روٹی باس کو کھلادوں یا بچوں کو
بھارت میں اقتصادی ترقی اپنی جگہ مگر جب تک ہزاروں بھوکے اور غریب بچوں کو شام کی روٹی میسر نہیں، میں اس ترقی کا کوئی سرٹیفیکیٹ نہیں دے سکتی۔
اپنی آنکھوں سے بچوں کو کوڑے کے ڈھیر سے کھانا چنتے دیکھا ہے۔ یقین نہ آئے تو دلی کی جھگی بستیوں یا نظام الدین کے مزار کے سامنے جائیں۔ میری بات کا خود یقین آجائےگا۔
میں بنجارن زندگی کے سفر کے دوران پنجاب کے ایک معمولی ہوٹل میں لنچ کھانے گئی۔ لنچ کے بعد جانے کے لیے اٹھی ہی تھی کہ ویٹر دوڑے دوڑے کاغذ کا ڈبہ اٹھائے ہوئے آیا اور بولا ’میڈم بچا ہوا اپنا کھانہ ساتھ لے جائیں‘۔ میں نے کہا ’میں اس کھانے کا کیا کروں‘۔ ’اپنے بچوں کو کھلائیں وہ بھی عید منائیں گے‘ اس نے کہا۔ میں نے کہا ’میں یہاں نہیں رہتی۔ دفتری کام پر ہوں۔ میرے بچے ساتھ نہیں ہیں۔‘
’تو پھر اپنے باس کو کھلائیے۔ترقی دے گا۔ آپ نے نہیں سنا ہے کہ ترقی کی پہلی سیڑھی پیٹ سے ہی شروع ہوتی ہے۔‘
میرے سامنے باس کا چہرہ گھومنے لگا اور اس کا وہ سوکھا سینڈوچ جو وہ کئی مرتبہ آدھا کھانے کے بعد ڈسٹ بن کی تلاش میں سامنے آنے والے شخص کو تھما دیتا ہے۔
میں نے چپ چاپ بچا ہوا کھانا اٹھایا اور سوچ ہی رہی تھی کہ اس کا کیا کروں کہ گیٹ کے باہر انتظار میں کئی ننگے بھوکے بچے ملے۔ میں نے ڈبہ ان کی طرف بڑھایا مگر نہ جانے میرا دل بھاری کیوں ہوگیا۔
ویٹر لوگ خود ہی بچے ہوئے کھانے کو غریب بچوں میں تقسیم کیوں نہیں کرتے؟ یہ معمہ میں ابھی تک نہیں سمجھی۔
تبصرےتبصرہ کریں
ُُ’ویٹر لوگ خود ہی بچے ہوئے کھانے کو غریب بچوں میں تقسیم کیوں نہیں کرتے؟ یہ معمہ میں ابھی تک نہیں سمجھی‘۔
اس لئيے کہ جب بھوک کے ہاتھوں مارے لوگ تعداد ميں بےشمار ہوں تو ريسٹورنٹس پر روٹی روٹی پکارتے اور چھينا جھپٹی کرتے بھوکے بچوں کے ہجوم کے باعث سير شکم لوگوں کو سکون سے کھانا کھانے کا مسئلہ ہو جائے اور اس بناء پر بے چارے غريب ويٹروں کی اپنے کام سے چھٹی ہو جائے۔ باقی بھارتی ترقی پہ آپ نے خود ہی بات کردی ہے۔
محترمہ نعيمہ احمد مہجور صاحبہ، سلام عرض
انتہائی دل گداز تحرير جس نے ميری آنکھوں کو نم کرديا۔ جسے پڑھ کر مجھے لگا کہ وہ بھوک ہے اعضاء کہيں اعضاء کو نہ کھا ليں۔
آخر يہ غربت، يہ بھوک کب تک اپنے پيٹ کی آگ کوڑے ميں پڑے کھانے باسی کھا نوں سے بھرتی رہے گی، آخر کب تک ۔۔ ؟
