اسلام آباد ميں اپنے پياروں کے حوالے سے احتجاج ہو رہا تھا تو اس پر ساری دنيا کے اخبارات نے ديکھ ليا کہ کيا کچھ ہوا۔ ہمارے ملک ميں اس وقت جو صورتحال ہے اس ميں ايک گھر ميں بھی بات کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے چونکہ اس قدر خون کا عالم ہے۔ کیا پتا کب اسلام آباد والوں کو کوئی بات بری لگ جائے۔

91ȱ iD

91ȱ navigation

91ȱ © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