| بلاگز | اگلا بلاگ >>

آلٹو کا بھکاری

وسعت اللہ خان | 2006-10-19 ،13:33

کراچی کے کاروباری دل آئی آئی چندریگر روڈ پر برسوں مجھے ایک بوڑھی خاتون دکھائی دیتی رہیں۔ انکے ہاتھ میں انسانی پسلیوں کا ایک ایکسرے نیگیٹیو ہوتا تھا جو اس قدر پرانا ہوچکا تھا کہ اس پر انگلیوں کے گرد آلود نشانات جم چکے تھے۔
blo_wusat_begging170.jpg

وہ ہر ایک سے کہتی تھیں ’اگلے ہفتے بیٹے کی ٹانگ کا آپریشن ہونے والا ہے۔ کچھ امداد کردیں۔ یہ اس کا ایکسرے ہے۔‘ لوگ پسلیوں کے ایکسرے کو دیکھ کر مسکرادیتے اور خاتون کو کچھ نہ کچھ پیسے دے دیتے تھے۔

اسی طرح ایک سفید پوش بڑے میاں حسن اسکوائر پر اکثر ٹہلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ کئی برس سے لانڈھی جانے والی سڑک کا پتہ پوچھتے ہیں۔ جو لوگ انہیں جانتے ہیں وہ آگے بڑھ جاتے ہیں لیکن کوئی نہ کوئی نووارد ترس کھا کر کچھ نہ کچھ دے ہی دیتا ہے تاکہ بڑے میاں بیس پچیس کلومیٹر پیدل چلنے کے بجائے کسی بس میں بیٹھ کر آرام سے لانڈھی چلے جائیں۔

کبھی کبھی کسی سڑک پر ایک جوڑا دکھائی دے جاتا ہے۔کسی دن عورت کے ہاتھ میں تو کسی دن مرد کے ہاتھ میں ابلے ہوئے چھولوں کی ایک پرات ہوتی ہے۔ جہاں بھی انہیں رش نظر آجاتا ہے وہ کسی نہ کسی سے ٹکرا جاتے ہیں اور چھولوں کی پرات گر جاتی ہے۔ دونوں دھاڑیں مارنا شروع کردیتے ہیں۔ اب ہم کیا کمائیں گے۔ گھر میں بچے بھوکے بیٹھے ہیں۔ ہماری تو قسمت ہی پھوٹ گئی۔ہم تو لٹ گئے۔۔۔۔۔۔ عموماً جس سے ٹکرا کر یہ پرات گرتی ہے وہ بے چارہ احساسِ جرم کا شکار ہوکر پچیس، پچاس روپے نکال دیتا ہے اور آس پاس کے لوگ بھی تھوڑی بہت امداد کردیتے ہیں۔

ڈیفنس کے کسی نہ کسی چوراہے پر اکثر ایک صاف ستھرا شائستہ سا خاندان نظر آتا ہے۔ مرد نے کلف لگا شلوار قمیض اور جناح کیپ پہنی ہوتی ہے۔ عورت اچھی سی ساڑھی میں ملبوس ہوتی ہے۔ اسکے برابر میں ایک نو دس برس کا مسکراتا ہوا کیوٹ سا بچہ ایک گلاب لئے کھڑا ہوتا ہے۔ اس بچے کی چار پانچ برس کی بہن ایک چھوٹی سی جاذبِ نظر کرسی پر بیٹھی اپنے آپ میں مگن کھیلتی رہتی ہے۔ یہ فیملی بس یونہی کھڑی رہتی ہے۔ کسی سے کچھ نہیں کہتی لیکن سگنل پر رکنے والی ہر وہ گاڑی جس میں خواتین بھی ہوں، اس خوشگوار سے خاندان کو کچھ نہ کچھ دے کر آگے بڑھ جاتی ہے۔

لیکن پرسوں اسلام آباد میں جو تجربہ ہوا اس سے میرے طوطے اڑ گئے۔ میں دفتر سے گیسٹ ہاؤس آ رھا تھا کہ مخالف سمت سے ایک نئی سفید آلٹو کار میرے قریب آ کر رک گئی۔ فرنٹ سیٹ پر ایک سادہ سی خاتون گود میں بچہ لئے بیٹھی تھیں۔ایک بچی پچھلی سیٹ پر گڑیا سے کھیل رہی تھی۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوئے مرد نے گاڑی کا شیشہ نیچے کیا۔ ’ایکسکیوز می سر۔ کیا آپ ہماری مدد کرسکتے ہیں۔‘