چاند پر جانا والا انسان کبھی اپنی زمين پر رينگتے ان چھوٹے چھوٹے کيڑوں کو بھی ديکھے گا؟ يہ بھوک کے مارے چيخ چيخ کر ہم سے سوال کر رہے ہيں کہ تم بھی تو ميرے جيسے انساں ہو، ميرے دوست بنو، ميرے دوست بنو۔
اقبال کی اس دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گا کہ
جسے نانِ جويں بخشی ہے تو نے
اسے بازؤئے حيدر بھی عطا کر
مُحترمہ نعيمہ مہجُور صاحبہ
آداب کے بعد عرض ہے کہ زرمبادلہ کے وسيع ذخائر ، بڑھتی ہوئی برآمدات ، ايک مضبوط صنعتی ڈھانچے ، اربوں ڈالر ماليت کي دُنيا کی سب سے بڑی فلمی صنعت ، افريقہ مشرق وُسطٰی لندن اور بالخصُوص سيليکون ويلی کيليفورنيا ميں ، اکثريتی آئی ٹی کمپنيوں کے مالک ،ہندوستان جو عالمی طاقت بننے کی آرزُو بھي رکھتا ہے ... ايک مُنتخب حکُومت کي موجُودگي ميں، غريب شہری کی يہ حالت ، مُعاشرے کی بے حسی کا نتيجہ ہے -
دُنيا کے سب سے بڑے سٹيل مل مالک، بھارت کے مسٹر مٹل ، دُنيا کی مہنگی ترين شادی کی رسومات کا عالمی ريکارڈ رکھتے ہيں- ارب پتيوں کی تازہ ترين عالمی فہرست ميں نۓ اضافے ، بھارتی نژاد تاجروں اور صنعتکاروں کي طرف سے ہيں-
انتہائی سخت مُقابلے کے اس عالمی دور ميں ، يہ لياقت اور بے مثال کارکردگي کوئی معمُولی بات نہيں ہے- کوئي بھي قوم اس پر فخر کرنے ميں بُہت حق بجانب ہے ... ليکن اُسي مُعاشرے کا ايک طبقہ کُوڑے کرکٹ ميں روٹی تلاش کرتا پھرے ... قومي وقار کے تناظُر ميں ، سارے کۓ کراۓ پر پاني پھر جانے کے مُترادف ہے -
مُجھے يقين کامل ہے، کہ کاروباری سُوجھ بُوجھ کے يہ گُرو ، جنہوں نے عالمي سطح پر اپنا لوہا منوايا ہے ، اگر سر جوڑ کر بيٹھيں ، تو ايسا مُعاشی حل ضرُور نکال سکتے ہيں کہ بھارت ميں کوئی بھُوکا نہ رہے گا -
اگر اُنہوں نےايسا کر دکھايا ، تو نہ صرف يہ اُن کی سب سے بڑی کاميابی ہوگي ، بلکہ اُس روز بھارت واقعي دُنيا کا ايک عظيم ترين اور قابل تقليد مُلک ہو گا-
نعيمہ جی بڑی ہی چابکدستی سے آپ نے عوام کی بدحالی کی ےہ کربناک تصوير پيش کی ہے-يہ آپ ہی کا کمال ہے کہ بنجاروں کی زبوں حالی ہندوستان کی ترقی اور عوام کی فاقہ کشی پر ايک ہی وار ميں کاری نشتر لگاجاتی ہيں-يہ تو پوری دنيا جانتی ہےکہ اب ہندوستان نے بھی وہی پاليسياں اپنالی ہيں جو مغرب کا يا پھر ترقی يافتہ ممالک کا وطيرہ رہی ہيں-بی جے پی کی سرکار نے نجی کاری کا نعرہ لگايا اور دھڑادھڑ سرکاری ادارے اور پبلک سيکٹر کی کمپنياں غيروں کے قبضے ميں آگيںء-گلوبلاءزيشن کے نام