ڈنگی میزائیل
صحافی جاوید صبا کے بعد عبداللہ پان والا میرا دوسرا قریبی دوست ہے جو ان پانچ ہزار سے زائد لوگوں میں شامل ہوچکا ہے جنہیں ڈنگی مچھر نے لٹا ڈالا ہے۔ عبداللہ اس وقت لیاقت نیشنل ہسپتال میں ہے۔ جو اس نمائش گاہ سے صرف دو کیلومیٹر پرے واقع ہے جہاں آئیڈیاز دو ہزار چھہ نامی نمائش میں ستائیس ممالک کے اسلحے، دفاعی آلات اور ماڈلز کے چار روزہ دکھاوے کا انتظام کیا گیا۔
اگر نمائش گاہ کے سامنے سے گزرنے والی اسٹیڈیم روڈ پانچ روز سے ایمبو لینسوں سمیت ہر
طرح کی ٹریفک کے لئے بند نہ ہوتی تو میں عبداللہ کی عیادت کے لئے صرف دس منٹ میں رکشے میں بیٹھ کر اپنے گھر سے آغا خان ہسپتال کے برابر والے لیاقت ہسپتال پہنچ جاتا۔ لیکن بھلا ہو اسلحے کی نمائش کے حفاظتی انتظامات کا کہ میں چھ کیلومیٹر کا فاصلہ ٹریفک جام کے سبب چالیس منٹ میں طے کر کے عبداللہ کے وارڈ میں پہنچا۔
ڈاکٹروں نے بتایا کہ جب عبداللہ کو ڈنگی بخار چڑھنے کے بعد یہاں لایا گیا تو اسکے خون میں سفید جسیموں کی تعداد خطرناک حد تک کم ہوچکی تھی۔لیکن اسکے جسم میں پلیٹی لیٹس داخل کرنے کے بعد حالت قدرے بہتر ہے۔ مگر اب بھی خطرے میں ہے۔
ڈاکٹروں نے یہ بھی بتایا کہ عبداللہ نے اسے ملیریا سمجھتے ہوئے اینٹی بائیوٹک سے اپنا علاج خود کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ ڈنگی مچھر کے کاٹے کا کوئی علاج نہیں سوائے یہ کہ مریض میں پانی کی کمی نہ ہو اور وہ خود کو مچھر نواز گندے پانی سے دور رکھنے کی کوشش کرے۔
میں عبداللہ کے پاس کوئی نصف گھنٹہ بیٹھنے کے بعد باہر نکلا اور دو فیصلے کئے۔ ایک یہ کہ رکشہ نہیں لوں گا۔ دوسرے یہ کہ پیدل آئیڈیاز دوہزار چھ دیکھتا ہوا گھر جاؤں گا۔
راستے بھر دس دس گز کے فاصلے پر کھڑے اور انکے اوپر رہائشی عمارات کی چھتوں پر ایستادہ فوجیوں اور رینجرز کو دیکھتا ہوا میں تین میٹل ڈیٹیکٹرز سے گذر کر چار مختلف ایجنسیوں کے اہلکاروں کو اپنا میڈیا سیکیورٹی کارڈ دکھا کر جب نمائش گاہ میں پہنچا تو جی خوش ہوگیا اور ساری تھکن اور کدورت ہرن ہوگئی۔
الخالد اور ضرار ٹینک، بابر کروز میزائیل، حتف میزائیل، پندرہ سو کیلومیٹر تک جوہری ہتھیار لے جانے والا غوری اور دوہزار کیلومیٹر تک مار کرنے والا شاہین ٹو میزائیل، کیمرے سے لیس خودکار ڈرون، پاک چائینا مشرکہ ایف سیونٹین تھنڈر لڑاکا بمبار، دو نئے ماڈلز کی چمچماتی بکتر بند گاڑیاں وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب دیکھ کر مجھے یقین ہوگیا کہ دشمن پاکستان کی طرف اگلی مرتبہ میلی تو کیا اجلی آنکھ سے دیکھنے کی بھی جرات نہیں کرسکتا۔