میرے ذھن میں پہلا خیال آیا کہ یہ شائد بھٹک گئے ہیں اور راستہ پوچھنا چاہ رہے ہیں۔ میں نے ان کے کچھ بولنے سے پہلے ہی کہا کہ میں یہاں سے ناواقف ہوں۔ ’نہیں سر یہ بات نہیں ہے۔اصل میں میری وائف کا پرس کہیں گر گیا ہے۔اور میرا بٹوا کسی نے چھین لیا ہے۔آپ کچھ سو ، دو سو، پانچ سو ہمیں دے دیں سر۔ابھی ہمیں گھر جانا ہے۔‘

میں نے کہا کہ اسوقت تو میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔یہ سنتے ہی گاڑی آہستہ آہستہ آگے بڑھ گئی۔میں نے مڑ کر دیکھا۔ڈرائیور ادھر ادھر گردن گھما کر شائد کوئی اور پارٹی تلاش کررھا تھا۔

ہوسکتا ہے کہ وہ واقعی کوئی ضرورت مند ہوں۔لیکن اگر یہ کوئی پیشہ ور جوڑا ہے تو مجھے یقین ہے کہ اپنے اس نادر طریقے سے یہ جوڑا راہگیروں کو سوچنے سمجھنے کا موقع دئیے بغیر اچھا خاصا کما لیتا ہوگا۔ بہت دنوں تک لوگ یہ نہیں سمجھ پائیں گے کہ اب چھولے گرا کر، ایکسرے دکھا کر یا لانڈھی کا راستہ پوچھ کر بھیک مانگنے کا طریقہ فرسودہ ہوچکا۔ یہ اکیسویں صدی کی کارپوریٹ دنیا ہے۔ یہ آلٹو میں بیٹھ کر بھیک مانگنے کا دور ہے۔

تبصرےتبصرہ کریں

  • 1. 14:21 2006-10-19 ,سيد رضا ، برطانيہ :

    محترم وسعت اللہ خان صاحب، سلام اور عيد کی پيشگي مبارک باد۔
    بہت ہی اچھے، بہت ہی درست اور خوبصورت تحرير جو کہ دل گداز بھی ہے اور اس معاشرے کے رويوں پر شائستگی سے چوٹ بھی ہے۔ ايسا ہی قصہ ميرے ساتھ بھی روز ہوتا تھا جب ميں سول ہسپتال ميں ہاؤس جاب کرتا تھا۔ روز ايک بچے سے آلو چنے کی ٹرے وارڈ کی سڑھيوں پر گر جاتی تھی تو وہ بيٹھا روتا رہتا تھا اور پھر ہر گزرنے والا اس کا يہ نقصان پورا کرنے کے لئے اس کی امداد کرتا تھا۔ چليں يہ تو آلٹو کے بھکاريوں کے قصے ہيں مگر ہمارے يہاں تو جہازوں ميں بيٹھ کر غريبی مٹاؤ کے نام پر دنيا بھر سے حکمران طبقہ کتنی امداد حاصل کرتا ہے اور قرضے معاف کرواتا آيا ہے اور ہم غريب کے غريب ہی ہيں۔ براۓ مہربانی اس پر بھی کبھی روشنی ڈالئے گا۔

  • 2. 15:07 2006-10-19 ,طارق خان :

    وسعت صاحب صحيح کہا آپ نے۔

  • 3. 16:01 2006-10-19 ,اے رضا، ابوظبی :

    آپ نے اُن سے يہ نہيں پوچھا کہ عمان سے کب آنا ہوا؟ چند برس قبل ادھر ابوظہبی ميں اکثر ديکھنے ميں آنے لگا تھا کہ ڈيڑھ سو کلوميٹر مشرق ميں العين کے شہر سے مُلحق پڑوسی ملک عمان کی نمبر پليٹ والی پراني سي کسي گاڑی ميں ايک کنبہ مدد کا طلب گار ہوتا تھا۔ ان کي نقدي وغيرہ کھو چکي ہوتي تھي اور واپسي کے لئے پٹرول کے پيسے تک نہيں ہوتے تھے۔ خود ميرے ساتھ يہ واقعہ متعداد بار پيش آيا ليکن عجب اتفاق ہے کہ تقريباً ہر مرتبہ ... اُنہيں پاکستانی ہی پايا۔

