امن، شانتی اور خدا
یہ امریکہ کی درویش قوم ہے۔ آمش۔ فیملی، چرچ، کھیت، سادگی، اور تنہائی۔ امن، شانتی اور خدا۔
امریکہ کی پچاس ریاستوں میں سے زیادہ تر سینتالیس میں آباد ان آمش لوگوں کی کل آبادی جنگ اخبار یا پینسلوانیہ اور اوہائیو ریاست کے بڑے اخبارات کے پڑھنے والوں سے بھی کم ہے یعنی ڈیڑھ لاکھ سے دو لاکھ کے درمیان۔
کل مجھے پاکستان کے دور دراز علاقے وارہ سے میرا دوست منظور مارفانی فون پر اس کے علاقے میں بھی جدید دور کی سہولیات پر بتا رہا تھا کہ اب تو علاقے میں فقیر بھی اگر بھیک مانگ رہا ہوتا ہے تو اس کی جیب میں پڑے ہوئے سیل فون کی گھنٹی بجتی ہے۔
آپ تصور کریں کہ امریکہ میں آمش لوگوں کی آبادی اکثر ایسی ہے جو آج بھی بڑی خوشی سے بغیر بجلی، موٹر گاڑی، مشینری کے استعمال، اور جدید سہولیات و نمائش و نمود کے زندگی بسر کرتے ہیں۔ وہ زمینوں میں گھوڑے جوت کر ہل چلاتے ہیں، چرچ کو ریاست سے علیحدہ رکھنے میں یقین رکھتے ہیں، عدالتوں میں قسم نہیں اٹھاتے اور ان کا عقیدہ انہیں جنگ اور انسانوں پر ہتھیار چلانے کی اجازت نہیں دیتا۔
ویسے تو امریکی مشرقی ساحل پر سب سے خوبصورت خزاں ریاست پینسلوانیہ اور وہ بھی آمش کنٹری لینکسٹر کاؤنٹی میں ہوتی ہے جہاں تاحد نظر چناروں جیسے درختوں والے جنگل اس ملک کو لال گلال کشمیر کیئے ہوتے ہیں اور کھیتوں میں گھوڑوں سے ہل چلاتے ہوئے بڑی ہیٹوں اور داڑہیوں والے آمش کسی پوسٹ کارڈ کا پتہ دیتے ہیں۔ یہی اکتوبر مہینہ آمش لوگوں کی فصلوں کی کٹائی یا ہارویسٹ کا مہینہ بھی ہے۔ لیکن اس بار یہاں خوبصورت خزاں خون روئی ہے کیونکہ کسی جنونی بندوق باز نے آمش اسکول میں گھس کر تین بچیوں کو ہلاک کر ڈالا۔ آمش کائونٹی دکھی ہے۔ لیکن انہوں نے قاتل کو بھی معاف کردیا ہے! قاتل، کہتے ہیں کہ اپنی چھوٹی بچی کے مر جانے سے خدا سے اور خود سے نفرت کرنے لگا تھا!