پر ہندوستان ميں کیا کچھ نہیںکيا گيا-يقينا معاشی اصلاحات کی ان پاليسيوں نے ملک کے خزانے کو بھرديا ہوگا مگرعوام تو بے چارے ہر زمانے ميں عوام ہی رہے ہيں-دنيا جانتی ہے کہ معاشی اصلاحات نے غريب کو اور غریب کيا ہے امير اور امير بنتا گيا-آزادی سے پہلے بھی روٹی کپڑا اور مکان کو ہندوستانی عوام کے بنيادی مساءيل ميں شمار کيا جاتا ہے اور آج آزادی کے پچاس سال بعد بھی يہ مساءيل جوں کے توں برقرار ہيں-اور رہی سرٹيفکيٹ دينے کی بات تو بےفکر رہيے سرکار انتخابات سے پہلےکسی بھی چيز کی پرواہ نہيں کرتی ملک بھر ميں جانور شماری ہورہی تھی تحفظ حیوانات کی انجمنوں کے ستاتھ ساتھ محکمہ حيوانات کے اہلکار بھی اس کام ميں خاصا جوش وخروش دکھارہے تھے-ايک اہلکار کا صدردفتر کو فون آتا ہے کہ جناب ميں نے گاوءں ميں ايک عجيب وغريب جانور ديکھا ہے-جو لگتا انسان ہے چلتا انسان ہی کی طرح مگر قدرے جھک کر پيٹھ کمان کی طرح ہے اور کھال سياہ ہڈيوں سے چپکی ہوءی اور اآنکھيں غار نظر آرہی ہيں بتاءےاس کو کيا نام ديا جاءے-دوسری جانب سے افسر کي پھٹکار سناءی ديتی ہے ارے کم بخت وہ جانور نہيں ووٹر ہے اسکی فورا خاطر داری کرو_
سجادالحسنين-حيدرآباد دکن
محترمہ نعيمہ احمد مہجور صاحبہ آپ کی تحرير سے ميں بھارتی معاشرہ کی خود داری اور ايمانداری کا انازہ لگاتا ہوں کہ نہ تو ويٹر نے خود کھايانہ اپنے بچوں واسطے رکھا نہ ہی خودبچ ميں بانٹ ديا جو شائد کوڑے سے مشقت سے نکال کر تو کھا ليتے غير کی خيرات نہ کھاتے
نعيمہ جی آپ کا آج کا بلاگ پڑھ کر ميں حيرت ميں اس لۓ نہيں پڑي، کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں ملکوں کے حالات ايک جيسے ہی ہيں ايک طرف ديکھيں تو بلندو بالا عمارتيں، زندگی کی ہر آسائش سے بھر ے ہو ۓ انتہائ خوبصورت ترين گھر اور دوسری طرف کُوڑے کرکٹ سے چُن کر پيٹ کا دوزخ بھرتے ہوۓ بچے ہميں دو مختلف دنياؤں کا عجيب و غريب رُوپ دکھاتے ہيں اور ايسے وقت ميں روٹی کا ايک نوالہ بھی ضائع کرنے کو دل نہيں مانتا ، ميری امی کہا کرتی تھيں کہ کھانا کم نہيں ہونا چاہيۓ کہ ہوسکتا ہے کوئ اچانک آ جاۓ سو روٹی کبھی گن کر نا بنايا کرو کھانے ميں سے برکت جاتی رہتی ہے اور کوئ نا بھي ہو تو کوئ فقير کو يا کام والی کو بھجوا ديا جاتا تھا کھانا، ليکن يہاں نا کام والی نا کوئ فقير تو ميں گن کر اور پوچھ کر روٹی بناتی ہوں کہ ايک لُقمہ بھی ضائع ہو تو دل بہت ڈرتا ہے کہ اناج کے ايک ايک دانے کو ترسنے والے دنيا ميں بڑھتے ہی جا رہے ہيں ،ويٹر بے چارے کی بھی کوئ مجبوری رہی ہو گی اُس کے حصے کا کام آپ نے خود کر ديااچھا کيا، دعا کريں کہ دنيا کی اس اُونچ نيچ کو ختم کرنے کی کوئ صورت ہو جاۓ،اے کاش کہ ايساہو جاۓ،آمين