  • 4. 16:52 2006-10-19 ,وسيم :


    وسعت اللہ خان بھائی قلم اور قالم ميں آپ کا کالم ضرور پڑھتا ہوں اس بار آپ نے کمال کا سوال اٹھايا ہے۔ جو بھی ہے جيسے بھی ہے ايسے لوگوں نے حق دار لوگوں کا بھی اعتبار ختم کر ديا ہے اور ظلم کی بات کہ يہ لوگ اکثر پيشہ وار مجرم بھی ہوتے ہيں اور وقت اور چانس ملنے پر اغوا اور دوسرے جرائم کرتے ہيں اور یہ بات سنی نہيں بلکہ یہ حادثہ ميری والدہ کے ساتھ ہو چکا ہے۔ اگر مجھے موقع ديا جائے تو يہ سب بھکاری ساری عمر جيل کی چکی پيسیں۔
    ان پر رحم کرنےوالا يا تو کہيں بے يارو مدد کہيں ويران جگہ پر ملے گا اور اکثر نہيں ملتا۔

  • 5. 18:04 2006-10-19 ,خرم :

    جِی ہاں ميرے ساتھ ايسا ہو چکا ہے اور ايک Coure ميں سوار جوڑے نے مجھ سے پرس گم ہونے اور فيصل آباد جانے کی کہانی سنا کر ہزار روپے بٹور لئے اور ميرا ايڈريس بھی ليا کہ گھر پہنچ کر پيسے منی آرڈر کر ديں گے۔ تين ماہ سے انتظار ہے۔ سب لوگ ايسے فريبيوں سے محتاط رہيں۔

  • 6. 19:30 2006-10-19 ,Sajjadul Hasnain Hyd India :

    وسعت صاحب مشرقی معاشرے کی بڑی کربناک تصوير پيش کی ہے۔ بندہ بھيک مانگتا اچھا نہيں لگتا مگر افسوس کہ مانگنے کے نئے نئے طريقے اپنائے جا رہے ہيں۔ کسی مجبور لاچار يا بڑھيا کی بات اور ہے مگر يہ کيا ايک خوشحال خاندان يا پھر کار ميں بيٹھے لوگ، يہ نيا انداز۔ کيا يہ معاشرے کی کمزوری کی عکاسی کرتا ہے يا پھر بے حيائی اور بے حسی کي۔ جو کچھ بھي ہو ايسے معاملات يا حالات کی حوصلہ شکنی وقت کا تقاضا ہوگی ورنہ پھر قوموں کی عزت کا اللہ ہی حافظ ہوگا۔

  • 7. 8:32 2006-10-20 ,عمر دراز :

    بدلتا ہے رنگ آسماں کیا کیا

  • 8. 18:53 2006-10-20 ,ابرار سيد :

    آپ نے تو ان کے جديد طريقہ کو بھی ناکام بنا ديا۔ ويسے سچ بتائيں کہ واقعی آپ کی جيب ميں اس وقت سو روپيہ بھی نہيں تھا۔ آج کا دور جدت کا دور ہے جو بھی اچھوتا آئيڈيا نکالے گا کامياب ہوگا۔

  • 9. 3:12 2006-10-28 ,aziz Mohiuddin :

    دو سال قبل جب میں اپنی فیملی سے ملنے گیا تو مجھے بھی کچھ اسی قسم کا تجربہ ہوا۔ میری ملاقات ایک رکشے والے سے ہوئی جس نے مجھے بتایا کہ اس کو بیٹی کے علاج کے لیے پانچ ہزار روپے کی ضرورت ہے اور اس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ یہ رقم جلد ہی لوٹا دے گا۔ میں نے اس کا یقین کر لیا اور بٹوے میں جو رقم تھی اسے دے دی۔ اس کے بعد میں نے اسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔

  • 10. 14:37 2006-10-28 ,shahidaakram :