پھر جانے میرے ذہن کو کیا ہوا کہ ایک بار پھر عبداللہ پان والے کی تصویر تصور میں آ گئی۔
ہندوستان کو روکنے کا تو انتظام ہوگیا۔
ڈنگی مچھر کو روکنے کا انتظام کب ہوگا۔
اگر چند ڈنگی اس نمائش گاہ میں گھس گئے تو کیا ہوگا۔
تبصرےتبصرہ کریں
جناب آپ ڈنگی مچھر کو نمائش میں نہ رکھنے کی بات کر رہے ہیں۔ ہم تو اس زہریلے ہتھیار کی اس نمائش میں پیش کیے جانے کی توقع کر رہے تھے۔
اگر یہ میزائیل وہاں ہوتا تو ہماری ہی ایجاد کہلاتا وسعت بھائی۔
جناب فکر مت کریں۔ خدا کے فضل سے پاکستان کی دفاع کے شعبے میں کاکردگی اچھی ہے اسی طری صحت کے محکمے میں بھی ترقی ہوگی۔
اگر ہماری فوج باری باری ڈینگیں مارنا بند کرے تو بہت جلد ڈنگی پر بھی قابو پا لیا جائے گا۔
وسعت بھائی کروز کے سفر سے کہيں زيادہ دلچسپ تو آپ کا يہ سفر ہے جو آپ نے چاليس منٹ ميں طے کيا۔ خدا کا شکر ہے کہ آپ کی عيادت کام آئی اور آپ کے دوست ڈنگی سے بچ گئے ورنہ انڈيا ميں يہ مرض انہيں لٹاتا نہيں بلکہ ڈوبا ديتا۔ ويسے وسعت بھائی آپ کے ہر سفر ميں فوجی کيوں آڑے آجاتے ہيں۔ يہ فوجی بلی کا کام کرتے ہيں کيا؟ بلی کا راستہ کاٹنا جانتے ہيں آپ؟ اگر نہيں تو پھر ايک اور بار انڈيا آئیے اور حيدرآباد آئيے، ميں بتاتا ہوں کہ بلياں راستہ کيسے کاٹتی ہيں۔ ويسے آپ کو بتادوں کہ ہمارے ہاں ڈينگو نے وہ آفت مچائی کہ کچھ پوچھيے مت اور سب سے دلچسپ بات تو يہ ہے کہ اس نے سيدھے وزير اعظم کے بھانجوں کو نشانہ بنايا۔ ان بيچاروں کو کيا پتہ کہ وزير اعظم کيا ہوتا ہے ورنہ ايسی ہمت نہ کرتے بيچارے۔ بيچارے اس لئے کہ وزير اعظم کے بھانجوں کی جان پر جب بن آئی تو پوری مشینری کو حرکت ميں آنا پڑا ورنہ ايسی کتنی بيمارياں ہيں جو ہزاروں کو کھا جاتی ہيں مگر مشینری تو کجا گلی کے ہسپتال کے کمپاونڈر کے کان پر بھی جوں نہيں رينگتي۔ رہی آيڈيا دو ہزار چھ کي بات تو يہاں بالی ووڈ کی مسالہ فلم ديکھنے کے ليے تو لوگ وقت نکال ليتے ہيں مگر ايسی نمائشوں کے ليے وقت کہاں ہوتا ہے کسی کے پاس۔ بہر حال يہ اچھی بات ہے کہ اس بہانے آپ نے کسی کو جھنجھوڑنے کی کوشش تو کی۔ يہی تو الميہ ہے برصغير کا ورنہ غيروں ميں کہاں دم تھا کہ دو سو سال تک ہم پر حکومت کرتے۔
اور وسعت بھائی اسی کالم کے توسط اور اجازت سے ميں جاويد گوندل صاحب کا شکريہ ادا کرنا چاہوں گا کہ انہوں نے اس ناچيز کو دعاوں ميں ياد رکھا۔
محترم وسعت اللہ خان صاحب ، سلام و التماسِ دُعا
