نیا ڈانس ڈائریکٹر
سال کا آخری مہینہ اداس کر گیا لیکن پھر بھی دل چاہتا ہے کہ ہار نہ مانیں۔ شاید انسان میں جبلی طور پر یہ خوبی ہے کہ وہ زندہ رہنے کا فن جانتا ہے۔ اس لیے دل چاہ رہا ہے کہ سال کو الوداع مسکراتے ہوئے کہوں۔
کہہ گئے وید حکیم یہ ہے قدرت کا قانون
جتنا ہنسے گا آدمی، اتنا بڑھے گا خون
لیکن ہنسنے کو ہے کیا؟ آج، کل، پرسوں میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہوئی جس کو شیئر کروں یا جو سب کے چہرے پر مسکراہٹ لا سکے۔ پھر ماضی کی پٹاری رہ گئی ہے، اس میں ہاتھ مار کے دیکھتا ہوں شاید کچھ نکل آئے۔
پٹاری تو بھری پڑی ہے، ہاتھ سے نت نئی چیز ٹکرا رہی ہے۔ یہ بچپن کی شرارتیں، بھائی بہنوں میں ہنسی مذاق، دوستوں میں جگتیں اور ٹھٹھے۔ کیا نکالوں، یہ سب تو اور اداس کر جائے گا کچھ اور ڈھونڈتا ہوں۔
یہ کیا ہے؟ لاہور میں نہر کے ساتھ ساتھ جاتی خوبصورت سڑک کی ایک یاد۔ چلیں اس سے ہی شروع کرتا ہوں۔ ہوا یوں کہ ایک دن نہر کے ساتھ ساتھ موٹر سائیکل پر دفتر جا رہا تھا کہ کسی نے لفٹ مانگی۔ موٹر سائیکل روک کر اجنبی کو ساتھ بٹھا لیا۔ ادھر اُدھر کی باتیں ہونے لگیں اور پتہ چلا کہ اسے تو نہر کے ساتھ ساتھ مغلپورہ کی طرف جانا تھا اور مجھے سر آغا خان روڈ پر مڑنا تھا۔ جب اسے معلوم ہوا کہ میں اخبار میں کام کرتا ہوں تو اس کا پہلا سوال تھا کہ ’سر آپ سٹوڈیو جاتے ہیں‘۔ ’ہاں، کام کے سلسلے میں کبھی کبھار جانا پڑتا ہے‘، میرا جواب تھا۔ ’کوئی تکلیف تو نہیں ہوتی‘، ’میرا مطلب کوئی روکتا تو نہیں، آسانی سے سٹوڈیو میں جانے تو دیتا ہے‘، میرے ہمسفر کا اگلا سوال۔ جب میں نے اسے بتایا کہ مشکل تو ہوتی ہے اور اگر پہلے سے اس کا بندوبست نہ کیا ہو تو پھر تو اندر ہی نہ جا سکیں۔
یہ سن کر اس نے مجھے کہا کہ کیا آپ کے پاس اپنی تین تصاویر ہیں۔ میرے اثبات میں سر ہلانے پر اس نے کہا کہ میں آپ کی یہ مشکل حل کر سکتا ہوں۔ ساتھ ہی اس نے اپنا پورا تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ وہ کوئی سمراٹ ہے (مجھے اس کا پورا نام یاد نہیں) اور وہ ڈانس ڈائریکٹر ہے۔
خیر وہ میری تین تصاویر لے کر چلا گیا۔ اگلے ہیں دن مجھے دفتر کے استقبالیہ سے فون آیا کہ کوئی آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ نام سے مجھے پتہ نہ چل سکا کہ وہ کون ہے۔ خیر نیچے گیا اور شکل سے پہچان گیا۔ وہ کل ہی ملنے والا سمراٹ تھا۔ اس نے ہنستے ہوئے جیب میں ہاتھ ڈال کر مجھے ایک کارڈ پکڑا دیا اور کہا کہ ’سر یہ لیں آپ کا مسئلہ حل ہو گیا ہے اور اب کوئی بھی آپ کو سٹوڈیو جانے سے نہیں روکے گا‘۔
کارڈ دے کر وہ تو چلا گیا لیکن میں اسے دیکھ دیر تک ہنستا رہا اور آج بھی جب یہ واقعہ دہرا رہا ہوں ہنس رہا ہوں۔ کارڈ پہ میری تصویر تھی اور ساتھ درج تھا ڈانس ڈائریکٹر عارف شمیم۔
تبصرےتبصرہ کریں