    وسعت بھائی آپ کا بلاگ پڑھ کر تھوڑی دير کے لئے سوچ ميں پڑ گئی ہوں کہ دنيا کيا سے کيا ہو جائے گي۔ آج ہم بہروپ بھری دنيا کے باسی ہوگئے ہيں۔ ہر بات، ہر رنگ دوسرے سے جدا ہونے کے باوجود ہم ميں سے ہر کوئی بہروپيا ہو گيا ہے۔ کہيں يہ رنگ ہم اپنے لئے اپنی خوشی سے چنتے ہيں اور کہيں کوئی مجبوری ہم سے يہ سب کرواتی ہے اور سچ بتاؤں ايسے بہروپیوں کی وجہ سے بعض اوقات حقيقی مستحق محروم رہ جاتے ہيں اور يہ بات بہت دکھ ديتی ہے۔ کبھی کسی پر اعتبار نہ کر کے اگر کسی کی مدد نہ کی جائے تو بعد کی چبھن کافی دنوں تک چين نہيں لينے ديتی کہ ہو سکتا ہے اگلا بندہ واقعی ضرورت مند رہا ہو اور ہم مدد نہ کر پائے ہوں۔ ويسے بھی بچپن سے پڑھا اور بزرگوں سے سنا ہے کہ سائل کو خالی ہاتھ نہيں لوٹانا چاہيئے۔ روايات ميں اور احاديث ميں تو يہ بھی ہے کہ صحابہ کرام اور خود نبی پاک نے اور ان کی ازواج مطہرات نے سائل کو خود بھوکا رہ کر بھی دروازِ ے سے خالی ہاتھ نہيں لوٹايا۔ آپ کہيں گے يہ سب کچھ آج کل نہيں ہوتا، بالکل درست ہے۔ ميں نے تو حرم پاک کی تعظيم کو بھی اپنے لوگوں کو پامال کرتے ہوئے اور اسی طرح کے فضول جھوٹ بولتے ہوئے ديکھا ہے کہ پرس گر گيا ہے، جيب کٹ گئی ہے اور حرم شريف کے اندر کھڑے ہوئے اس طرح کی بات سُن کر باوجود اس يقين کے پختہ ہونے کے کہ يہ جھوٹ ہے پھر بھی مدد کئے بغير دل نہيں مانتا کہ ہو سکتا ہے ہمارا يقين ہی جھوٹا ہو بندہ سچ کہہ رہا ہو۔ سو اگر کوئی ايسا واقعہ آپ کے علم ميں ہو جس سے غلط اور صحيح کی پہچان ہوتی ہو تو چہرے کو پہچان کر حسبِ توفيق مدد ضرور کر ديا کيجيئے۔ کون جانے چھولوں کی پرات يا راستہ پوچھنے والے بابا جی سچے ہی ہوں اور ہماری تھوڑی سی مدد سے کسی کا بھلا ہو جائے تو کيا برا ہے۔ آلٹو والی فيملی بھی ہو سکتا ہے کوئی ايسی ہی سفيد پوش رہی۔ ہو کچھ کہا نہيں جا سکتا ويسے بھی 2006 ہے دُنيا آگے ہی آگے جا رہی ہے۔ ہر چيز کا فيشن تبديل ہو رہا ہے۔ سو عادی ہو جائيں سٹائلش قسم کے بہروپيوں کے۔

  • 11. 18:37 2006-11-11 ,آصف اميرگنڈاپور :

    يہ آج سے کوئی تين سال پہلے کی بات ہے۔ ميں لاہور ميں لوئر مال پر رات کے آٹھ بجے جا رہا تھا کہ ايک نوجوان نے مجھے روک کر پوچھا ’بھائی صاحب بادامی باغ کا اڈہ کتنی دور ہے؟‘ ماں نے کہا گاڑی ميں زيادہ سے زيادہ دس پندرہ منٹ لگيں گے۔ وہ نوجوان بولا نہيں ميں نے پيدل جانا ہے۔ ميں نے حيران ہو کر پوچھا گاڑی ميں کيوں نہيں چلے جاتے؟ تو وہ بولا ’ميری جيب کٹ گئی ہے اور مجھے دراصل کوٹ رادھاکشن جانا ہے‘۔ ميں نے اسے سو روپيہ ديا تاکہ وہ اپنے گھر پہنچ سکے۔ وسعت بھائی آپ کا کالم پڑھنے سے پہلے مجھے جب بھی وہ نوجوان ياد آتا تھا تو ايک روحانی خوشي محسوس ہوتی تھی کہ چلو کبھی کسی کی مدد تو کی۔ اب سوچتا ہوں کيا وہ واقعی ضرورت مند تھا يا اس رات ميری ملاقات ايک بڑے فنکار سے ہوئی تھي۔

91ȱ iD

91ȱ navigation

91ȱ © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