سب سے پہلے تو ميں دعا گو ہوں کہ آپ کے قريبی دوست جناب عبداللہ کو جلد شفائے کاملہ نصيب ہو۔ جناب، جہاں ابھی بھی مليريا عام ہو اور دستوں کی معمولی بيماری سے بچے مر رہے ہوں وہاں جديد قسم کے ہتھياروں کی نمائش کچھ عجيب سی بات ہے۔ جہاں پينے کا صاف پانی ميسر نہ ہو اور حکومتی لوگ منرل واٹر کی بوتليں ميزوں پر سجائِ قوم کو صاف پانی اور صحت سے متعلق انقلابوں کی نويديں سنائيں تو عجب لگتا ہے۔ جہاں تک ڈينگو بخار کی بات ہے، اس کی روک تھام مناسب طريقے سے کرنے کی کوشش ہی نہيں کی گئی اور سب اچھا ہے اور سب قابو ميں ہے کے روايتي نعرے لگتے رہے جبکہ يہ بات انسانی جانوں کی تھی۔ دوسری بات يہ کہ اس بخاری وبا سے زيادہ تر بيچارے غريب ہی متاثر ہو رہے ہيں اور محکمۂ صحت نے ڈبليو ايچ او کی گائيڈ لائينز لاگو کرنے کے بجائے سب ہسپتالوں کو کھلی چھٹی دے دی۔ جس کے بناء پر علاج اس انداز سے نہ ہوسکا جس کی ضرورت تھی۔ بلاوجہ سات ہزار سے بھی زائد رقم کی پلٹليٹس کی بوتليں ضائع کی گئیں اور اگر ضرورت تھی بھی تو ليبارٹري سے لانے کے بعد فوری طور پر لگانے کے بجائے دير سے لگائی گئی جس سے وہ اپنی افاديت کھو بيٹھيں۔ ڈاکٹرحضرات اور پيراميڈيکل اسٹاف کی مناسب تربيت نہيں کی گئی ۔ عوام کو آگاہی دينے کے بجائے خوف وہراس ميں مبتلا کيا گيا ۔ کہنے کو بہت کچھ ہے مگر کيا کيا کہا جائے۔
کہاں نصيب ہوئی ہيں مسرتيں صہبا
سرِ بہار بھی ہم کو خزاں گزار کہو
دعا گو
سيد رضا
برطانيہ
سرجی فکر مت کريں، روشن خيال حکومت سے بيرونی دنيا کے علاوہ ہمارے ملک کی عوام کے بجائے باقی مخلوق کو بھی جينے اور ترقی کرنے کے مواقعوں میسر آنا ضروری ہیں۔ اب راز کی باتيں کھل کر کرنا مناسب نہيں لگتا۔ وہ جو بيچتے تھے درد دوائے دل وہ اپنی دکان بڑھا گئے۔
اشرف المخلوقات کے ليے صحت کی تمام سہوليات موجود ہیں۔ رہا سوال عوام کا، اللہ حافظ، کيونکہ موت کا تو ايک دن مقرر ہے سو ڈر کس بات کا۔
وسعت اللہ خان صاحب اسلام و عليکم۔ آپ کو ياد ہوگا پی ٹی وی ايک زمانے ميں انکل عرفی نامی پروگرم دکھاتا تھا جسکے ايک کردار کا تکيہ کلام تھا چکو رکھتا اپنے پاس۔ عسکری نمائش کے حوالے سے خطرہ ہے کہ ہمارے اوپر لگائے جانے والے دہشت گردی اور دہشت گردوں کا جائِ پناہ کا الزام اور وزنی ہوں گے۔ ميں يہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ جب بھارت سميت سب ہمسایہ مملک سے دوستی ہو گی تو يہ اسلحہ ہم کہاں استعمال کريں گے اور اگر برآمد کريں تو خريدار کون ہوگا۔ ہاں البتہ اگر ڈينگی وائرس کو انہوں نے وانا، بلوچستان اور باجوڑ بمباری کے متبادل استعمال کيا تو کافی بچت ہوگی۔ ھينگ لگے نہ پھٹکری اور رنگ بھی آئے چوکھا۔ اور پھر ويسے بھی يہ آدم کش کارروائياں چھپي رہيں گے۔ خنجر پر کئی دھبہ نہ دامن پہ کوئی داغ تم قتل کو کرو ہو کے کرامات کرو ہو۔
وسعت بھائي!
