سال نو اور ریزولیوشن
سال نو کے لیے ہم سب نئے خواب پالتے ہیں۔ اپنی زندگی کو خوب سے خوب تر بنانے کا عہد کرتے ہیں۔ مگر دنیا کے حالات دیکھ کر کبھی میں سوچتی ہوں کہ ہم خواب کیوں پالتے ہیں؟ امیدیں کیوں رکھتے ہیں؟ ہماری زندگی خوب سے خوب تر کیسے بنے جب ہر طرف بربادی، تباہی، ہلاکتیں اور تشدد ہے۔
جب چند لوگوں نے ہماری تقدیر بنانے کا ٹھیکہ لیا ہے تو ہم اپنی زندگی کا منصوبہ کیوں بنائیں؟
صدر بش کا سال نو کے لیے شاید پہلا ریزولیوشن یہی تھا کہ صدام حسین کو چلتا کر دیا جائے۔ ابھی لوگ اس خبر کو ہضم نہیں کر پا رہے تھے کہ صومالیہ پر ایسا وار کر دیا کہ عبداللہ یوسف کی زبان بش کی تعریف کرتے کرتے خشک ہو رہی ہے۔ ادھر عرب دنیا کے لیڈران قوم صرف کنکھیوں سے آج کل بش کی جانب دیکھ رہے ہیں۔
بلئیر صاحب نے بڑی عقلمندی سے کام لیا۔ فلوریڑا میں جا کر گرمی بھی کھائی اور چپ بھی سادھ لی۔ مگر گہری سوچ میں ہیں کہ برآون کو سفید کیسے بناؤں۔
اپنے مشرف صاحب نے سال نو کے لیے کیا اگلے دس سال کا روڈ میپ تیار کیا ہے۔ مسلم لیگی زندہ باد۔ وہ آج کل مشرف نام کا ورد کرتے ہیں۔ جنرل صاحب نے انہیں یقین دلایا ہے کہ آپ جب تک مجھے کرسی پر براجمان رکھیں گے میں آپ لوگوں کو پاکستان کا تاج پہناؤں گا۔
کرزئی کا اب ایک ہی ریزولیوشن رہا ہے کہ طالبان کابل کے آس پاس نہ بھٹکیں۔ باقی پورا افغانستان لیں اور ساتھ ہی پاکستان بھی تاکہ باڑھ لگانے کا مشرف کا حلف حلف تک ہی محدود رہے۔
بنگلہ دیش کی خواتین نے اس سال بھی اپنے عہد کو دہرایا ہوگا کہ بنگالیوں کو اس وقت تک آرام سے نہیں بیٹھنے دینا ہے جب تک وہ ایک دوسرے کو چلتا نہیں کر دیتیں ہیں تاکہ دنیا کو معلوم ہو سکے کہ جب دو خواتین کے بیچ میں ٹکر ہوتی ہے تو صدام بش بھی وہاں ماند پڑجاتے ہیں۔
من موہن سنگھ جی نے ریزولیوشن بنانے کا کبھی خیال نہیں کیا ہوگا۔ ان کا سارا کام سونیا جی نے کر کے رکھا ہے۔ بلکہ ان کو آشواسن دیا ہے ’سردار جی تُسی کوئی چنتا نہ کریں اسی سب سنبھالے ہیں۔‘
جب ہم سب کی ذمہ داری کسی اور نے لی ہے تو ہم ذہن پر ریزولیوشن بنانے کا زور کیوں ڈالیں؟