پنرجنم پر بحث
شملہ کے لیے طیارہ اڑان بھرنے ہی والا تھا کہ میرے دائں جانب مسافر کا موبائل بج اٹھا۔ شاید لائن پر مسافر کا باپ تھا۔
مسافر کہنے لگا ’باوجی جہاز اڑنے ہی والا ہے، شملہ پہنچ کے ساری کہانی بتاؤں گا، مگر باوجی آپ کا پڑ پوتا بڑا شریر ہوگیا ہے۔ مار مار کے میرا اور آپ کی بہو کا برا حال کردیا ہے۔ لگتا ہے آپ کا پنر جنم ہے۔ باوجی میں نے سنا تھا کہ پنر جنم مرنے کے بعد ہوتا ہے مگر یہ مجعزہ کیسے ہوا؟‘ ائیر ہوسٹس بار بار موبائل فون بند کرنے کی تاکید کر رہی تھی مگر مسافر کی پنرجنم پر بحث لمبی ہوتی جارہی تھی۔ تمام مسافر پنر جنم کی بحث کا آنند لینے لگے۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترمہ نعيمہ احمد مہجور صاحبہ ، آداب و التماسِ دُعا
بہت مختصر بلاگ مگر پيغام اچھا اور سچا۔ حقيقتِ حال يہی ہے کہ جہاز پر بار بار اعلان و درخواستوں کے باوجود موبائل فون کا سوئچ آف کرنا اتنا محال کيوں ہے۔ نماز باجماعت ہو يا مجلس اعلانات ہوتے ہيں پوسٹر لگتے ہيں مگر کوئی نہ کوئی بھول ہی جاتا ہے سوئچ آف کرنا۔ حد يہ کہ ہسپتالوں ميں وارڈ کے باہر جلی لفظوں ميں تحرير درخواست بھی نہيں پڑھی جاتی، نجانے کيوں ۔
ميں اميد کرتا ہوں کہ اس بلاگ ميں تبصروں کی تعداد ايک سے زيادہ ہو جائے گی اور ہونی بھی چاہيئے۔ اپنا خيال رکھيئے گا اور ميرے لئے دعا کيجيئے گا۔
نعيمہ جی آج کل ايک جنم سنبھالنا ہی وبال جان بنا ہوا ہے پُنر جنم يعنی ايک سے زيادہ بار پيدا ہونا افورڈ کرنا ايک انتہائی مشکل امر ہے۔ پھر بھی ہلکا پھلکا بلاگ پڑھ کر اچھا لگا۔ ليکن کيا آپ کو يہ نہيں لگا کہ يہ موبائل فون انسان کی بالکل ذاتی باتوں کو بھی مشتہر کر ديتا ہے يعنی بچے کے ہاتھ سے اماں ابا کی پٹائی ہو رہی ہے اور پورا جہاز محظوظ ہو رہا ہے۔ ہے نا عجيب سی بات بہر حال بچے تو بچے ہی ہو تے ہیں۔
گھر پہنچ لے ... سمجھاتا ہوں کہ يہ معجزہ کيسے ہوا‘۔
آپ کو نہيں لگا کہ باؤجی نے جواب میں کچھ ايسا ہي کہا ہوگا۔
نعيمہ جی ايک بار پھر آپ نے ہميں الجھا ديا ہے۔ اس سے پہلے آپ نے بھگوان کی کرپا سے جہاز کی اڑان کے تصوف کو آزمايا تھا اور آج پنر جنم کا جھگڑا لے بيٹھيں۔ پنر جنم کا معاملہ ہم ہندوستانيوں کے ليے اجنبی نہيں ہوسکتا کيونکہ ہندو آستھا ميں پنر جنم کا بڑا پکا يقين ہوا کرتا ہے مگر مسلمان اس سينس سے کوسوں دور ہيں۔ اس کے باوجود احترام کے طور پر ان باتوں کو سنجيدگی سے ليا جاتا ہے۔ ہاں آپ نے اس بلاگ کے ذريعہ پنر جنم کے تصور کو پيش کيا جو اردو کے ايک بڑے حلقے کے ليے يقيناً معلومات ميں اضافے کا باعث ہوا ہوگا۔
نعيمہ احمد مہجور صاحبہ اپ بلاگ کا حق ادا کر رہی ہيں۔ پرسنل فيلنگ مختصر مگر پھر بھی بھر پور۔ آج تو آپ مجھے بالکل ايک ممتحن لگيں جس نےشاگرد کو اردو اور ہندی کی خليج پر سوچنے سے دوچار کر ديا ہے۔ اب پاکستان ميں بھلا کون پنر جنم کیا ہے، کسے خبرگونڈلی کیا ہے۔ 60 سالوں کے اندر اتنی تبديلی اور دوري۔ اب پاکستانی ہندو سماج کی ايسی اصطلاحات اور مافوق الفطرت خيالات کی بجائے عربی ايرانی عقائد کے حوالوں سے گھوڑے اور تعزيوں کے نام وسواس بند ہوکر رہ گئے ہيں۔ بڑی کلچرل سماجی تبديلی ہے۔
پنر جنم مرنے کے بعد ہوتا ہے کا جواب باؤ جی نے کيا ديا ہوگا يہ سو چنے کی بات ہے۔ ہو سکتا ہے پنر جنم کے نظريے کو قائم رکھنے کے ليے کہا ہو ’اوہ الو ميں تيرا باؤ جی نہيں‘۔ اس کا مطلب تو يہ بھی ہوا کہ کسی زندہ آدمی سے عادتوں کا ملنا نا ممکن ہے اور اگر زندہ سے عادتيں مل جائيں تو اس کو معجزہ ہی سمجھنا چاہيے۔ ايسے لوگوں کی کمی نہيں جو ارد گرد کے ماحول سے بے خبر اپنی بات کیے چلے جاتے ہيں۔ ان کا موبائل خود ہی بند کرنا پڑتا ہے۔