دعاگو
شاہدہ اکرم
ممبئی کے تو ائرپورٹ کے ساتھ ہی جھوپڑپٹی کی نہ ختم ہونے والی دنيا ہے ليکن کھانا ہو کہ نہيں تقريباً سب کے ہی پاس ٹي وی ضرور ہے۔ صرف بولي وڈ اور ٹی وی چينلز نے ہی ترقی پکڑی ہے۔ جتنی غربت انڈيا ميں ہے شايد اتنی جنوبی ايشياء ميں نہيں۔ ايسے بيچارے بھوکے ننگے بچوں کو ديکھ کر لگتا ہے جيسے ان لوگوں کا کوئی وجود ہی نہيں ہے۔ دنيا ميں پھر تو بہتر حالت بنجاروں کی ہوئی نا نعيمہ آنٹي؟ ويٹر نے بھی سوچا ہوگا کہ يہ بچا ہوا کھانا کسے دوں۔ سو اچھا ہی کيا آپ نے خود ہی دے ديا کھانا۔ ايٹمی طاقت ہونا ضروری ہے يا غريبوں کی دعايئں لينا۔ ايف 16 طياروں کے آ جانے سے کيا غربت ختم ہو جائیگی۔ مقصد تو غريبوں کو ہی ختم کرنا لگتا ہے۔
مجھے يہ سمجہ نہيں آ رہا کہ آپ کو ہندوستان کی غربت کيوں نظر آئی کيوں کہ غربت تو ہر جگہ ہے، يورپ ہو يا امریکہ۔ ايشيا کی تو بات ہی نہ کريں۔ فرانس ميں ايک مزاحيہ اداکار نے اپنی ذاتی کوششوں سے بہت سے ريستوراں بنوائے ہيں جہاں غريبوں کو مفت کھانا فراہم کيا جاتا ہے۔ سوال يہ ہے کہ کيا غربت مقدر ہے يا ايک بيماری جس کاعلاج موجود ہے مگر معاشرہ اور سياستدان اسے ختم کرنے کی بجائے اس سے کھيلتے رہتے ہيں۔
محترمہ نعيمہ احمد جی اسلام عليکم !
اللہ تعالٰی آپ کو سلامت رکھے۔ آپ کے چند بلاگ چھوڑ کر باقی سب بہت اچھے لگے۔ آپ بھارت کا حال احوال لکھ رہی ہيں۔ ميں سوچتا ہوں کہ شکر ہے ہمارے خطے ميں بھارت بھی تھا۔ ہماری حکومت کو بھی جواز مل جاتا ہے اپنی خامياں چھپانے کا۔ ہمارے حکمران ہميں بھارت کی غربت کی مثاليں ديتے ہيں ان کو يہ نہيں معلوم کہ ہماری آبادی 16 کروڑ ہے اور بھارت کی آبادی 1 ارب 16 کروڑ ہے۔ مگر آبادی ميں اضافے کی وجہ سے غربت ضرور ہے مگر وہ تقريباً ہر شعبہ زندگی ميں ہم سے آگے ہيں۔ اور دنيا بھر ميں ايک جمہوری ملک کی حثيت سے ان کا نام عزت واحترام سے ليا جاتا ہے۔ ہم لوگ واقعی رات کو بھوکے نہيں سوتے، ناچنے واليوں پر روپے بھی کاغذوں کی طرح پھينکتے ہيں مگر ہماری معيشت انتہائی تنزلی کا شکار ہے۔ آنے والا وقت ہمارے لئے سخت مشکل ہوگا۔