تحقیق، دنیا جنونی لوگوں سے بھری ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
جناب حسن مجتٰبی صاحب، سلام عرض
محبتوں سے بھری باتيں اچھي لگيں ۔۔
کاش اس دنيا کا ہر باسی آمشيوں کی طرح رہنے اور سوچنے لگے تو دنيا جنت نظير ہوجائے گی۔
دعا گو
سيد رضا
برطانيہ
حسن صاحب آمش قبيلے کے لوگوں کی روايات اور عادتيں پڑھ کر کچھ عجيب سا لگا کہ آج کی دنيا ميں جہاں سب کچھ مادہ پرستی کی نظر ہو گيا ہے لوگ پرانے طريقوں کو اپنائے ہوئے ہيں۔ مجھے ان کی سوچ نے بہت اپيل کيا اور سب سے اچھی بات يہ لگی کہ يہ لوگ ہتھياروں کے استعمال کو برا سمجھتے ہيں، عدالتوں ميں قسم نہيں کھاتے اور انسان کو انسان سمجھتے ہيں۔ عقيدہ ان کا جو بھی رہا ہو سوچ اچھی ہے اور يہی بات اچھی ہے کہ کسی کو نقصان نہيں پہنچانا چاہتے۔ ليکن يہ کيا تحقيق ہے کہ دُنيا جنونی لوگوں سے بھری ہے۔ نہيں بات يہ نہيں بلکہ يہ ہے کہ دنيا ميں انسان کسی بھی عقيدے سے تعلق کيوں نہ رکھتا ہو کبھی نا کبھی عقيدے سے ہٹ کر انسانی جبلّت حاوی ہو جايا کرتی ہے۔ سو نتيجہ يہ کہ انسان انسان ہی ہے اوّل و آخر بس۔
دعاگو
شاہدہ اکرم
ان آمش حضرات کا طرز حيات قطعي حيرت انگيز ہے۔ ان کي زندگي بظاہر بڑي کٹھن نظر آتي ہے ليکن غالباً ان کے اندر کا سکون انہيں کسي کمي کا احساس نہيں ہونے ديتا ہوگا۔
کاش ان کي شرافت اور امن پسندی سے کُچھ سيکھ کر، کُرہ ارض کوامن وآشتي کا گہوارہ بنايا جا سکتا۔
خيرانديش
اے رضا
آپ کی بڑی غير حاضرياں ہيں خيريت تو تھی نا؟ ميں نے آپ کا بلاگ پڑھا تو فوراً يہ سوچنے پر مجبور ہو گيا کہ کيا کھبی ان علاقوں ( جن کا آپ نے ذکر کيا ) سے بھی کو ئی امريکی صدر ہوگا جس کو انسانوں سے پيار ہوگا، جو کٹر بم اور ميزائلوں سے نفرت کرتا ہوگا، جس کو صرف امن و محبت کا درس آتا ہوگا۔ جب اتنی کثير آبادی ايسی ہے تو پھر صدر بش جيسے حکمرانوں کو کيوں منتخب کيا جاتا ہے۔ آپ کا بلاگ ميرے ذہن ميں ان مٹ نقوش چھوڑ گيا ہے۔ اگر واقعی وہ امريکی جن کا آپ نے ذکر کيا درويش ہيں تو پھر يہ ظالم حکمران کيوں کر ساری دنيا پر غالب ہيں۔ کيا ان سے چھٹکارا ممکن نہيں ہے۔
دنيا جنونی لوگوں سے بھری ہے اس کا انکار کس کو ہے۔ امريکہ کے صدر کے جنون سے کون انکار کرسکتا ہے۔ کاش پنٹگان اور وائٹ ہاوز پنسلوانيہ کے لينکسٹر کاونٹی ميں بسنے والے ان سادہ لوح لوگوں سے کچھ تو سبق ليتے جو جنگ اور انسانوں پر ہتھيار چلانے سے گريز تو کرتے ہی ہيں مگر ساتھ ہی ساتھ اس جنونی بندوق باز کو بھی معاف کرديتے ہيں جس نے ان کی تين پھول سی معصوم بچيوں کو موت کے گھاٹ اتار ديا تھا۔ شايد اسی ليے اب تک قيامت برپا نہيں
ہوئی ہے۔
تحقیق سے متفق نہیں ہوں۔ دنیا جنونی لوگوں سے نہیں مایوس لوگوں سے بھری ہے۔ اور مایوسی کی انتہا ان کو جنونی بنا دیتی ہیں۔ جنون کا علاج شاید ممکن نہ ہو مگر مایوس لوگوں کی اُمید باندھی جا سکتی ہے۔ جس طرح آمیش لوگوں نے اسے معاف کر کے اسے ایک اور موقع دے دیا ہے۔