آپ کو خوش ہونا چاہیئے کہ آپ بغیر محنت کے ہی ڈانس ڈائریکٹر بن گئے۔
اچھا لکھا ہے۔ بات تو ہنسنے والي ہے ليکن شايد يہ سمراٹ صاحب کی طرف سے پاکستان ميں ڈانس کے ’اعلي معيار‘ کا اعتراف بھی تھا۔ اس نے سوچا ہوگا کہ اگر ميں ڈانس ڈائريکٹر ہو سکتا ہوں تو اللہ کا يہ نيک بندہ جس نے مجھے لفٹ کرائی ہے کيوں نہيں ہو سکتا ہے۔
سال کا اختتام ہنسی پہ کر ديا- شکريہ
محترمی ومکرمی عارف شميم صاحب
اسلام عليکم ! سب سے پہلے تو آپ کو ڈانس ڈائريکٹر بننے پر مبارک باد پيش کرتا ہوں البتہ يہ الگ بات ہے کہ يہ جاب آپ کو سوٹ نہيں کرتی۔ ديگر ہمارے ملک ميں سب کچھ ہو سکتا ہے۔ ہمارے ايک جاننے والے ہيں انکے پاس ايک سرکاری چپڑاسی سے ليکر صدر اور وزيراعظم تک کي مہريں موجود ہيں۔ اور آج کل کےآئی ٹی دور ميں سب کچھ ممکن ہے۔ شکر کريں اس نے اوپر آپ کا دھڑ اور نيچے ريما کا دھڑ نہيں لگا ديا اور اگر سچ مچ ايسا ہو جاتا تو پھر آپ کےکيا تاثرات ہوتے۔ جعل سازی کی وجہ سے تو مسٹر بل گيٹ بھی پريشان ہيں چونکہ چينيوں نے ان کا جينا حرام کر ديا ہے۔ مائيکرو سافٹ کی جو چينی سی ڈی آپ 10 روپے ميں خريدتے ہيں وہ ڈالروں ميں ملتی ہے ۔ جتنی غربت ہو گی اتنی ہی جعل سازی بھی ہوگی۔
اگلے بلاگ میں یہ ضرور بتایے گا کہ آپ جب دوبارہ سٹوڈیو گئے تو کیا ڈانس کیا یا کروایا؟
عارف شميم صاحب سب سے پہلے تو ميں آپ کو بی بی سی ڈاٹ کام کی پوری ٹيم کو اور بلاگ کے مستقل قارئين بشمول سيد رضا صاحب، شاہدہ اکرم صاحبہ، اے رضا صاحب، ابرار سيد صاحب، جاويد گوندل صاحب، ملک اقبال صاحب، آصف مياں محمود صاحب اور ديگر قارئين کو اڈوانس ميں عيد قرباں اور نئے سال کی مبارک باد دينا چاہونگا۔ خدا کرے کہ پہلا دن جيسے عيد اور نئے سال کی خوشياں ساتھ لا رہا ہے پورا سال بھی چين امن اور آشتی کے ساتھ گذرے۔ اب يہ بھی کہنا چاہونگا کہ آپ نے ماشا اللہ ماضی کے جھروکے سے ايک خوشگوار دن ڈھونڈ نکالا ہے، ايسا دن جس نے آپ کو بےساختہ مسکرانے پر بلکہ ٹھٹھہ لگانے پر مجبور کرديا ہے۔ ماضی کي پٹاری اپنے اندر بہت کچھ ذخيرہ رکھتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ کب اور کس موقع پرکيا چيزايسی ہوگی جو آپ کے حالات کو يکسر ايک خوشگواری عطاکردے۔ يہ فن بھی ہے اور قوت ارادی بھي اور آپ نے اسی فن کا کمال مہارت سے استعمال کيا ہے اور ہميں بھی ايک خوشگوار احساس سے دوچار کرديا۔ خوش رہيں اور اسی طرح مسکراہٹيں بانٹتے رہيں اور يہ کہ يہ بھي بتاتے چليں کہ کيا وہ کارڈ آج بھي آپ کے کام آرہا ہے؟
مُلا کي دوڑ مسجد تک کے مِصداق ، موصُوف کي سادگي ملاحظہ ہو کہ کہاني نويس يا مکالمہ نگار سميت اور کچھ نہيں سُوجھا تو اظہارِ تشکّر ميں آپ کو بھي ڈانس ڈائريکٹر ہي بنا ديا۔
سال بھردلچسپ موضوعات اور آزاد اظہارِ رائے کے مواقع کي فراہمي پر شکريہ کے ساتھ دعاگو ہوں کہ نيا برس آپ اور جملہ قارئين کرام کے لیے باعثِ مسرّت و اطمينان ہو۔