مان گئے، آپ کے منفرد انداز کے کيا کہنے کہ اِدھر قاری ابھی آپکی تحرير ميں گُم ہوا ہی چاہتا ہے ادھر آپ نے اُس کے نيچے سے پورا تختہ ہی کينھچ ليا اور دھڑام کی آواز آتی ہے۔ آخرکار آپ نے پاکستان کا خطرناک ترين ميزائل ڈھونڈ ہی نکالا۔ مگر وسعت بھائی اس کا بھی آسان ترين حل يار لوگوں نے سوچ رکھا ہے کہ ہمارے ہر دلعزيز جناب شوکت عزيز صاحب اور ان کي مدح سرا وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ فکر کی بات کوئی نہيں سردی آئے گی اور ڈينگی خود ہی پانی پی کر مر جائے گا۔ پھر فکر کا ہے کي؟ ديکھيں نا کتنے سادہ دل ہيں ہمارے لوگ بھلا اس طرح کے چھوٹے چھوٹے معاملے بھی کوئی فکر مند ہونے کے لائق ہيں اور وہ بھی ہمارے بادشاہ فکر مند ہوں؟ نہ جی۔ الخالد اور ضرار ٹینک، بابر کروز میزائیل، حتف میزائیل، پندرہ سو کیلومیٹر تک مار کرنے والا غوری اور دوہزار کیلومیٹر تک مار کرنے والا شاہین ٹو میزائیل، کیمرے سے لیس خودکار بغير پائلٹ جاسوسي طيارے، پاک چائینا مشرکہ ایف سیونٹین تھنڈر لڑاکا بمبار، بکتر بند گاڑياں وغيرہ ، يہ سب ان کے نہيں کچھ اور ہی لوگوں کے منصوبے تھے جنہوں نے ساتھ ساتھ پاکستان موٹر وے ، ييلو کيب ، ائرپورٹس ٹرمينل ،ڈائيو بس سروس اور صنعت و حرفت کيساتھ انگنت منصوبے بنائے تھے۔ انہوں نے فوجی دفاع مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ قوم کی نيا کو غربت کےمجدھار سے نکال کر خوشحالی کے دھارے ميں لانے کی کوشش کی اور يہی انکا جرم ٹہرا۔ اب فوجی سازوسامان تو ہے مگر باقی باتيں خواب کی مانند لگتی ہيں۔ ہم لوگ کيوں نہيں سوچتے کہ عدم جمہوريت، اقتصادی ترقی نا شخصی آزادی، سوويت يونين کے ٹوٹنے کے يہی اسباب تھے۔
کراچي - دوبئي لگژري کرُوز ، رولز رائس کاروں کا پہلا شو رُوم
اور ملٹري ٹيکنالوجي ميں کاميابوں کي يہ فہرست ... سب يقينا” بہت مرعُوب کن سہي ...
ليکن جيسا کہ آپ کے ہاں کہا جاتا ہے:
? Who are you kidding"
اصل قومی وقار توايک تسلي بخش عوامي معيار زندگي ہي ميں ہے -
وسعت بھيا آپ کا بلاگ 4 DIMENSIONAL ہے۔ تبصرہ کرنا قدرے مشکل ہے۔ اگرچہ چار اہم موضوع ہیں
ڈنگی مچھر
آئیڈیاز دوہزار چھ
سیکیورٹی
دشمن کی میلی اور اجلی آنکھ
البتہ دو موضوع چھوٹے اور اہم .........
اول، آپ کا دوست پان والا۔ يعني پان، ڈنگی مچھراور ہتھيار سے بھی زيادہ مہلک۔
دوم، آپ اب تک سودی بينکوں اور دوسرے سودی اداروں کے چنگل سے بچے ہوئے ہيں کہ سود پہ گاڑی يا اسکوٹر نہیں ليتے اور پيدل يا رکشہ کو فوقيت ديتے ہيں۔ يعني آپ نے سود سے سیکیورٹی کی ہوئی ہے اور ایمان کا دشمن آپ کو میلی اور اجلی آنکھ سے نہيں ديکھ سکتا۔
محترمی و مکری وسعت اللہ خان
اسلام عليکم آپ نے ہميشہ کی طرح ايک خوبصورت بلاگ لکھا۔ پڑھ کر بہت خوشی ہوئی۔ اس ميں کوئی شک نہيں ہے کہ ہميں تباہ کن ہتھيار بنانے يا ان کی نمائش کرنے کے بجائے ، ڈينگی وائرس جيسی موزوں امراض کے خلاف عوام ميں آگہی پيدا کرنے کيليئے حکمت عملی بنانی چاہيے۔ تعليم کو عام کرنے کيليئے حکومت کو جامع پاليسی بنانی چاہيے چونکہ جب تعليم عام ہوگی تو پھر عوام کے اندر شعور پيدا ہوگا۔
مچھر کا جواب مکار دے گا۔