شکر کریں نہر کی سڑک پر لفٹ لینے والا ڈانس ڈائریکٹر ہی تھا۔ اب تو وہاں بہت خطرناک لوگ لفٹ لیتے ہیں۔
شميم صاحب سلام عرض ہے۔
خير آپ صرف ڈانس ڈاريکٹر بنے برصغير پاک و ہند ميں تو ہر ناجائز کام بڑی آسانی سے ممکن ہوتا ہے مشکل تو جائز کام کے لیے ہے مگر کب تک کيونکہ ہر اندھيری رات کے بعد صبح ضرور ہو تی ہے۔ الٌلہ کرے يہ صبح جلدی ہو۔ خير انديش
محمد علی، کراچی پاکستان
میرا تو پانچ کلو خون بڑھ گیا ہے۔ بہت سے لوگوں کو یہ سمجھ نہیں آیا ہو گا کہ آپ نے دبے لفضوں کیا کچھ کہہ دیا۔ سمراٹ نے وہ ہی کیا جو آج کل ہو رہا ہے۔
عارف بھائی آپ کا آج کا بلاگ پڑ ھ کر واقعی ہنسی فوارہ بن کر پُھوٹ پھٹی کہ سال کے ان آخری دنوں ميں دل چاہ رہا تھا کہ ايسا کُچھ ياد آجائے جس کو شُمار کريں کہ يہ اس سال کی خوشی کی خبر تھی اب وہ انفرادی خوشی ہو يا اجتماعی۔ جاتے جاتے يہ سال ايک اور انمول ہيرا اپنے ساتھ لے گيا کہ مُنير نيازی نہيں رہے۔ پہلے احمد نديم قاسمي، سبحانی با يونس، شوکت صديقی اور اب مُنير نيازی اور ايسی اور بہت سی خبريں جو کم از کم دل کو خوش نہيں کرتيں۔ انفرادی دُکھ تو ہيں ہی۔ انفرادی جو اس سال کے شروع ہوتے ہی ساتھ ايسے ہُوۓ کہ ان آخری دنوں ميں بھی ساتھ دے رہے ہيں گو يہ سب زندگی کے اُتار چڑھاؤ ھيں ليکن اگر يہ دُکھ خودسے زيادہ اپنے پياروں کے ہوں تو شايد دُکھ اور بھی سوا ہوتے ہيں بس دُعا کا ہی آسرا ہوتا ہے۔ ليکن عارف بھائی نے آج نا صرف يہ کہ مُسکرانے بلکہ کھلکھلانے پر مجبور کر ديا ہے۔ شکريہ بہت بہت۔ يادوں کی پٹاری ميں ہميں بھی اپنے ساتھ گھسيٹنے يا شامل کرنے پر مزہ آيا۔ ايک بالکل الگ سی سٹوری پڑھ کر گو شايد دُنيا ميں زيادہ تر ايسا ہی ہوتا ہے کہ واسطوں سے ہی واسطے چلتے ہيں۔ اس کے علاوہ اور کُچھ نہيں ہميشہ کی طرح ہر سال کے آخری دنوں ميں ہم يہی دُعا کرتے ہيں اور خواہش بھی يہی ہوتی ہے کہ سب اچھا ہو کہ يہ فطری بات ہے کہ ہر انسان صرف اور صرف اچھی باتيں اور چيزيں ہی چاہتا ہے۔ ليکن ايسا نامُمکنات ميں سے ہے کيونکہ زندگی دُکھ اور سُکھ کے ملاپ سے ہی وجُود ميں آئی ہے اور اسی کا نام زندگی ہے۔ پھر بھی دُعا اچھے کے لیے کرنا کوئی بُری خواہش تو نہيں، سو سب کے لیے خوشيوں اور کامرانيوں کی ڈھيروں دُعائيں، صحت اور تندرستی والی لمبی زندگيوں کی دُعائيں زندگی سے خوشيوں کے رنگ کشيد کرتے ہُوئے ، سب بی بی سی کے ارکان اور سب قارئين کرام جن ميں سيّد رضا صاحب ،ابرار سيّد صاحب ،جاويد اقبال صاحب ، اے رضا صاحب ،گوندل صاحب اور سجاد صاحب سب کو نئے سال اور عيد قربان کی دلی مبارکباد قبول ہو۔ دُعا ہے کہ يہ نيا سال نا صرف انفرادی طور پر بلکہ اجتماعی طور پر سب کے لیے خوشيوں کا پيغامبر ثابت ہو، پوری دُنيا کے لیے صرف امن اور آشتی کی نويد لائے، آمين
دعاگو، شاہدہ اکرم
شميم بھائي!
ايک بات تو واضح ہے کہ سمراٹ بڑے بڑے خاندانيوں سے بڑھ کر خاندانی نکلا اور احسان شناس ثابت ہوا کہ اُس نےسٹوڈيو(غالبا فلمي) ميں آپکے داخلےکا مسئلہ حل کر کےاپنی دانست ميں آپکےاسے لفٹ دينے کےاحسان کا بدلہ ديا۔ گواس سے پاکستان ميں مروجہ سفارش ، تعلقات اور اثرو رسوخ کی بناء پہ ناممکن کو ممکن بنانے کے کلچر اور انداز کا بھی پتہ چلتا ہے کہ کس طرح بغير کسی شُد بُد کے کسی بھی علم و فن سے متعلقہ اسناد حاصل کر لينا چنداں مشکل نہيں جو کہ نہايت قابلِ افسوس ہےاور جس سے قوموں کی ترقی ختم ہوجاتی ہے اور پوری قوم آمروں کی تھا، تھئی، تھا، تھا، تھئی پہ تھرکتی ہے۔ خود ميرے ايک جاننے والے ايک واقعہ بيان کرتے ہيں کہ جس کالج ميں وہ پڑھا کرتے تھے اُس کالج کے پنجابی زبان کے ليکچرار اپنے سٹوڈینٹس کے سامنے برملا يہ اعتراف کرتے تھے کہ پنجابی زبان کے بارے ميں انکا علم نا ہونے کے برابر ہے کہ وہ خود (پنجابی کے ليکچرار صاحب) صرف نويں جماعت پاس علم کے مالک ہيں۔ تو شميم بھائی ايسے ميں آپکا ڈانس ڈائريکٹر ہا ہا ہا اور وہ بھی مفت ميں ۔۔۔ بہرحال يہ تو آپ نے بتايا ہی نہيں کہ کبھی تھا، تھئی، تھا، تھا، تھئي، تھا، تھيا کرنے کی نوبت بھی آئی يا نہيں۔ ويسے تو زندگی ہر انسان کے ساتھ اکثر تھا، تھئی، تھا، تھا، تھئي، تھا تھياکرتی رہتی ہے۔ جيسے محترم چوہدری اسدعلی صاحب کے مضمون ُبھائی لوگ ڈانس فلور پر، جس کا لنک آپ نے اپنے بلاگ ميں منسلک کر رکھا ہے۔ ويسے برسبيلِ تذکرہ سپين کے ساحلی مقامات پہ کچھ کچھ گورے لوگ بھي وہ وہ حرکات کرتے ہيں کہ بيان کرتے ہوئے بھي گِھن آتی ہے کہ ايسی حرکتوں ميں ديسي اور گورے سبھي شامل ہيں۔ بہر حال خوشی ہوئی کہ آپ نے نئے سال کا استقبال مسکراتے ہوئے کرنے کی کوشش ميں اپنے قارئين کو بھی شامل کيا ہے اور اس مبارک موقع پہ ميری طرف سے آپ کو، محترم چوہدری اسد علی صاحب ، محترم وسعت اللہ خان صاحب ، محترمہ عنبر خيري صاحبہ ، محترمہ نعيمہ مہجور صاحبہ ، بي بي سي اور بی بی سی اردو کے تمام سٹاف کو اور محترم سجادالحسنين صاحب ، سيد رضا صاحب ، بہن جي محترمہ شاہدہ اکرام صاحبہ ، اے رضا صاحب ، ابرار سيد صاحب ، ملک جاويد اقبال صاحب ، آصف مياں محمود صاحب ، ظہوراحمد سولنگی صاحب اور بی بی سي اردو کے تمام قارئين اکرام کو نئے سال اور عيد الضحٰی کے پُر مسرت موقح پہ دلی مبارکباد قبول ہو اور سجادالحسنين کا نہائت مشکور ہوں کہ انہوں نے نئے سال اور عيد کی خوشيوں کے موقع پہ مجھے ياد رکھا۔